منڈی بہاء الدین بنام پرویز الٰہی۔۔آغر ندیم سحر

محترم وزیر اعلیٰ !منڈی بہاء الدین کا سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک ہے‘اتنے بڑے شہر میںداخلے کے لیے صرف ایک روڈ موجود ہے جو پھالیہ سے ہوتا ہوا شہر میں داخل ہوتا ہے‘اگر شہر میں داخلے کے لیے مزید ایک راستہ بنا دیا جائے تو نہ صرف ٹریفک کا بہاؤ تقسیم ہو جائے گا بلکہ حادثات میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔اس کا بہترین حال رنگ روڈ ہے تاکہ اکلوتے داخلے پر ٹریفک کی شدت کم ہو سکے‘ورنہ صورت حال حدسے زیادہ گھمبیر ہے ‘راستہ ایک اور ہزاروں گاڑیاں اور مسلسل حادثات۔دوسرا اس شہر کا اہم ترین ایشو میڈیکل کالج ہے‘کیسا المیہ ہے کہ جس شہر کا لٹریسی ریٹ ستر فیصدسے زیادہ ہے‘وہاں میڈیکل کالج ہے اور نہ اپنی یونیورسٹی۔ گزشتہ حکومت میں جب اوکاڑہ‘حافظ آباد‘چکوال‘جہلم سمیت کئی شہروں میں یونیورسٹیاں بن رہی تھیں‘یہاں کے ممبرانِ اسمبلی انا کی جنگ لڑنے میں مصروف تھے‘ایک یونیورسٹی منظور کرواتا تھا تو دوسرا روک دیتا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج تک میڈیکل کالج کے بارے نہ بات ہوئی اور نہ کسی ممبر اسمبلی نے کوشش کی لہٰذا جناب وزیر اعلیٰ! یہاں کے ممبران اسمبلی کو اس بات کی تو فکر ہے کہ ان کے بعد قومی اسمبلی کا ٹکٹ ان کے بیٹے کو ملنا چاہیے مگر اس شہر کے طلبا کے مسائل کیا ہیں‘یہاں کے مسیحاؤں کو اس سے کچھ واسطہ نہیں۔ یہاں کے بچوں کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے لاہور یا راولپنڈی کا رخ کرنا پڑتا ہے‘ درمیان میں کوئی بڑا میڈیکل کالج موجود نہیں۔ لہٰذا اس شہر کو یونیورسٹیوں کا سب کیمپس دینے کی بجائے ایک ’یونیورسٹی آف منڈی بہاؤ الدین ‘اور ایک ’منڈی بہا ؤالدین میڈیکل کالج‘دیا جائے‘یہ اس شہر کے طالب علموں پر سب سے بڑا احسان ہوگا۔ محترم وزیر اعلیٰ !1962میں جب رسول و قادر آباد بیراج اور نہر اپر جہلم و لوئر جہلم بن رہی تھیں‘اس وقت کے وزیر خزانہ محمد شعیب نے ایک تجویز دی تھی کہ ان نہروںپہ جہاں ہمیں ہر پانچ کلومیٹر بعد بیس فٹ کی گہرائی ملتی ہے‘وہاں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے ہوں گے تاکہ یہاں کے علاقوں کی بجلی کی قلت پوری کی جا سکے‘دوسری صورت میں ان نہروں کو بار برداری کے لئے استعمال میں لایا جائے،اب اس بارے سوچنے کی ضروت ہے۔محترم وزیر اعلیٰ !آپ جانتے ہیں کہ زرعی اعتبار سے منڈی بہاؤ الدین کی زمین انتہائی زرخیز ہے‘یہاں کے پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن نے ٹاؤنز بنا بنا کر زرعی رقبہ تباہ کر دیا ہے‘ایک طرف ماحولیاتی آلودگی اور دوسری جانب زرعی زمینوں کا خاتمہ۔اگر اس پریشان کن صورت حال پر ایکشن نہ لیا گیا تو دو چار سال بعد ہمیں چاروں طرف ٹاؤن ہی ٹاؤن نظر آئیں گے‘ زراعت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہوگی‘اس پر بروقت قانون سازی کی ضرورت ہے۔محترم !2014ء میں جب رسول یونیورسٹی کا چارٹرڈ منظور ہوا تھا تو پانچ فکیلٹیز کی منظوری دی گئی تھی‘اللہ بھلا کرے نون لیگی احسن اقبال کا کہ وہ چار فکیلٹیز کو نارووال یونیورسٹی میں لے گئے‘یہاں ایک فکیلٹی رہ گئی جو برائے نام موجود ہے۔آج تک اس یونیورسٹی میں کسی طرح کا اسٹاف بھرتی کیا گیا اور نہ ہی اسے سنجیدہ لیا گیا‘رسول یونیورسٹی کا سینکڑوں ایکڑ کا رقبہ کسی مسیحا کا منتظر ہے‘اگر اس پہلے سے منظور شدہ یونیورسٹی پر ہی توجہ دی جائے تو اس خطے کو یو ای ٹی اور نسٹ جیسی ایک بہترین انجینئرنگ یونیورسٹی مل سکتی ہے۔ محترم وزیر اعلیٰ ! منڈی بہاء الدین میں ایک انڈسٹریل زون بھی منظو ہوا تھا‘آج تک اس پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔یہاں لوگوں کے پاس پیسہ بھی ہے اور انرجی بھی،اگر اس انڈسٹریل زون کی ڈویلپ منٹ پہ توجہ دی جائے تو اس شہر میں لگنے والی انڈسٹری پورے خطے اور ملک کو فائدہ دے سکتی ہے۔ محترم وزیر اعلیٰ! پنڈ دادن خان‘کھیوڑہ‘ہرن پور‘جلال پور سمیت دیگر علاقوں کو جہلم تقریباً اسی کلومیٹر اور منڈی بہاء الدین اٹھارہ سے بیس کلومیٹر پڑتا ہے‘اگر چک نظام کا برج بنا دیا جائے تو پنڈ دادن خان پندرہ کلومیٹر بنتا ہے۔پنڈ دادن خان کے طلبا تعلیمی حوالے سے منڈی بہاء الدین کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جہلم کا سفر ڈبل سے بھی زیادہ ہے۔اگرتحصیل پنڈ دادن خان کومنڈی بہاء الدین میں شامل کر کے ڈویژن گجرات کا حصہ بنایا دیا جاتا ہے تو اس سے ایک اور دیرینہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘ایک طویل عرصے سے کھیوڑہ سے منڈی بہاء الدین کو ملانے والا چک ڈڈاں برج جو التوا کا شکار ہے‘وہ برج بن سکتا ہے۔اس برج سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ منڈی بہاء الدین سے راولپنڈی کا سفر تقریباً سو کلومیٹر کم ہو جائے گا اور یوں جڑواں شہروں کا سفر آسان ہو جائے گا‘محترم!اس برج کو سنجیدہ لینا ہوگا۔جناب ایک اور تجویز ضروری ہے‘منڈی بہاء الدین میں جب ریلوے اسٹیشن بنا تھا تو اس کے لئے پھالیہ کی زمین تجویز کی گئی تھی‘یہاں کے وڈیروں نے زمین دینے سے انکار کر دیا تو ریلوے اسٹیشن لالہ موسیٰ چلا گیا‘اگر ریلوے لائن منڈی بہاؤ الدین سے پھالیہ کی جانب بچھائی جائے جو حافظ آباد سے ہوتی ہوئی گوجرانوالہ اٹیچ ہوتو منڈی بہاؤالدین سے بذریعہ ٹرین لاہور کا سفر آدھا بھی نہیں رہ جائے گا‘یہ ریلوے لائن عوام اور حکومت دونوں کو فائدہ دے سکتی ہے۔جناب وزیر اعلیٰ! اس شہر میں امن و امان کی صورت حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ یہ شہررہنے کے قابل نہیں رہا‘ہردوسرے دن کوئی نہ کوئی ایریا لہولہان ہو جاتا ہے اور ظلم یہ کہ قانون بھی اس کے سامنے بے بس نظر آ رہا ہے‘جناب! آپ یہاں کے ڈی پی او سے گزشتہ چھے ماہ کی وارداتوں کی رپورٹ مانگیں‘آپ حیران رہ جائیں گے کہ پاکستان کے کسی شہر میں امن و امان کی صورت حال اتنی خراب نہیں‘جتنی یہاں ہے۔محترم! اس جنگ و جدل کی وجہ کوئی بھی ہو‘اب قانون کو حرکت میں آنا ہوگا‘ورنہ (خدا نخواستہ)وہ دن دور نہیں جب اس ضلع میں خون ‘پانی سے بھی سستا ہو جائے گا۔جناب! اس شہرکو ’دار الامان ‘بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply