مذہب کو “تدوین”کی ضرورت ہے۔۔۔اسد مفتی

یہاں مجھے علماء سے شکایت ہے۔
سوال یہ ہے کہ جن لوگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن کریم اور اسلام کی تعلیمات کو دیانت دارانہ طریقے پر ہم تک پہنچائیں،کیا وہ اپنے فرض کو ادا کرنے میں دیانت داری رہتے ہیں؟
یا انہوں نے خو کو”دینی و مذہبی حکمران “سمجھ کر مسلمانوں کو چرب زبانی کی لاٹھی سے پیٹ پیٹ کر “سیدھا “کرنے کی قسم کھائی ہے؟
وہ صرف اسلام اسلام کے ورق کوٹنے پر لگے ہوئے ہیں،اور صحیح جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔
میرے حساب سے تبلیغ اسلام کی ذمہ داری،اناڑی،کم علم اور جاہل لوگوں کت کندھوں پر ڈالی گئی ہے،تب سے تعلیم یافتہ دانشور،افراد کے ذہنوں میں سوالات کی ایک قطار لگ گئی ہے۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان اناڑی،انپڑھ،کم علم اور ابوجہل حضرات نے ایسے ایسے من گھڑٹ قصے اور واقعات ایجاد و اختراع کرکے دہرانے شروع کردیے ہیں جو حلق سے نیچے نہیں اترتے۔دارافتاء کی مسندوں پر ایسے ایسے افراد قابض ہوگئے ہیں جو یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ وہ مذۃب یا دین سے متعلق کسی سوال کا تشفی و تسلی بخش جواب دے سکیں۔میرے ساتھ رو خود ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا یا ہے۔۔میں نے ایمسٹرڈیم میں ایک عالم جو ڈاکٹر،پروفیسر اور شیخ الاسلام بھی ہیں کو ایک اجتماع میں ایک تحریری سوال نامہ پیش کیا جو ان کے نائبین نے وصول کرکے مولانا کی خدمت میں پیش کیا۔
میرا پہلا سوال تھا کہ۔۔حج بدل کا حکم قرآن کریم کی کس آیت میں ہے؟
دوسراسوال تھا کہ۔۔عید الاضحیٰ کے موقع پر جو قربانی مسلمان کرتے ہیں،کیا مقامِ حج کے علاوہ یہ مسلمانوں پر فرض ہے؟
اگر یہ فرض ہے تواس کا حکم غیر مقام ِ حج کے لیے قرٓن کریم کی کس آیت سے ثابت ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر کوئی جواب نہ ملا!
اللہ کے آخری نبیﷺ نے اپنے آخری خطبہ تک میں یہ واضح ارشاد فرمایا کہ “میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں،ایک اللہ کی کتاب،قرآن کریم،جس کے اند ر ہدایت اور روشنی ہے۔اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو اور دوسری چیز میرے اہلِ بیت ہیں۔میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمہیں خدا کویاد دلاتا رہوں گا”

آخری جملہ کو آپﷺ نے تین دفعہ مکرر فرمایا۔یہ صحیح مسلم (مناقب حضرت علی)کی روایت ہے۔نسائی،مسند امام احمد ترمذی،طبرانی وغیرہ میں کچھ اور فقرے بھی ہیں جن میں حضرت علی کی بھرپور منقبت کی گئی ہے۔

احادیٹ کے قدیم ایڈیشنوں میں جو 1532سے قبل طبع شدہ ہیں یہ الفاظ موجود ہیں،ان میں کہیں سنت کا ذکر نہیں ہے۔احادیث کے جدید ایڈیشنوں میں اہلِ بیت کی جگہ کسی خاص ضرورت یا سازش کے تحت لفظ سنت کردیا گیا ہے۔
حج بدل کا کوئی حکم قرآن کریم میں میری نظر سے نہیں گزرا۔یہ سلسلہ کیسے قائم ہوا اور کس نے “ایجاد”کیا،اس پر میں یہاں بحث نہیں کورں گا۔صرف اتنا عرض کروں گا کہ مرنے کے بعد انسان کا عمل سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔اوراس کی کتاب ِ عمل بند کردی جاتی ہے۔اور قرآن کریم کا صا ف اعلان ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی دوسرا نہیں اٹھائے گا،اور ہر شخص خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوگا۔فاتحہ صرف دعا ہے جس کو قبول کرنا،نہ کرنا اللہ کا کام ہے۔
حج اور قربانی عمل ہے جس کا سلسلہ مرنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے،کیا کوئی مفتیانِ دیں،تاریخ سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ کسی صحابہ نے حج بدل کیا ہو؟۔۔۔۔یا حضورﷺ اور خلفاء راشدینکے زمانے میں مسلمانوں میں حج بدل کا جحان قائم ہو؟۔۔۔کچھ حضرات “ہبہ” کی نظیر پیش کریں گے تو وہ میں عرض کردں گا کہ ہبہ زندگی اور ہوش و حواس قائم کا ثواب پہنچا سکتا ہے۔تو پھر عملِ بد کا کیوں نہیں؟۔۔پھر تو لوگ گناہ کریں اور مردہ افراد کے سر ڈال دیں،اور خود پاک ہوجائیں۔اور روزِ محشراسی شخص کو سزا ملے گی جس کو گناہ کا ٹرانسفر ہو اور گناہ کرنے والا جنت میں مزے کرے گا۔اور حوضِ کوثر کے کنارے شراب ِ طہورہ کے جام انڈیلے گا۔یا پھر مفتی حضرات قرآن کریم کی اس آیت کا حوالہ دیں گے جس کی رو سے ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے نیک اعمال کا ثواب پہنچا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح غیر مقام پر جانوروں کی قربانی کیسے واجب ہے؟میں نے خاص اس سلسلہ میں قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے۔مجھے اللہ کی کتاب میں کوئی حوالہ نہ ملا،پھر میں نے رسول ِ خدا کی مقدس سوانح حیات کا مطالعہ کیا ہے۔میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ آپ ﷺ نے ان ایام میں جب آپ ﷺ نے حج ادا نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ہو،یہی حال صحابہ کرام کا رہا ہے۔میں مانتا ہوں کہ دین کے معاملے میں مَیں ایک طالب علم ہوں یا دین کے معاملے میں “نابینا “رہا ہوں،ہوسکتا ہے قرآن کریم میں وہ نکات مجھ کو نظر نہ آئے ہوں۔
جن سے یہ ثابت شدہ ہوسکے کہ قربانی دنیا کے اہلِ زر ہر مسلمان پر واجب ہے،قربانی سے متعلق قرآن کریم میں سورہ بقرہ کی آیت 196،سورہ الحج کی آیت28,34,36,37ہے جوحج سے ہی وابستہ ہیں لیکن ان میں کہیں بھی کوئی ایسی بات درج نہیں ہے۔جس سے میری تشفی ہوسکے اور جو مروج ہیں،ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،کوئی دانشور علماء مشائخ جو حقیقت شناس ہو اور میری اس تشنگی کو قرآنی آیات کے حوالے سے بجھائے کہ ہر بار جب میں حقیقت کے لیے دروازے بند کرتا ہوں تو کھکی کے راستے سے میرے گھر کے اندر داخل ہوجاتی ہے۔
میرے حساب سے موجودہ زمانے کے مسلمان حقائق پسند نہیں ہیں،جبکہ حقائق کا ایک نیا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔اس نے مسلمانوں کے ملی وجود کو ہر طرف سے چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔مگر مسلمانوں نے اپنے “دروازوں اور کھڑکیوں “کو بند کرکے سمجھا کہ وہ طوفان کی زد مسے محفوظ ہوگئے ہیں،انہوں نے غیر جانبدارانہ طور پرمسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی،وہ یہ سوچ کرمطمئن ہوگئے کہ ہم نے تو بحرِ ظلمات میں اپنے گھوڑے دوڑا دیے ہیں،اب ہم بے تیغ بھی لڑ سکتے ہیں۔ہم نے آندھیوں سے کہہ دیا ہے کہ تم اپنا راستہ دوسری طرف تلاش کرلو،پھر یہ طوفان ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔
میرا مانیے تو اپنے بچھڑے پن کا اعتراف کرلیجیے،کہ مسلمانوں کے لیے تعمیرِ نو کا آغاز یہی ہے۔اور جب تک وہ اس کا اعتراف نہ کریں،وہ اپنی منزل کی طرف کوئی حقیقی سفر شروع نہیں کرسکتے۔
نہ تسلی،نہ تشفی،نہ عنایت،نہ کرم
ایسے آنے سے تو بہتر تھا،نہ آنا تیرا!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply