حمایت یا مخالفت کیوں؟۔۔۔سجاد حیدر

حکومتوں کی حمایت یا مخالفت ایک معمول کا رویہ ہے۔ آج تک دنیا میں کوئی ایسا حکمران نہیں گزرا جس کی ہر شخص تعریف کرتا ہو یا سب اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوں۔ اچھے سے اچھے حکمران کے کچھ نہ کچھ مخالفین ضرور ہوتے ہیں خواہ اسکی وجہ ذاتی دشمنی اور مخاصمت کیوں نہ ہو۔ اسی طرح برے سے برے حکمران بھی اپنے کچھ نہ کچھ مداحین ضرور رکھتے ہیں۔
عمران خان پاکستان کے ان معدودے چند حکمرانوں میں سے ہے، جس نے پاکستانی قوم کو پرو عمران اور اینٹی عمران دو گروپس میں بانٹ دیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تقسیم بھٹو کے بعد پہلی دفعہ نظر آئی ہے۔
اگر تھوڑا گہرائی میں جا کر موازنہ کیا جائے تو اس وقت قوم دو دھڑوں میں واضح طور پر بٹ چکی ہے۔ اینٹی عمران خان اور اینٹی نواز شریف یعنی سیاسی موقف کی بنیاد مثبت اندازِ  فکر کی بجائے منفی انداز فکر پر ہے۔
میاں صاحب کے مخالفین کے خیال میں پاکستان کے تمام مسائل کے ذمہ دار سابقہ سیاسی حکمران بالخصوص مسلم لیگ کا طرز حکمرانی ہے۔ وہ اپنے تجزیہ کی بنیاد ضیاءالحق کے مارشل لا ءپر رکھتے ہیں۔ انکے خیال میں چونکہ میاں نواز شریف ایک سرمایہ دارانہ پس منظر کے ساتھ سیاست کے کینوس پر نمودار ہوئے اور ابتدائی طور پر فوجی کی حمایت ہی انکا سیاسی سرمایہ تھا لیکن بعد میں روایتی سرمایہ دارانہ سوچ اور ہتھکنڈے جو دنیا میں متروک ہو چکے تھے انکی اصل طاقت اور مضبوطی کا باعث تھے۔ انکی نظر میں نواز شریف نے سیاست میں مالی بدعنوانی اور کرپشن کا بیج بویا، انہوں نے روایتی بدعنوان طبقات کو اپنے ساتھ ملا کر ایک ایسی مافیائی حکومت کی بنیاد رکھی جس میں کامیابی کی کلید شریف خاندان کے ساتھ ذاتی تعلق اور وفاداری تھی۔ ہر حکومتی شعبہ میں ایسے لوگوں کو داخل کیا جن کی وفاداری آئین یا پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ صرف اور صرف شریف خاندان کے ساتھ تھی۔ مخالفین کے خیال میں شریف خاندان نے اپنی خاندانی اور ذاتی دولت میں بے تحاشا اضافہ کیا اپنا سارا سرمایہ غیر قانونی ذرائع استعمال کر کے بیرون ملک منتقل کیا۔ اپنے خاندان اور کاسہ لیسوں کو ہر طرح کی پکڑ دھکڑ اور احتساب سے بالاتر رکھا، اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور دشمنی میں آخری حد تک گئے۔ انکی آشیرباد سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مخالفین کے خلاف ہر طرح کی گندی بات اور رکیک حملے ببانگ دہل کیے جاتے تھے اور میاں صاحب نے نہ کبھی انکو روکنے کی کوشش کی بلکہ اپنی خاموش حمایت سے اس کلچر کو بڑھاوا دیا۔ مخالفین کی رائے میں میاں صاحب نے بیرونی حکمرانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی بنیاد ذاتی مفاد پر رکھی نہ کہ ملکی مفاد پر۔
مخالفین ایک اور الزام بھی لگاتے ہیں کہ میاں صاحب جن میگا پراجیکٹس کا کریڈٹ لیتے ہیں ان میں بھاری کک بیکس اور کمیشن کھایا گیا بلکہ ایک قدم مزید آگے جا کر یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ انہی پراجیکٹس کو آگے بڑھایا گیا جن کی حیثیت نمائشی اور مالی طور پر انکے خاندان کے لیے فائدہ مند ہو۔ دلیل کے طور پر وہ صحت، تعلیم اور امن و عامہ کے شعبوں میں نواز حکومت کی بری کارکردگی کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ جس دور میں یہ میگا پراجیکٹس تکمیل کے مراحل طے کر رہے تھے اسی دور میں شریف خاندان کی دولت اور سرمایہ تیزی سے روبہ عروج تھا۔ آئینی اداروں کے ساتھ میاں صاحب کی چپقلش اور مخاصمت کو یہ گروہ کسی اصولی موقف کی بجائے میاں صاحب کے توسیع پسندانہ عزائم کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان کے مخالفین کی نظر میں عمران خان کی حیثیت ایک موقع پرست اور مفاد پرست سے زیادہ کچھ نہیں ہے جس کے پاس نہ کوئی سیاسی ویژن ہے اور نہ کوئی نصب العین۔ وہ سیاسی منظرنامہ میں ایک خلا کو پُر کرنے کے لیے سیاسی میدان میں کودا ہے جسے مقتدر حلقوں نے اپنے مقاصد کے لیے پک کر لیا ہے۔ انکے خیال میں عمران خان کی عوام میں مقبولیت ایک وقتی لہر ہے جو اپنی شوریدہ سری کے ختم ہوتے ہی حقائق کے ساحلوں سے ٹکرا کر گم ہو جائے گی۔ دلیل کے طور پر وہ عمران خان کی گیارہ ماہ کی حکومتی کارکردگی کو پیش کرتے ہیں کہ حکومت سنبھالتے ہی عمران خان نے بے تحاشا ٹیکس لگا کر عوام کی زندگی اجیرن کر دی، ٹیکس نیٹ بڑھانے کی آڑ میں تاجر طبقوں اور سرمایہ دار طبقات کو اتنا خوفزدہ کر دیا کہ ہر طبقہ یا تو سراپا احتجاج ہے یا اپنا سرمایہ نکال کر فرار ہونے کو تیار بیٹھا ہے۔ مہنگائی کا طوفان سر اٹھا چکا ہے جس سے نپٹنے کے لیے حکومت کے پاس نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ قابل افراد کی ٹیم۔ مخالفین ایک اور الزام بھی بڑی شدت سے لگاتے ہیں کہ سابقہ الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی حقیقی نہیں بلکہ مقتدر اداروں کی عطا کردہ تھی جو نواز شریف سے نالاں تھے، اور متبادل کے طور پر عمران خان کو سیلیکٹ کیا۔ اس غم و غصے کا اظہار وہ عمران خان پر سلیکٹیڈ کی پھبتی کس کر کرتے ہیں۔ انکے خیال میں عمران خان اپنے جن کارناموں (کرکٹ میں بحیثیت کپتان کامیابیوں، شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی) کو گنواتے ہیں وہ سماجی شعبے میں کامیابی جس کی بنا پر انکی سیاسی بصیرت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور الزام جو مخالفین عمران خان پر لگاتے ہیں کہ اس نے سیاست میں سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں بدل دیا ہے۔پٹواری، چور، ڈاکو، اور ڈیزل چور جیسے الفاظ عمران خان عام استعمال کرتے ہیں اور یہ بدزبانی عمران خان کے مقلدین میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ عمران خان صرف ایک کٹھ پتلی ہے جسے مقتدر اداروں نے سیاست دانوں کی عوام میں ساکھ کو تباہ و برباد کرنے کے لیے تیار کیا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان کے پاس نہ کوئی پلان تھا اور نہ کوئی ہوم ورک، یہی وجہ ہے کہ حکومت سنبھالتے ہی حکومتی نااہلی کھل کر سامنے آ گئی۔ مخالفین ایک اور چیز کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں کہ عمران خان جوش خطابت میں ایسے وعدے اور دعوے کر جاتے جن کے پورا ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا۔ لیکن خان صاحب اس سے صرف اپنے مداحین کو بےوقوف بناتے ہیں۔
یہ ہے وہ الزامات جو دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر لگایا جاتا ہے۔
ایک الزام جس کامیں نے ذکر نہیں کیا وہ ایک دوسرے پر غیرملکی ایجنٹ ہونے کا ہے۔ کسی کی نظر میں دوسرا مودی کا یار ہے تو جواب آں غزل کے طور پر دوسرا پہلوں کو یہودی ایجنٹ کہتا ہے۔
تو جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ یہاں معاملہ حمایت سے زیادہ مخالفت کا ہے۔ ہم لوگ مخالفت میں اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ شیطان سے کم کسی کو سمجھتے ہی نہیں۔ ہماری نظر میں یا تو لیڈر شیطان ہوتا ہے یا فرشتہ، درمیان میں انسان کے لیے ہمارے پاس کوئی گنجائش ہی نہیں، کسی چائے خانہ پر چلے جائیے، مین سٹریم میڈیا کو دیکھ لیں یا سوشل میڈیا کا تجزیہ کریں، ہر جگہ معتقدین اور مخالفین باہم دست و گریبان ہیں۔ ایک دوسرے کی بھد اڑانا، سیاسی مخالفت کو ذاتی مخاصمت اور دشمنی تک لے کر جانا یہ ہمارا خاصہ بن چکا ہے۔ ان رویوں نے ہماری قومی شخصیت کو مسخ کر رکھ دیا ہے۔ مطالعہ تحقیق ہمارے لیے نامانوس الفاظ ہیں۔ اگر چلن ہے تو الزامات کا۔۔

Facebook Comments

سجاد حیدر
شعبہ تعلیم، یقین کامل کہ میرے لوگوں کے دکھوں کا مداوا صرف تعلیم اور تربیت سے ممکن ہے۔ استحصال سے بچنا ہے تو علم کواپنا ہتھیار بناٗو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply