وجاہت مسعود کا ’’محاصرہ‘‘۔۔۔۔یاسر پیرزادہ

آج سے تیرہ برس قبل جب میں نے جنگ میں کالم لکھنا شروع کیے تو میرا خیال تھا کہ یہ کام بہت آسان ہے، کہیں بھی بیٹھ کر کچھ بھی گھسیٹ دو، چھپ جائے گا اور یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی، بے شمار کالم نگار آ ج بھی اپنے پیر کے انگوٹھے سے قلم پکڑ کر کالم گھسیٹتے ہیں اور ان کے مضامین پورے کروفر کے ساتھ اخبارات کی زینت بنتے ہیں، میں ایسے کالم نگاروں کا بے حد احسان مند ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے مجھ میں حوصلہ پیدا ہوا اور میں نے سوچا کہ اگر کالم کے نام پر یہ کچھ چھپ سکتا ہے تو پھر میری خرافات بھی شائع ہو سکتی ہیں۔ اور الحمدللہ ایسا ہی ہوا۔ مگر کالم نگاروں کی دوجی فہرست بھی ہے، اس فہرست میں وہ لوگ شامل ہیں جن کی تحریروں کا میں مداح ہوں، ان کالم نگاروں کی تعداد پندرہ سے زیادہ نہیں، ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کے نظریات سے مجھے بالکل اتفاق نہیں مگر ان کے طرزِ تحریر کا میں عاشق ہوں، مسئلہ مگر اِن کالم نگاروں کا یہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے عاشق ہیں اور ایک شیش محل میں رہتے ہیں جہاں انہیں چاروں طرف صرف اپنا عکس ہی نظر آتا ہے مگر سب ایسے نہیں، کچھ استثنیٰ بھی ہیں اور ان میں سے ایک وجاہت مسعود ہیں۔ میرے پسندیدہ پندرہ کالم نگاروں کی فہرست میں وجاہت کا نمبر پہلے پانچ میں آتا ہے، جس روز وجاہت کا کالم شائع نہ ہو اس روز اخبار کا صفحہ بانجھ لگتا ہے اور جس روز شائع ہو جائے اس روز حاملہ عورت کی طرح بھاری بھرکم لگتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ موصوف اساتذہ کی روایت کے عین مطابق بعض کالم ایسی اردو میں لکھتے ہیں جسے سمجھنے والے یا تو فوت ہو چکے ہیں یا پھر عنقریب فوت ہونے والے ہیں۔ مہینے میں ایک دو کالم جناب کے ایسے ضرور ہوتے ہیں کہ جنہیں پڑھنے سے پہلے فرہنگِ آصفیہ بغل میں داب کر رکھنا پڑتی ہے کہ ہر تیسری سطر میں قرون اولیٰ کی اردو کو کوئی نہ کوئی لفظ جڑ دیتے ہیں گویا ہم ایسوں کو چڑا کر کہہ رہے ہوں کیوں کیسی رہی! اور جب حضرت کا گاڑھی اردو سے جی بھر جائے تو پھر کلاسیکی ادب میں غوطہ لگا دیتے ہیں اور تہہ سے کوئی ایسا کوئی موتی نکال کر قاری کو پیش کرتے ہیں کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا قاری بیچارہ اپنی کم علمی پر شرمندہ ہو جاتا ہے۔ بات صرف اردو کلاسیکی ادب تک محدود رہے تو بھی غنیمت ہے، جناب کبھی انگریزی ادب کے حوالے ڈھونڈ لاتے ہیں تو کبھی فرانسیسی مصوروں کے فن پاروں سے کوئی تمثیل تراش لیتے ہیں، کبھی قدیم فلسفہ کی روایت کو موجودہ حالات پر منطبق کرتے ہیں تو کبھی دس سطروں میں پاکستان کی تاریخ کا کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں جو ہم میں سے بہت کم لوگو ں نے پڑھی اور اس سے بھی کم لوگوں کو یاد ہے۔

وجاہت مسعود کی کالم نگاری پر رائے دینے کی ضرورت آج اِس لیے پیش آئی کہ موصوف کے کالموں کا مجموعہ حال میں شائع ہو کر بازار میں آیا ہے، نام ہے ’’محاصرے کا روزنامچہ (۲)‘‘۔ اس کتاب میں روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے وہ کالم شامل ہیں جو زیادہ تر 2014ء کے آس پاس لکھے گئے جب ملک میں دہشت گردی کا زور تھا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق اور مخالفت میں دلائل دیئے جا رہے تھے، کتاب کیا ہے، پاکستان کی تاریخ ہے جو وجاہت نے کوزے میں بند کر دی ہے۔ یہ بات شاید آپ میں سے کچھ لوگوں کو مبالغہ آمیز لگے مگر میری رائے میں وجاہت مسعود جیسے صاحب مطالعہ کالم نگار ہمارے پاس دو چار ہی ہیں، وجاہت کا کمال یہ ہے کہ ان کی یادداشت ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسی ہے، آپ ان سے کوئی سوال پوچھیں موصوف تاریخی حوالوں کے ساتھ فی البدیہہ جواب دیں گے، کون سا لکھاری کس سن میں پیدا ہوا، اس کا افسانہ کس سال شائع ہوا، کب حلقہ ارباب ذوق میں پڑھا گیا، سب کچھ وجاہت کی انگلیوں پر ہے۔ اردو ادب پر ہی موقوف نہیں، وجاہت کی علمیت کا دائرہ تاریخ، فلسفہ، عمرانیات، قانون، بین الاقوامی ادب (جدید اور کلاسیک)، لسانیات، مصوری اور جانے کہاں کہاں تک پھیلا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اگر کسی کو اِس میں غلو کا شائبہ ہو تو وہ وجاہت کی کتاب پڑھ لے، قائل ہو جائے گا اور اگر فقط جھلک دیکھنی ہو تو اِس کتاب میں شامل افسانوی کالم ’’جادوگر نے لال ٹوپی سے کبوتر نکالا‘‘ پڑھ لیں، اندازہ ہو جائے گا کہ کرگس کا جہاں اور ہے وجاہت کا جہاں اور۔ وجاہت کی خوبی فقط یہ نہیں کہ وہ صاحب مطالعہ ہے، وجاہت کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے اور تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہونا کبھی آسان نہیں ہوتا، اِس راستے کی رکاوٹیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں، انسان کو یوں لگتا ہے جیسے وہ ایک حصار میں ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نہیں، اسی محاصرے کا روزنامچہ وجاہت مرتب کر رہا ہے، اس کا خیال ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں تو اس حصار کو نہیں توڑ پائیں گے تو کیوں نہ اس کا دیانتدارانہ احوال ہی لکھ جائیں۔ وجاہت مسعود کی تحریر کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں قطعیت نہیں ہوتی، دلیل کے زور پر مخالف کو زیر کرتے ہیں، کہیں کہیں طنز بھی کرتے ہیں مگر ایسا لطیف کہ پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ تعریف کی ہے، اپنی روزمرہ گفتگو میں البتہ موصوف نہایت بذلہ سنج اور اعلیٰ درجے کے جملہ باز واقع ہوئے ہیں مگر جونہی کالم لکھنے بیٹھتے ہیں تو ان کے اندر کا علمی دیو کا انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتا ہے، کالم کا عنوان ملاحظہ ہو ’’بوئے خوں ہے ایاغ میں گل کے‘‘ (انا للہ و انا الیہ راجعون)!

وجاہت کی جمہوریت پسندی، آئین سے پاسداری اور انسان دوستی سے کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے، مجھے بھی نہیں ہے، آپ ایک لبرل اور آزاد خیال انسان ہیں اور ظاہر ہے کہ اس طرح سے زندگی گزارنا جناب کا حق ہے بالکل اسی طرح جیسے ہمارے دیگر قابل احترام مذہبی کالم نگاروں کا یہ حق ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی تلقین کریں۔ پاکستان کا شہری البتہ الٹرا لبرل ازم اور مذہبی تنگ نظری کے درمیان کہیں پایا جاتا ہے، ایک پاکستانی شٹل کاک برقع پسند نہیں کرتا مگر ساتھ ہی کاک ٹیل پارٹیاں بھی گھر میں نہیں کرتا، جمعہ پڑھتا ہے مگر گانے بھی سنتا ہے، عید میلاد النبیؐ پر میلاد بھی کرواتا ہے اور مہندی پر ڈانس بھی کرتا ہے، محرم کا احترام بھی کرتا ہے اور کرسمس پر کیک بھی بھیجتا ہے۔ یہ ہے وہ پاکستانی جو اخبار کا قاری ہے اور جس کے لیے وجاہت مسعود اور دیگر کالم نگار کالم لکھتے ہیں۔ اس قاری نے اگر یہ جاننا ہے کہ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ کیا ہے اور اسے کیسے حل کیا جائے تو وجاہت کے روزنامچے سے استفادہ کرے۔ اگر وجاہت کی مشکل پسندی آڑے آئے تو میر تقی میرؔ کے اس شعر کی تشریح کسی سے کروا لے جو وجاہت نے اپنی کتاب پر مجھے لکھ کر دیا ہے:

Advertisements
julia rana solicitors

کون سی رات زمانے میں گئی جس میں میرؔ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply