داستانِ زیست۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط25۔ضمیمہ

سفارت خانے سے ہماری مفارقت کی خبر اسلام آباد میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ اگلے چند روز ہمارے پاس تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ کچھ دوست خاص طور پر بنک اور انشورنس مینجر ، فارن آفس کے پروٹول والے مُصر تھے کہ سفیر صاحب سے دوبارہ میٹنگ ہونی چاہیے، انہوں نے ملاقات بھی طے کرا دی۔ ہماری مجبوری صرف یہ تھی کہ ہمیں ہمارے واجبات اور ایکسپیرئنس سرٹیفکیٹ مل جائیں، تو ہم دوبارہ سفارت خانے گئے۔ ماحول کشیدہ تھا۔۔
سفیر صاحب اسی موڈ میں تھے۔ وہ ہمیں اپنے احسانات گنوانے لگے۔ ہم چُپ سنتے رہے، بولنے کا موقع ملا تو پھر معذرت کی اور کہا کہ ہم ممنون و مشکور ہیں بس چیک اور سرٹیفکیٹ جاری کرا دیں۔ لیڈی سیکرٹری کو سرٹیفکیٹ ٹائپ کرنے کا حکم دیا۔ جس میں وجہ کے بغیر Terminated لکھا گیا۔ اسسٹنٹ نے چیک سائن کرا کے مجھے ریسیو کرایا۔۔ہم سفیر صاحب کو سلام کر کے بغیر کسی اور سے ملے یا سلام دعا کیے واپس آ گئے۔
شام کو ایک دوست نے بتایا کہ OGDC میں ڈپٹی چیف آڈٹ کی سیٹ ہے وہاں ممبر فنانس اِنکم ٹیکس کے محکمہ سے ہیں۔ ہم اپنے عزیز اِنکم ٹیکس کمشنر کے گھر ملنے گئے، ان کو ساری روداد سنائی  اور سفارش کے لیے کہا۔
انہوں نے بڑی شفقت سے مشورہ دیا کہ مجھے ٹیکس کی وکالت کرنی چاہیے، میں نے ناتجربہ کاری کی بات کی تو انہوں نے کاری مشورہ دیا کہ کچھ عرصہ چکوال کے مشہور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ امیر عالم خان کے پنڈی آفس میں کام سیکھ لوں۔۔
اگلے روز خان صاحب سے پنڈی انکے آفس میں ملاقات ہوئی۔ کیا گریٹ آدمی تھے، بڑے تپاک سے ملے، برادری کا ریفرنس دیا اور آفر دی کہ بغیر کسی لین دین کے میں انکے دفتر سے کام سیکھنے کے ساتھ پریکٹس بھی کر سکتا ہوں۔
اس دوران پہلے صادق سے چکوال دفتر بارے بات ہوئی  تو اس نے وہاں کی بجائے اسلام آباد آفس کھولنے کا مشورہ دیا کہ چکوال ٹیکس کا اتنا کام نہیں تھا۔
گھر والوں سے مشاورت کی تو چھوٹے بھائی صاحبان کی خوائش تھی کہ چکوال شفٹ ہو کے انکے ساتھ کار شو روم بزنس میں شامل ہو جاؤں ۔ اسلام آباد کے اخراجات بھی بچ جائیں گے۔ اماں جی نے اس کے خلاف حکم دیا۔۔اسلام آباد ہی رہنے کا کہا۔ وکالت چلنے تک دکانوں کا کرایہ جو تین ہزار ماہانہ تھا وہ لینے کی اجازت دی، بابا جی بھی اس کے حق میں تھے۔
اسلام آباد میں ایک ہمدرد نے مشورہ دیا کہ میلوڈی مارکیٹ کے سامنے گھر ڈھونڈا جائے۔
بزرگوں کی تو خواہش بھی دعا ہوتی ہے۔ جی سِکس ٹو کی ارم مارکیٹ سے متصل گھر کا گراؤنڈ فلور کرایہ پر مل گیا۔
اس کا کار پورچ پہلے سے لکڑی کے فولڈنگ دروازے سے دفتر بنانے کے لیے موجود تھا۔ ہم شفٹ ہو گئے۔۔
میلوڈی ویگن سٹاپ سامنے تھا۔ ہم نے ویگن پہ  پنڈی صدر میں نیشنل بنک کے ساتھ خان صاحب کے دفتر آنا جانا شروع کر دیا۔
پہلے چھ ماہ میں گھر کا ایڈوانس کرایہ اور دیگر اخراجات میں ایمبیسی کی جمع پونجی ختم ہو گئی، تین ہزار میں گزارہ ممکن نہ تھا۔ ہم نے مارک ون کار فروخت کی ۔ چکوال سے 12ہزار میں ایک فوکسی لا کے گھر کے باہر کھڑی کر دی۔
مشیر اِنکم ٹیکس کا بورڈ گھر کی سڑک کی طرف دیوار پہ  لگا دیا۔ پہلے ستمبر میں ہم نے اِنکم ٹیکس کے بارہ گوشوارے فائل کیے، کیس ملنے شروع ہو گئے، خان صاحب کا دفتر اور مشاورت ساتھ تھی ۔
ہم کیس لیتے ، تیار کرتے، خان صاحب سے ڈسکس کرتے ۔ انکی شفقت سے پہلے سال میں ٹربیونل میں بارہ اپیلیں  دائر کیں ،سب منظور ہوئیں کہ پیچھے امیر عالم خان کی مہارت بروئے کار تھی،
پنڈی ٹیکس بار کے ممبر بنے، ٹیکس کی بنیادی ٹریننگ کے ساتھ ماہانہ جرنل لگوا لیے ، ہر کیس کی تیاری میں کیس لا ڈھونڈنا اسے حقائق سے منطبق کرنا خان صاحب نے سکھا دیا ۔
ڈیڑھ سال میں اسلام آباد میں ہماری پورے محکمے اور مارکیٹ میں جان پہچان کے ساتھ مشہوری ہو گئی ۔ہم بار میں جائنٹ سیکرٹری بن گئے۔ یہ تھا ہمارا سفارت سے وکالت میں آنے کا اجمالی تذکرہ ،
وکالت یا مشاورت کی داستان اب اگلے باب کی اقساط میں پیش کریں گے۔
جاری  ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply