ہم جنسیت اور اسلام۔۔۔۔۔سلیم جاوید/قسط6

یورپ میں “گے رائٹس” کا غلغلہ مچا ہوا ہے-(مراد “گے سیکس” کرنے والاطبقہ ہے)-
ہم چونکہ بیمار کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی پردہ پوشی کی جائے اور اسکا علاج کیا جائے ، چنانچہ ہم “گے رائٹس ” کے پرزورحامی ہیں-

ایک ہوتی ہے”عادت” جو کہ تبدیل کی جاسکتی ہے مگر “فطرت” ایک ناقابل تغیر چیزہے-

ہم جنسیت ایک “غیر فطری” جذبہ نہیں ہے مگرایک ” ابنارملٹی ” ہے -ہمارے اس موقف پر”دونوں”  طرف کے احباب معترض ہیں مگرہم اپنی اسی رائے پرمصر ہیں- اسکی وجہ یہ ہے کہ اگرہم جنسی کو”فطری” قراردیا جائے تونتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسا شخص یا تو خود کونارمل سمجھ کر، بیباک ہوجائے گا یا پھرخود کو ناقابل اصلاح سمجھ کر، مایوس ہوجائے گا- دونوں باتیں اچھی نہیں ہیں-

دوسری طرف اگر اسے “غیرفطری” کیفیت قرار دیا جائے تونتیجہ یہ نکلے گاکہ ایک طرف ایسے لوگوں سے تعصب اور نفرت کو بڑھاواملے گا تودوسری طرف شدیدمنافقانہ رویئے ظاہر ہونگے-

معاشرے کوسمجھنا چاہیے  کہ دیگرنفیساتی امراض کی  طرح ،یہ بھی فقط ذہنی گرہ بندی ہے- اسی دنیا میں ایسے کروڑ پتی آدمی بھی موجود ہیں جو چھوٹی چھوٹی چیزوں کی چوری کی عادت سے مجبورہوکرکسی فائیوسٹار ہوٹل کے چمچے بھی چرالیاکرتے ہیں- اسکی وجہ انکی “تنگ دستی” نہیں ہواکرتی- گاہے ہم جنس کو ایک خوبصورت بیوی میسر ہوتی ہے مگریہ کہ نفسیاتی مسئلہ – پھربیماری کو اگر”فطرت” قرار دیں تو اپنا علاج کون کرائے گا؟-

دیکھیے، ایک ہوتی ہے بیرونی( مادی) فطرت اور ایک ہوتی ہے اندرونی (روحانی) فطرت-

مادی فطرت( اولاد پیدا کرنا، کھانا کھانا وغیرہ)-

مثلاً  عورتیں، بچہ جنتی ہیں-ہرانسان کھانا کھاتا ہے- کوئی  مرد اگر بچہ جنے یا کوئی  بندہ بغیرکھائے زندہ رہ سکتا ہو تو یہ غیرفطری بات ہے-

روحانی فطرت( امن کی چاہت ہونا، شہوت کا ہونا وغیرہ)-

مثلاً  سب لوگ امن سے رہنا چاہتے ہیں اور ہرانسان اپنی شہوت پوری کرنا چاہتا ہے- کوئی  قوم امن کو ناپسند کرے یا کسی میں شہوت کا جذبہ ہی نہ ہو تو یہ غیرفطری ہے-

نارمل اورابنارمل ہونا ایک الگ موضوع ہے—اسکو سمجھنے کیلئے اوپر والی مثالوں کو ہی آگے بڑھاتے ہیں-

مثلاً  ایک عورت بچہ جنتی ہے مگرنامکمل بچہ یا کوئی  ایک بندہ کھانا کھاتا ہے مگرایک وقت میں ساٹھ روٹیاں  کھالیتا ہے تو یہ ابنارملٹی ہے-

یا مثلاً  ایک بندہ امن چاہتا ہے مگرظلم ودہشت پھیلاکریا کوئی  اپنی شہوت پوری کرنا چاہتا ہے مگرجنس مخالف کی بجائے، اپنے ہم جنس سے تو یہ ابنارملٹی ہے-

فطرت اور عادت کے ضمن میں اوپر جو کچھ خاکسار نے بیان کیا   وہ انسانی تاریخ کے عمومی رویے کے پیش نظر کیا ہے- مگرہم مسلمانوں کیلئے چیزیں طے کرنے کا اصل ریفرنس “قرآن” ہوتا ہے-

اس ضمن میں قرآن سے بھی پوچھ لیتے ہیں-

فطری وغیرفطری کیا ہے؟

قرآن بتاتا ہے کہ عورت جب مرد سے ملاپ کرے توبچہ جنتی ہے(یہ فطری ہے)- مگربغیرمرد سے ملے اگرایک عورت بچہ جنے گی تو غیرفطری ہے(اسکو معجزہ قرار دیا گیا کیونکہ خدا ہی ایسا کرسکتا ہے)-

اسی طرح انسان کی فطرت ہے کہ اسے زندگی کیلئے کھانا کھانا پڑتا ہے-( حضرت عیسٰی کو انسان ثابت کرنے  کو یہ نشانی دی گئی کہ اسے بازار کی حاجت ہوتی ہے اور وہ کھانا کھاتا ہے) مگربغیرکھائے اگر کوئی  تین صدیاں زندہ رہ جائے تو یہ غیرفطری ہے( اسکو معجزہ کہیں گے)-

نارمل اورابنارمل کیا ہے؟۔۔۔۔

انسان امن چاہتا ہے ،یہ نارمل بات ہے-مگر جو دعویٰ امن کا کرتے ہیں مگردراصل فساد پھیلاتے ہیں وہ ابنارمل ہیں( یہ دونوں باتیں قرآن میں ہیں)- اسی طرح قوم لوط نے ہم جنس سے شہوت کی تو قرآن اسکو ابنارمل کہتا ہے( عذاب مگر”ہم جنسیت” پہ نہیں بلکہ ریپ کرنے پرآیا تھا جیسا کہ پہلے تفصیل بیان ہوچکی)-

معلوم انسانی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ بعض جانوروں میں بھی ہم جنسی کا جذبہ موجود پایا گیا-بہت محدود سہی مگرقرآن میں بھی مذکور ہے- ( قرآن نے ایسے مردوں کا ذکرکیا جن کو عورت کی حاجت نہیں ہوتی) پس یہ فطری چیز ہوئی  تاہم یہ ابنارملٹی اس وجہ سے ہے کہ قرآن میں مرد کی شرمگاہ کا مصرف صراحتاً  جنس مخالف ذکرکیا گیا ہے-

فطرت کے ضمن میں ہم کئی دیگر چیزیں بھی قرآن سے ہی لیتے ہیں -مثلاً  ہم کہتے ہیں کہ انسان کیلئے شرم وحیا ایک فطری عمل ہے کیونکہ جونہی آدم وحوا کا لباس اتارا گیا تو انہوں نے پہلا کام اپنی شرمگاہ کو چھپانے کاکیا- اب کوئی  یہ کہے کہ انسان ننگا پیدا ہو تا ہے تو یہ اسکی فطرت ہے تو ہمیں اس سے اختلاف ہے کیونکہ فطرت “ایج وائز” الگ ناپی جاتی ہے- بچے اور بڑے کی فطرت میں فرق ہوتا ہے- بچہ دوسال تک صرف دودھ پہ پلتا ہے تو کیا ساری عمر صرف دوددھ ہی پیتا رہے گا؟-

برسبیل تذکرہ، قرآن اور تاریخ انسانیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہےغذا میں اچھی چیزیں کھانا اور گندگی سے دور رہنا بھی انسانی فطرت میں شامل ہے اور یہ کہ ایک انسان ، فطری طور پرپاخانہ کھانے سے اجتناب کیا کرتا ہے – اسی تناظر میں، پاخانہ کے برتن سے بھی پرہیز کرتا ہے- ٹوائلٹ کے صاف ستھرے کموڈ پر اگرمکھن لگا دو تو کوئی  انسان اسکو اپنی زبان سے نہیں چاٹے گا کیونکہ کموڈ ، گندگی کا محل جانا جاتا ہے-( مگرمیلے دسترخوان پربھی لقمہ گرجائے تواٹھاکرکھالیاجاتا ہے کیونکہ وہ پاخانے کا محل نہیں ہوتا)-

انسانوں کے پیشاب پاخانے کے اعضاء کو اپنی زبان سے چاٹنا، میرے نزدیک ایک غیرفطری عمل ہے مگرحیرت ہے کہ اس پہ کوئی  آواز نہیں اٹھاتا- پیشاب گاہ کا پیشاب گاہ سے جوڑ سمجھ میں آتا ہے مگرخوراک گاہ کا پیشاب گاہ سے جوڑ؟-

چلیں چھوڑیں، اگلی بات کی طرف بڑھتے ہیں-

ہمارے نزدیک “گے” ہونے کے بھی مختلف  لیولز ہیں-

پہلا لیول: یہ کہ کسی کواپنے ہم جنس کی طرف جنسی کشش محسوس ہوتی رہتی ہے-

دوسرا لیول: اسکو انگریزی میں شاید” سافٹ سیکس” کہا جاتا ہے جس میں محبوب کے ساتھ جسمانی پیار ومحبت رچانے کی شدید تمنا ہوتی ہے نہ کہ جنسی عمل کرنے کی- (اسکوہمارے گاؤں دیہات میں “سچیاں محبتاں” کہا جاتا ہے)-

تیسرا  لیول: اپنے ہم جنس کے ساتھ فعلاً  سیکس کرنے کا  ہے- (چاہے فاعل ہو یا مفعول)-

اگر کوئی “گے” آدمی پہلے  لیول پر ہے توجانیے کہ وہ مریض ہے ہی نہیں، اب اسے اپنے اعصاب پہ سوار کرنے کی ضرورت نہیں ہے-

ایک نکتہ نوٹ کیجیے۔۔ مسلمان کی عبادت میں ، جذبہ شہوت خلل ڈال دیا کرتا ہے- میں عرض کرتا ہوں کہ ہم جنسی میلان رکھنے والے لوگ، اپنی عبادات پر”سٹریٹ” لوگوں کی بہ نسبت زیادہ ثواب پائیں گے- اس لیے  کہ “سٹریٹ” لوگ جس شہوانی مصیبت سے صرف عورت کو دیکھ کر گذرتے ہیں، ہم جنس بیچارے ہروقت اسی اذیت سے گذرتے رہتے ہیں- ایسے میں اگر خود پرقابو رکھا تو ہرعبادت کا زیادہ ثواب پائے گا- ( جیسا کہ ایک آدمی قرآن اٹک اٹک کرپڑھتا ہوتو اسکوڈبل اجرملتاہے)-

اگر کوئی  “گے” آدمی دوسرے  لیول پرہے اور اسکا پارٹنر بھی رضامند ہے تو یہ دونوں گناہ گار ضرور کہلائے جائیں گے مگرجرم دار نہیں (پہلے ایک مضمون میں یہ فرق واضح کیا جاچکا ہے)- سچی توبہ سے یہ گناہ معاف ہوجاتا ہے( چاہے باربار بھی توبہ کرتا رہے کیونکہ : ایں درگہ ما، درگہ نومیدی نیست- صدبار اگر توبہ شکستی، بازآ)-

البتہ “سدذرائع” کی مد میں اس عادت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسکی مثال میں ایسے نفسیاتی مریض کو لے لیں جس میں بجلی کا ساکٹ یا سمندر کو دیکھ کرخودکشی کی خواہش ابھرتی ہے- چنانچہ ایسے آدمی کو خود اپناخیال رکھنا چاہیے۔۔

اگر کوئی  “گے” بندہ تیسرے لیول کا مریض ہوچکا ہے ( بالخصوص مفعول) تواس کواپنا علاج کرانا بہت ضروری ہے-

بھئ بات یہ ہے کہ خاکسار کے بعض لبرل دوست ہیں جواپنی اس عادت پہ نادم وپریشان رہتے ہیں- میں ایسے لوگوں کا قدردان ہوں بہ نسبت ان اداکار مذہبی لوگوں کے جو امرد بچوں کے گال وگردن چومتے ہوئے، انکی دینی حوصلہ افزائی  کا ڈھونگ رچایا کرتے ہیں-

میں سمجھتا ہوں کہ خدا نے کسی میں ہم جنسی کا مرض رکھا ہے تو وہ “گے” آدمی ، اس “سٹریٹ” شخص سے بہرحال بہتر ہے جو”ریپسٹ ” ہوتا ہے یا اپنی محرمات پہ غلط نگاہ رکھتا ہے-

بات یوں ہے کہ انبیاء کے سوا، خدا نے کسی کو بھی کامل تو پیدا کیا ہی نہیں- خوبیاں اور خامیاں بانٹی ہوئی  ہیں- میرا تجربہ یہ ہے کہ اکثر ہم جنس افراد، مالی طور پرکرپٹ نہیں ہوتے جبکہ بزعم خود پاک لوگوں کو اکثر مالی کرپشن میں ملوث پایا ہے- آپ ہی سوچ لیں کہ “جنسی خیانت” اور”مالی خیانت” میں سے بڑی بیماری کون سی ہے؟-

کوشش بہرحال کرنا چاہیے کہ اچھی عادات اپنائی  جائیں کیونکہ ہرانسان، دنیا میں کاملیت کو پسند کیا کرتا ہے-

دیکھیے، کوئی  مرض دنیا میں ایسا نہیں ہے کہ خدا نے جس کی دوا نہ پیدا کی ہو-مریض ہونا کوئی  عیب نہیں ہوتا بلکہ اپنے مرض کا علاج نہ کرانا عیب ہوتا ہے۔ (پھر اپنے مرض پہ فخر کرنا تو گویا ایک اور دماغی خلل ہے)-

صحیح ڈاکٹر تک پہنچنامریض کا کام ہے اور شفا من جانب اللہ ہے-ڈاکٹر تک پہنچنے کی اس کوشش کو “مجاہدہ” کہا جاتا ہے اور مجاہدہ کرنے والوں کو راستہ ضرور سجھایا جاتاہے-

اگرچہ خاکسار کو موجودہ تصوف پہ چند بنیادی اعتراضات ہیں جن کا تذکرہ پھر کبھی مگر فی الحال اتنا عرض کرتا ہوں کہ تصوف میں ہی سب نفسیاتی الجھنوں کاکامل علاج موجود ہے-(اب یہ الگ بات ہے کہ ہر شعبہ میں زوال آیا ہے اورکو بکو پھیلے عطائیوں نے وہ کالک پھیلائی  ہے کہ اصلی مسیحا بھی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں)-

ایسے امراض کا علاج وقت مانگتا ہے-اس لیے کہ “سرجن” اگرایک جسمانی آپریشن گھنٹوں میں مکمل کرلیتا ہے تو ” فیزیشن” کا علاج کئی ہفتے لے لیتا ہے اور “سائیکاٹرسٹ”، شاید کئی  ماہ لےلے-

عرض یہ ہے کہ “سائیکالوجی” کو تصوف اور”سائیکوتھراپی” کو تزکیہ کہا جاتا ہے-ہمارا خانقاہی نظام دراصل، نفسیاتی گتھیاں سلجھانے کا نظام ہے -شیخِ طریقت، نفسیات داں ہی ہوتے ہیں- اتنا تو بہرحال ہر معالج کے علم میں ہوتا ہے کہ مرض کی تشخیص کرنے کے بعد، اسکا علاج کے دوران تین باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے-

1- مریض کی پردہ پوشی کرنا- یہ روح تصوف ہے-

2- مریض کو مایوسی سے نکالنا اور حوصلہ دینا- (مومن کا خود اپنے لئے یہ فارمولا کہ مکھی جتنے گناہ کو سر پرپہاڑ سمجھے-مگر دوسرے کیلئے یہ فارمولا کہ ایک پشیمان زانی کو ابوہریرہ تسلی دے رہا کہ آپ نے زنا ہی تو کیا ہے، کوئی  غیبت تو نہیں کی)-

3- کوئی  بھی نشہ ایکدم نہیں چھڑوایا جاتا- گاہے کم نشہ پہ لانا پڑتا ہے اور گاہے متضاد نشہ پہ کچھ دن لگانا پڑتا ہے- (عقل مندراشارہ کافی است)-

ایسے لوگ جو اس عادت سے چھٹکارا پانے کومخلص ہیں مگر اظہار کا یارا نہیں توخاکسار ایک نسخہ عرض کرتا ہے کہ مسلسل تین بار”گناہ” کا موقع ملنے کے باوجود کسی نے اپنی قوت ارادی سے خود پرقابوپالیا تو قدرت اسے کم ازکم ایک سال تک ایسے نور سے نوازے گی کہ اسکو اس فعل سے ازخود کراہت محسوس ہوتی رہے گی( یہ کلیہ میں نے ایک حدیث سے مستنبط کیا ہے)-

دوستوں نے یو-ٹیوب پر”گے پرائیڈ” کے جلوس دیکھ رکھے ہونگے- یورپ سے نکل کراب انڈیا وجاپان میں بھی یہ منعقد ہونے لگے ہیں- مستقبل قریب میں شاید کراچی تک پہنچ جائیں- ان جلوسوں میں “گے کمیونٹی” کی طرف سے عموماً تین مطالبات دہرائے جاتے ہیں- ان مطالبات کے ضمن میں مسلم سیکولرموقف کیا ہونا چاہیے؟ اسی پران شاء اللہ اگلی قسط میں گفتگو کریں گے-

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply