میٹرک کا دور یاد ہے؟۔۔گل نوخیزاختر

آج کل میں اپنے آفس بوائے کو چوتھی دفعہ میٹرک کی تیاری کروا رہا ہوں اور یقین ِکامل ہے کہ یہ سلسلہ مزید پانچ چھ سال تک جاری رہے گا۔ ہر دفعہ وہ پوری تیاری سے پیپر دیتا ہے اوربفضل ِخدا‘ امتیازی نمبروں سے فیل ہوتاہے۔ پچھلی دفعہ بھی پیپرز میں وہ جو کچھ لکھ آیا وہ یقیناً  تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اسلامیات کے پرچے میں سوال آیا کہ ”مسلمان کی تعریف کریں“ موصوف نے جواب لکھا کہ ”مسلمان بہت اچھا ہوتاہے‘اُس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے‘ وہ ہوتا ہی تعریف کے قابل ہے۔

سائنس کے پرچے میں سوال تھا کہ ”الیکٹران اور پروٹان میں کیا فرق ہے؟“ عالی مرتبت نے پورے یقین کے ساتھ جواب لکھا کہ ”کچھ زیادہ فرق نہیں‘ سائنسدانوں کو دونوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔“

اُردو کے پرچے میں ساغر صدیقی کے اس شعر کی تشریح پوچھی گئی ”زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے……جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں“۔ جواب میں لکھا ”اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ویسے تو میں نے بہت سے جرم کیے تھے‘ چوری بھی کی‘ ڈاکا بھی ڈالا‘ دہشت گردی بھی کی‘ لڑکیوں کو بھی چھیڑالیکن یہ جو مجھے جج صاحب نے سزا دی ہے اس کا مجھے بالکل بھی پتا نہیں چل رہا کہ یہ کون سے والے جرم کی سزا ہے؟“۔

مجھے بے اختیار اپنا میٹرک کا زمانہ یاد آگیا جب ڈیٹ شیٹ گوند لگا کر الماری کے ساتھ چپکا دی جاتی تھی اور ایک کونے میں بیٹھ کر کتابوں کے درمیان ”عمران سیریز“ رکھ کر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دن رات پڑھائی شروع کر دی جاتی تھی‘ ماں صدقے واری جاتی تھی کہ میر ا بچہ تین گھنٹے سے مسلسل پڑھ رہا ہے۔صبح پیپر دینے کے لیے اٹھتے تھے تو دل کانپ جاتا تھا‘ تاہم ایسے موقعوں پر ماں جی سورہ فاتحہ پڑھ کر پھونک دیا کرتی تھیں اور دل مطمئن ہوجاتا تھا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں۔گھر سے نکلنے سے پہلے امتحانی گتے کے ہمراہ کافی سارے پین اور سیاہی کی شیشی ہمراہ رکھ لی جاتی تھی مبادہ پرچے کے دوران یہ سارے پین ختم ہوجائیں۔امتحانی مرکز میں پہنچتے ہی کوئی کمینہ سا لڑکا اچانک یہ کہہ کر ”تراہ“ نکال دیتا تھاکہ ”فلاں سوال آرہا ہے“۔یہ سنتے ہی ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے اور جلدی سے کسی لڑکے سے کتاب پکڑ کر ”فلاں سوال“ پر ایک نظر ڈال لی جاتی تھی کہ کچھ نہ کچھ تو ذہن میں رہ جائے۔

پیپر شروع ہوتا تھا تو جونہی سوالیہ پرچہ سامنے آتا تھا فوراً الٹا کر کے رکھ لیا جاتا تھا‘ پہلے تین چار سورتیں پڑھ کے دعائیں مانگی جاتی تھیں‘ پھر پرچے کو آہستہ آہستہ الٹ کر دیکھا جاتا تھا‘ سوال مرضی کے ہوتے تو ٹھیک ورنہ جواب مرضی کے لکھنا پڑ جاتے تھے۔ جس سوال کا جواب دینا ہوتا تھااُس پر پین سے نشان لگادیا جاتا‘ سب سے پہلے مارکر سے حاشیئے لگائے جاتے‘ پھر سرخ مارکر سے سوال لکھ کر جواب کا رخ کیا جاتا‘ کوشش کی جاتی تھی جو سوال پوچھا جارہا ہے وہ جواب کے شروع میں بار بار تفصیلا ً دہرا دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ صفحہ بھرا جاسکے۔ایسے میں پرچہ شروع ہوئے بمشکل آدھا گھنٹہ ہی گذرتا تھا کہ کونے سے کسی لڑکے کی آواز آتی تھی”سر ایک شیٹ دے دیں“۔اور دل اچھل کر حلق میں آجاتا تھا‘ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کم بخت نے آدھے گھنٹے میں ایسا کیا لکھ لیا ہے کہ آٹھ صفحے بھر گئے ہیں‘ ایسے لڑکے پرچے کے بعد فخر سے بتایا کرتے تھے کہ وہ دس شیٹیں ایکسٹرا لگا کر آئے ہیں‘ میری حسرت ہی رہی کہ کاش میں کم ازکم ایک شیٹ ہی ایکسٹرا لگا سکوں‘ لیکن ایسی نوبت کبھی نہ آسکی‘ الٹا جب میں پرچہ ختم کرتا تو ایک صفحہ خالی رہ جاتا۔

پرچہ شروع ہونے کے مراحل بھی بڑے دلچسپ ہوا کرتے تھے۔جیسے ہی سوالیہ پرچہ تقسیم ہوجاتا‘ قرب و جوار کے لڑکوں میں سرگوشیاں شروع ہوجاتیں‘ سب کا ایک دوسرے سے ایک ہی سوال ہوتاتھا”یار! صرف پہلا لفظ بتا دو“۔ پیپر کے دوران ”بوٹیاں“ لگانے کا رواج عام تھا تاہم اُس دور میں بڑی ”دیسی“ قسم کی بوٹی لگائی جاتی تھی‘ مثلاً باتھ روم میں کتاب رکھ دی اور بعد میں ہر دو منٹ بعد ایک پھیرا لگا آئے‘ یا قمیض کی اندر والی سائڈ پر کچی پنسل سے کچھ ”نوٹس“ لکھ لیے‘ کچھ بے باک لڑکے کاغذوں کی چٹیں بھی چھپا کر لے آتے تھے۔

میرا ایک دوست ایک دفعہ اسی طرح چٹ سے نقل لگاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا‘ لیکن اول درجے کا ہوشیار تھا‘ اس سے پہلے کہ نگران ثبوت کے طور پر اُس سے چٹ چھینتا‘ اس نے جلدی سے کاغذ کا گولا بنایا اور منہ میں ڈال کر نگل گیا‘ نگران منہ پھاڑے دیکھتا ہی رہ گیا۔سب سے دلچسپ پیپر‘ ریاضی کا ہوتا تھا‘ سوال بے شک کسی کو نہ آتے ہوں لیکن سب اپنے جواب ضرور ملا لیا کرتے تھے‘ اس مقصد کے لیے کلاس کے سب سے ہونہارلڑکے سے سرگوشی میں پوچھا جاتا تھا کہ جواب کیا آیا ہے؟ اگر وہ کہتا کہ 56‘ تو تھوڑی دیر میں سب کے پرچوں پر 56 تحریر ہوچکا ہوتا تھا۔جو لڑکا سب سے پہلے پرچہ ختم کر کے اٹھتا اُسے پکا فیل تصور کرلیا جاتا تھا۔پرچہ ختم ہونے کے بعد سب لڑکے آپس میں اکٹھے ہوتے اورتبادلہ خیالات ہوتا کہ کس نے کون سا سوال کیا ہے‘ ہر کسی کو یقین ہوتا تھا کہ وہ صحیح جواب لکھ کر آیاہے تاہم کتاب کھول کر جواب چیک کرنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مزے کی بات یہ کہ ایسے تمام تر جوابا ت لکھنے کے باوجود لڑکوں کی اکثریت33 نمبر لے کر پاس ہوجاتی تھی کیونکہ الحمدللہ پیپر چیک کرنے والے بھی ہماری طرح کے ہی ہوتے تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ”گٹھیں“ ناپ کے نمبر دیتے ہیں۔اللہ ان سب کی مغفرت کرے کہ انہی کی بدولت آج بہت سے جاہل عزت دار بنے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply