• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فاقہ کشوں کا لہو (عمران خان صاحب کا منڈی بہاؤالدین میں جلسہ)۔۔محمد وقاص رشید

فاقہ کشوں کا لہو (عمران خان صاحب کا منڈی بہاؤالدین میں جلسہ)۔۔محمد وقاص رشید

کل منڈی بہاؤالدین میں پاکستان تحریکِ انصاف نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔۔۔اس جلسے سے اس سیاسی جماعت کے سربراہ نے خطاب کیا۔۔۔۔آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوئی ہو گی کہ میں نے وزیراعظم پاکستان کیوں نہیں لکھا ۔ اسکی وجہ جاننے کے لیے میں دل تھامتا ہوں آپ میرا ہاتھ۔ ۔ آئیں ذرا ماضی کے جھروکوں میں چلتے ہیں۔
میں ملکوال کا رہنے والا ہوں جسکا قلمی نام میں نے خواب نگر رکھا ہوا ملکوال ضلع منڈی بہاؤالدین۔۔۔۔منڈی بہاؤالدین میں پاکستان تحریکِ انصاف کے دو جلسوں میں وہ خواب لیے شرکت کر چکا ہوں جنکی کرچیاں آنکھوں سے دل میں اتر چکیں اور جنہیں کل عمران   خان صاحب نے مزید پیروں تلے روندا۔۔۔
اپنی رات کی ڈیوٹی کرنے کے بعد میں جلدی جلدی تیاری کرتا کمپنی کی گاڑی میں بیٹھا بھیرہ انٹر چینج پر اترا۔۔۔ عام طور اس وقت میرا ذہن نیند سے بوجھل ہوتا تھا لیکن آج جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کا دن تھا۔۔ملکوال پہنچا تو تیاری کر کے گھر سے نکلنے لگا تو والدہ نے کہا ” تھوڑی دیر سوں جاندا ۔رات دی ڈیوٹی کر کے نیندر پوری کری دی اے جلسے نئیں۔ ایہہ ویلیاں دا کم ہوندے “۔ والدہ سے کہا،  اس آدمی کو عددی اکثریت درکار ہے۔ ایک دفعہ یہ وزیراعظم بن گیا نہ پھر سکون کی نیند سوئیں گے۔ انہوں نے دعا دی اور ہم جلسے میں پہنچ گئے ۔ ایک ایک ویگن میں دو دو تین تین لوگ تا کہ قافلہ بڑا نظر آئے۔  کبھی اس ساری روداد کو ایک خود نوشت کی شکل دینے پر دل چاہتا ہے۔۔۔مگر زخموں کی نمائش کیا کرنی ۔۔ بہرحال خان صاحب کی تقریر سنی اور ایک نشے کی سی کیفیت میں گھر پہنچا ۔رات بستر پر لیٹ کر بھی نیند آنکھوں میں موجود خوابوں کے درمیان اپنی جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔ ذہن میں گاہے یہ خیال آتا تھا کہ گفتگو تھوڑی اگر مہذب ہو۔ کاش کہ فلاں بات نہ ہو۔۔۔۔ مذہب کارڈ۔۔۔ اوئے توئے۔۔۔۔ ڈیزل۔۔۔ وغیرہ۔۔۔ لیکن فوراً ایک طفل تسلیوں کی چادرعقل کو ڈھانپ لیتی۔۔۔اور خواب ناک مناظر میں کھو کر میری ناقص العقلی اور جذباتیت اس نغمے پر جھومنے لگتیں “جب آئے گا عمران ” بس جب آئے گا عمران۔

پھر عمران آ گیا اور کل اپنی حکومت کے لگ بھگ ساڑھے تین سال بعد پھر منڈی بہاؤالدین میں تھا ۔ اپنے کچھ محترم دوستوں کے اس سوال کا میں کل جواب تلاش کرنے کے لیے انکی تقریر دیکھتا رہا کہ “مجھے عمران خان کی حکومت میں کچھ مثبت بھی نظر آتا ہے اور یہ کہ نظر نہ آنے کی وجہ کہیں بغضِ عمران تو نہیں ؟”  ۔

میں نے اپنی دانست و دیانت میں تمام منفیت اور ناقدانہ سوچ ذہن سے اتار کر بالکل مثبت ذہنی استعداد سے انکی ساری تقریر سنی۔۔۔۔اب میں نے کیوں کہا کہ یہ ایک اپوزیشن لیڈر ہی کی ذہنیت کی تقریر تھی میری معروضات نقاط کی صورت ملاحظہ فرمائیں۔
1- ملک کے وزیرِ اعظم کا خطاب
ایک اپوزیشن لیڈر ایک سیاسی جماعت کی عصبیت کا شکار ہوتا ہے۔۔لیکن ایک وزیراعظم پورے ملک کا وزیراعظم ہوتا ہے ۔لیکن بات فکری تناظر کی ہے۔۔۔ عمران خان صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز ہی ڈاکوؤں کا گلدستہ ،چوروں کا ٹولہ ،مولانا نہیں مانتا اور ڈیزل ڈیزل کے نعروں اور الفاظ سے کر کے ثابت کر دیا کہ وہ کم ازکم گفتگو کے لحاظ سے خود کو ابھی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور اپوزیشن لیڈر کی سطح پر ہی سمجھتے ہیں ۔ورنہ 5 سال پہلے آمنے سامنے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ کروڑ ووٹوں کے ایک اپوزیشن لیڈر کی تقریر میں اور آج 22 کروڑ کی قوم کے وزیراعظم کے لب و لہجہ میں فرق ہوتا

2-سیاسی انتشار
عمران خان صاحب پاکستان کے وہ واحد سیاست دان ہیں جو جس جملے میں رسول اللہ ص کے تمام انسانوں کو اکٹھا کرنے کی بات کرتے ہیں اسی کے آخر پر اپوزیشن لیڈرز کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کر کے نا صرف اپنے قول و فعل میں تضاد واضح کردیتے ہیں بلکہ پوری قوم کو ایک ایسے نفسیاتی ہیجان اور سیاسی انتشار میں مبتلا کر دیتے ہیں۔۔۔جسکا انہیں تو الیکشن کمپین میں شاید فائدہ ہو جائے لیکن پہلے سے کئی طرح تقسیم قوم کو اس خلیج کا بہت بڑا نقصان ہے اور خان صاحب کے دورِ حکومت کا سارا عرصہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ نقصان سماجی حیثیت سے شروع ہوتا معاشی اور اقتصادی میدانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔۔۔ افسوس کہ خان صاحب سری لنکا والوں کو تو بتاتے ہیں کہ معاشی ترقی سیاسی ہم آہنگی سے جڑی ہوئی ہے لیکن اپنے ملک میں وزیراعظم بن کر بھی اس پر “ڈیزل ” چھڑکنے اور زبان سے آگ دکھانے سے باز نہیں آتے۔

3- “جب تک زندہ ہوں،انہیں نہیں چھوڑوں گا ”
عمران خان صاحب حکومت میں آئے تھے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے نعرے پر۔ ۔ جسکی تفصیلات میں جائے بغیر اسکا کل حاصل کیا ہے کہ ۔۔۔جب تک زندہ ہوں اور یہ قوم کے پیسے واپس نہیں کرتے انکو نہیں چھوڑوں گا ” واہ خان صاحب واہ۔۔۔۔ جب یہی نعرہ اور اعلان آپ نے چار سال پہلے کیا تھا تو ہم بہت ناچے تھے بڑے نعرے لگائے تھے اور اگر آپ چار سال بعد اس ضمن میں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ “نواز شریف کو باہر بھیجنا غلطی تھی “تو جناب قوم یہ کیوں نہ پوچھے کہ جو کام آپ نے پہلے 90 دن میں کرنا تھا وہ اگر چار سال میں بھی نہیں ہوا تو آئیندہ بھی آپ محض الزامات سے قومی ہیجان پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔ آپ کو یہ بات شاید الیکشن رزلٹ ہی سمجھا پائیں کہ پیٹ میں آپکی دی ہوئی غربت اور لبوں پر بیڈ گورننس کی وجہ سے مہنگائی کا نالہ لیے ووٹ ڈالتے ہوئے لوگوں کے کان اب چور چور جیسے الزامات سے نہیں بھرے جا سکتے ۔

4- کارکردگی
کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ کی تقریر میں قلیل وقت اپنی کارکردگی اور زیادہ وقت الزام تراشی اور ڈیزل ڈیزل کی بجائے تناسب الٹا رکھتے ۔اپنی حکومت کے اچھے اقدامات کا تزکرہ کرتے۔  ناکامیوں کی وجوہات کا اعادہ کرتے نظام کی بہتری کی تجاویز دیتے بحیثیت حاکم جو خلا آپ نے دیکھے انہیں پر کرنے کے لیے شعور اجاگر کرتے ۔۔ پہلے آپ کہتے تھے ایک دفعہ وزیر اعظم بن جاؤں ۔۔ اب وزیر اعظم بن کر اپنی کارکردگی بتائیے۔۔۔۔ لیکن ایسا نہ کرنا کیا اس بات کی دلالت نہیں کرتا کہ آپ جان بوجھ کر ایسا کر ہی اس لیے رہیں ہیں تا کہ چور چور ڈاکو ڈاکو کر کے اگلا الیکشن جیتیں جس کے قبل از وقت ہونے میں آپکو فائدہ ہے اور یہ جلسہ الیکشن مہم ہی کا حصہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ مہم کاش کہ ایک وزیر اعظم کی ہوتی۔۔۔۔۔90 دن کے خوابوں کی ساڑھے 3 سال کی تعبیروں پر ہوتی۔

5-  چور ڈاکو اسکینڈینیوین ممالک اوراللہ کی برکت
خان صاحب جب اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے آپ اسکینڈینیوین ممالک کی مثالیں دیتے تھے تو میرے جیسےبے وقوف یہ سوچتے تھے کہ “جب آئے گا عمران ” تو پاکستان کو اسکینڈینیوین ملک بنا دے گا ۔کیا پتا تھا ہم پہلے حالوں سے بھی جائیں گے۔۔۔ ویسے دوسروں کو چور ڈاکو کہہ کر معاشرتی خلیج میں قوم کو پاٹتے ہوئے کیا لوگ آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا بنا وہ آپ ہی کے بقول 140 ارب چینی میں آپکے دستخطوں سے قوم کی جیب سے نکلوانے والوں کا ۔ کل آپ نے عثمان بزدار صاحب کو خراجِ تحسین کیا اس بات کا پیش کیا کہ شیخ رشید صاحب کے بقول جو چینی کی سبسڈی آپ نے روکی وہ آپکے وسیم اکرم پلس۔۔۔پیٹرول کی مد میں 300 ارب کمانے والوں کا کیا بنا ؟ دوا اسکینڈل میں نام آنے والے وزیر صاحب کو اپنی جماعت کا جنرل سیکرٹری لگا دینے سے ملک اسکینڈینیوین ملک بن جاتا ہے یا آٹا اسکینڈل میں نام آنے پر جنوبی پنجاب کی انصاف کی تحریک خسرو بختیار صاحب کی جھولی میں ڈال دینے سے اللہ کی برکت آتی ہے یا پاپا جونز پیزہ اسکینڈل آنے پر عاصم باجوہ صاحب کا استعفیٰ قبول نہ کرنے اور خود انکی صفائیاں دینے سے اسلامی فلاحی ریاست بنتی ہے ؟

6- امر بالمعروف و نہی عن المنکر
خان صاحب خدا کا واسطہ ہے یہ مزہب کارڈ کھیلنا بند کر دیں۔۔۔۔آپ سے “امر بالمعروف و نہی عن المنکر” ٹھیک طریقے سے کل ادا بھی نہ ہوا اور چلے آپ اس قرآنی حکم کو اپنی الیکشن مہم کا حصہ بنانے۔۔۔یہ قوم مذہبی لحاظ سے پہلے ہی کتنی تقسیم اور انتشار کا شکار ہے۔۔۔ نعرہ تکبیر و رسالت ص لگاتے ہوئے یہاں انسانوں کو پتھروں لاٹھیوں سے مارا جا رہا ہے لاشوں کو جلایا اور لٹکایا جا رہا ہے۔۔۔ اوریہ صرف اور صرف اپنی ذات اور سیاست کو فائدہ دیتی مزہبی تفہیم و تشریح کا بے دریغ استعمال اور دوسروں پر اسکو تھونپنا ہے۔۔۔آپ تو مہربانی کریں۔۔۔جب آپ کے خلاف اسطرح کا مذہبی کارڈ کھیلا جاتا تھا تو اسکی بھی مزمت تھی اور آپ کے مذہب کارڈ کھیلنے کی بھی مزمت ہے۔۔۔۔ہم سب عام انسان ہیں فرض کریں دوسرے لوگ آپ کی ذاتی شخصیت یا حکومتی کارکردگی کو بنیاد بنا کر “امر بالمعروف و نہی عن المنکر ” کی ترویج آپکے خلاف شروع کر دیں یا سیاسی مخالفتوں کی دلالت قرآن و حدیث سے کرنے لگیں تو اس سے کیا پاکستان کا اور اسلام کا فائدہ ہو گا۔  آپکے وزیرستان مارچ کے وقت جے یو آئی ف کی طرف سے محترمہ جمائما خان صاحبہ کے بحیثیت نیوز رپورٹر پاکستان میں آنے پر کس طرح آیات لکھ کر آپکے خلاف گھٹیا کیمپین کی گئی تھی ۔ آپ کو یاد بھی ہونا چاہیے اس سے عبرت بھی حاصل کرنی چاہیے ۔سچ تو یہ ہے کہ ایک سانحہ ساہیوال ہی پر آپ “امر بالمعروف و نہی عن المنکر ” پر پورا اترنا تو کجا اسکے 180 ڈگری الٹ سمت میں نظر آتے ہیں۔۔۔اسلامی فلاحی ریاست کا دعوی تو آپکا اسی وقت اپنا منہ چڑانے لگتا ہے جب آپ اپنی مدینے کی ریاست کے ارب پتی وزیروں مشیروں اور اشرافیہ کے ہرکاروں کے سامنے مسکراتے ہوئے بھوکوں اور فاقہ کشوں کو صبر کی آیات سناتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

7- کاش اے کاش
آپ سمجھیں کہ پاکستان اور اس میں بسنے والی قوم آپکی یا کسی بھی سیاسی رہنما کی ذات اور سیاست سے بالاتر ہے ۔آپ نے 22 سال موجودہ نظام کے خلاف صدقِ دل سے جستجو کی لیکن اس میں ناکامی پر اسی نظام کے آگے اپنے وزیراعظم بننے کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے گھٹنے ٹیک دیے۔۔۔ اب اس دوہرے معیار سے تو کم از کم باہر آ جائیں اور قوم کو بھی آنے دیں کہ زبانی کلامی انقلابی اور عملی طور پر مکمل طور پر ایک پاور پالیٹیکس کرتا سیاستدان ۔اب یہ منافقت نہیں چلے گی کیونکہ آپکی حکومت کا 70 فیصد وقت گزرنے کے بعد یہ تضاد مکمل طور پر آشکار ہو چکا ہے۔۔۔۔ کیونکہ جو کل آپکی نظر میں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو تھا آج اسکے بیٹے کے سامنے آپ منمناتے ہیں کہ ہمیں چوہدری پرویز الٰہی پر مکمل بھروسہ ہے ۔ آپکے شریف خاندان پر 700 ارب روپے کے الزامات کا قوم کو حاصل اگر 50 روپے کا اشٹام ہے تو اسکو نظام کہتے ہیں۔۔۔۔ اس نظام نے آپکو وزیر اعظم بنایا ۔ اس نظام میں سے عوامی فلاح و بہبود کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ آپکا سوچی سمجھی پالیسی کے تحت “آدھا تیتر آدھا بٹیر ” ہونا ہے۔۔۔ کیمرے کے سامنے انقلابی اور کیمرے کے پیچھے سیاستدان۔ ۔
اگر آپ نے نواز شریف کو باہر بھیجنے کی غلطی کا زندگی میں پہلی بار اعتراف کر ہی لیا تو اسکا فائدہ عوام تک پہنچنے دیں ۔مدینے کی ریاست ہو یا اسکینڈینیوین ممالک خدا کی برکت اپنی ذات سے بالاتر ہو کر سوچنے سے آتی ہے۔۔ مقصد پر ذاتی مفاد قربان کرنے سے آتی ہے۔۔خان صاحب آپ کے منڈی بہاؤالدین کے جلسے سے جہاں ماضی کی یادیں زخم کریدنے لگیں وہیں مستقبل کے زہر آلود خدشات بھی سر اٹھانے لگے کہ پیارا پاکستان اگلے الیکشن میں مزید ہیجان زدہ اور منافرت کی خلیج میں بٹتا ہوا دکھائی دے گا ۔اور فاقہ کشوں کا خون ارب اپنے ارب پتی حکمرانوں کے سیاسی چولہوں کا مزید ایندھن بنے گا۔ ۔ خدایا رحم
( اپنی طرف سے تو پوری دیانت سے بغیر کسی عصبیت کے دردِ دل کو الفاظ میں ڈھالا۔۔۔۔کاش کہ پڑھنے والے بھی اسے ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے پڑھیں کسی یوتھیا پٹواری کی تقسیم والی ذہنیت سے نہیں)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply