روداد سفر (47)چائنہ کی ایغور برادری۔۔شاکر ظہیر

عام طور پر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ چائنیز اچھی بیوی ثابت نہیں ہوتیں ۔ لیکن ایک معاملے میں مجھے اپنی بیوی کی ایک عادت اتنی پسند ہے  کہ بس بندہ کہتا ہے کہ اور خدا نے حور کیا بنانی ۔ وہ یہ کہ لڑائی اس نے دل جما کر کرنی ، تاک تاک کر طنز کے تیروں کے نشانے لگانے ، وہ باتیں جو آپ کی یاداشت کے خانے میں یا وہم و گمان میں بھی نہیں انہیں بھی مضبوط شواہد کے ساتھ پیش کر دینا اور پھر آپ کی کسی مضبوط سے مضبوط دلیل کو بھی جرح و تعدیل سے ایسے رد کر دینا کہ دلیل پیش کرنے والا خود ہی شرمندہ ہو جائے ۔ اگر ساری رات لڑائی کرنی ہے تو بھی صبح ناشتے کے بغیر اور صاف ستھرے کپڑے پہنے بغیر گھر سے نکلنے بھی نہیں دینا کہ تم کیا مجھے دنیا کے سامنے ایسا پیش کرنا چاہتے ہو کہ میں اچھی بیوی نہیں ہوں ، اپنے خاوند کا خیال نہیں رکھ سکتی ، خوشی خوشی کام پر جاؤ لیکن اس خوش فہمی میں نہ رہنا کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے تم واپس آؤ گے تو لڑائی یہیں سے دوبارہ شروع ہو گی ۔ مجھے تو اس کی اس لڑائی سے بھی بہت لطف آتا تھا اور کبھی کبھار تو اسے اپنی لڑائی پر خود بھی ہنسی آ جاتی تھی ۔ میرے خیال میں گھر ایسے ہی چلتے ہیں اور اس وقت تک چلتے رہتے ہیں جب تک گھر کے معاملات میں بیرونی مداخلت نہیں ہوتی ۔ جب بات تیسرے بندے تک پہنچ جائے تو پھر بات کے ساتھ اور بھی فالتو باتیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں اور مسئلہ ناقابل حل بن جاتا ہے ۔

لڑائی کو ختم کرنے کےلیے آپ کا یہ طریقہ کہ خاموش ہو جائیں یہ اتنا خطرناک ہے کہ یہ گونگی بدمعاشی کہلائے گا ۔ آپ پر وہ وہ الزامات لگیں گے کہ جو آپ کے فرشتوں کےلیے بھی نئی معلومات ہو گی اور وہ بھی کہیں گے کہ اس کی بیوی تو پیران پیر ہے جو باتیں چوبیس گھنٹے ہم اس کے کندھوں پر بیٹھ کر نوٹ نہیں کر سکے یا لکھ نہیں سکے وہ اس کی بیوی کو غیر موجودگی میں بھی معلوم ہیں ۔

ایسی کئی لڑائیاں مجھے جب کبھی یاد آتی ہیں ان کی یاد مجھے خوشی ہی دیتی ہے ۔ اور جب لڑائی کے بعد ان پر بحث ہو تو میں بیوی سے ہی پوچھتا تھا کہ ویسے لڑائی کا منبع کیا تھا یعنی میری وہ کون سی غلطی ، نا انصافی ، زیادتی تھی جس پر تم نے اتنا شور مچایا تو اس کا جواب یہی ہوتا کہ تمہارے خیال میں میں پاگل ہوں جاں بوجھ کر بہانے ڈھونڈتی ہوں لڑائی کے ۔ اور پھر اس بات پر لڑائی شروع ہو جاتی ۔ ویسے حقیقت یہی ہے کہ گھر میں رونق ہی اسی نوک جھونک سے ہوتی ہے ورنہ روزانہ کون سے موضوعات ہیں جو ڈسکس کیے جائیں اور توجہ بھی گھر سے نہ ہٹے ۔ پیار سے لڑنے کی صلاحیت بھی خدا کسی کسی کو دیتا ہے ۔ جس گھر میں ایسی نوک جھونک ختم ہو جائے تو خطرے کا الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے ۔

رابعہ چھن ہائی صوبے کی جو میری بیوی کی سہیلی تھی اس کی شادی پر میری بیوی ایوو میں موجود نہیں تھی اس لیے شادی میں مجھے شرکت کرنی پڑی وہ بھی بیوی کی  اجازت سے لیکن جب میری بیوی واپس آئی تو پھر تفصیلات بھی اسے بتانی پڑیں کہ کیا کیا ہوا ۔ ساری تفصیلات پر آخری کمنٹ میری بیوی کا یہ تھا کہ ویسے تو تم اس کی شادی پر خوش نہیں ہوگئے کہ تمہارے ذہن میں خیال تو یہ تھا کہ رابعہ تمہارے لیے کسی سے شادی نہیں کرے گی لیکن اس نے تمہاری امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ میں نے کہا یہ وحی تم پر کب نازل ہوئی کہ میرے دل میں یہی خیال تھا ۔ اللہ کی بندی ویسے تو تم چائینز ہر بات کو سائنس اور مشاہدے کی بنیاد پر پرکھنے کے قائل ہو لیکن یہ الہام تمہارے ہاں کب سے مضبوط ترین دلیل بن گیا ۔ پھر تمہیں کیسے یہ غلط فہمی ہے کہ ایک مصیبت کو گلے ڈالنے کے بعد میں کسی اور مصیبت  کا بھی خواہش مند ہوں ۔ پھر بس اس لفظ مصیبت پر نئی لڑائی شروع ہو گئی ۔ رابعہ اور اس کی شادی کی بات تو وہیں رہ گئی لفظ مصیبت  لڑائی کا موضوع بن گیا ۔ پھر میری بیوی نے مجھ  پر اپنے وہ وہ احسانات عظیم گنوائے اگر وہ اس راز کو فاش نہ کرتی تو شاید نیکی کے فرشتے بھی قیامت تک لاعلم ہی رہتے ۔ اور شاید ان فرشتوں نے ان بیانات کے بعد لکھنے والے کھاتے بھی بند کر دیے ہوں گے کہ یہی احسانات عظیم اس کے جنت میں اعلی مقام کےلیے کافی ہیں اب مزید کیا صفحات کالے کرنے ۔ اور میں نے   سارے احسانات کا اقرار کر کے لڑائی سے جان چھڑائی ۔ لڑائی وقتی طور پر ختم تو ہو گئی لیکن ذکر رابعہ نیا موضوع ہاتھ آنے تک ہیڈ لائن ہی میں رہا اور ہر ٹاک شو کی طرح ہر پہلو سے ڈسکس ہوتا رہا ۔ اتنی باتیں شاید رابعہ کو خود اپنے بارے میں شاید معلوم نہ ہوں گی جنتی ان ٹاک شوز میں میری بیوی نے بیان کر دیں ۔ اس نے تمہیں ایسے دیکھا تو اس کے کیا معنی ہیں ، اس نے اس لہجے سے بات کی تو اسکے دل میں کیا تھا ۔ ویسے ہوا سے لڑائی کرنے کے اصل معنی کیا ہیں مجھے تب ہی سمجھ آئے ۔

سہیلیوں کی لسٹ میں نئی انٹری عینہ کی ہوئی جس کا تعلق سینکیانگ صوبے کے شہر ارومچی سے تھا ۔ والد صاحب کسی سرکاری دفتر میں ملازم تھے عمر کوئی تئیس چوبیس سال ہوگی ۔ ان کے شوہر کا تعلق یمن سے تھا جن کا بچوں کے جوتوں کا کاروبار سعودیہ میں تھا ۔ ان کی ایک بیٹی بھی تھی ۔ ان کے شوہر اور ان کی عمر کا فرق بہت زیادہ تھا ۔ گانسو صوبے کے علاقے لنشاہ کے کسی مدرسے سے پڑھی ہوئی تھی ۔ لیکن ان کے پاس مدرسے کی جو کہانیاں تھیں وہ بہت ہی باعث شرم تھیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ مسلم والدین کی یہ اولادیں جب بگڑ جاتی  ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کر سکتے یا عقائد کو کوئی دلائل فراہم نہیں کر سکتے تو مدرسے کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ شاید اپنے دل کو تسلی دینے کےلیے کہ انہوں نے تو اپنی پوری کوشش کی لیکن شاید خدا کو یہی منظور تھا ۔ پھر ان مدارس میں وہ وہ واقعات پیش آتے ہیں جو انتہاء کی بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اساتذہ بھی کچھ زیادہ سختی نہیں کر سکتے کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے علاؤہ والدین کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ کہاں لے کر جائیں اس اولاد کو جو پندرہ سالہ حکومتی اداروں میں ہر تہذیبی اقدار سے ماورا تعلیم حاصل کر چکی ہے ۔ جہاں انٹر میڈیٹ کی تعلیم کے بعد اپنے علاقے سے باہر کے کالجز میں داخلے ملتے ہیں اور رہائش ہوسٹل میں لازم ہے جہاں حکومت جو نظریہ چاہے انجیکٹ کرے ، اب جہاں تک استاتذہ سے ہو سکتا ہے کوشش ہی کر سکتے ہیں ۔ بگڑے کو باہر نکال دینا اس سے ساری امیدیں ہی ختم کر دینا ہے یہ اسے اپنی مذہبی شناخت ہی سے دستبردار کر دینا ہے ۔ جس حد تک ہو سکتا ہے برداشت کیا جاتا ہے جس سے دوسرے طلباء پر بھی اثرات پڑتے ہیں لیکن شاید حل اور کوئی ممکن بھی نہیں ۔ ایسی بیماریوں کا شکار ہمارے مدارس بھی ہیں لیکن بات آپس کی سمجھ کر چھپا لی جاتی ہے جبکہ اس غیر مسلم معاشرے میں جہاں مذہب کے آپ نمائندہ ہوتے ہیں ایسی بیماریاں دوسروں پر بہت سی فکری اثر چھوڑتی ہیں ۔

عینہ اپنے شوہر کے ساتھ یمن گئیں لیکن کچھ ہی دنوں میں واپس آگئیں شاید وہاں کا رہن سہن انہیں پسند نہیں آیا ۔ اس کے بعد ان کی اپنے شوہر کے ساتھ کبھی نہیں بن سکی اور آخری خبریں آنے تک وہ اپنی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ اکیلی ہی رہتی ہیں ۔ اور ان کے شوہر واپس یمن چلے گئے ۔ عینہ نے یمن سے واپسی پر پتہ نہیں کیا کیا قصے سنائے کہ میری بیوی کے پاس یہ موضوع ہاتھ آ گیا کہ جب میں تمہارے ساتھ واپس پاکستان جاؤں گی تو تم میرے ساتھ کیا سلوک کرو گے ۔ میں نے بھی مذاق میں کہہ دیا جیسا سلوک تم میرے ساتھ چائنا میں کرتی ہو ویسا ہی میں تمہارے ساتھ پاکستان میں کروں گا ، یہ تمہاری زمین ہے وہ میری زمین ہو گی ۔ بیوی نے کہا لیکن میں تو تمہارا بہت خیال رکھتی ہوں تو میں نے جواب دیا ایسا خیال میں بھی تمہارا وہاں رکھوں گا ۔ بات مذاق میں ہو رہی تھی لیکن شاید دل میں بیٹھ گئی ۔ یہ دو مختلف تہذیبوں کے ملاپ کے مسائل ہیں جنہیں ہینڈل کرنے کےلیے بہت زیادہ تدبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بلکہ نہ صرف دو تہذیبوں بلکہ دو مختلف مذہبی پس منظر میں پیدا ہونے والوں کے بھی اپنے مسائل ہوتے ہیں ۔ بہت کچھ جو دین میں ضروری نہیں اسے نظر انداز کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ جو عرب کی تہذیب سے ہمارے پاس دین بن کر آ گیا اسے ایک طرف کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن سخت مشکل یہ پیش آتی ہے وہ سب جو ہم نے خود بحیثیت نسلی مسلمان پچپن سے دین کے نام سے سیکھا اسے لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو عجیب صورتحال پیدا کر دیتی ہیں ۔ خود سے اسلام کو پڑھ کر قبول کرنے والوں کےلیے ہم جیسے نسلی مسلمان ایک گھٹن کی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں ۔ اور ایسے لوگ یا تو نسلی مسلمان کیمونٹی سے اگر تھلگ ہو جاتے ہیں یا پھر مذہب چھوڑ کر جان چھڑا لیتے ہیں ۔ شاید یہی صورتحال ہماری آج کی مسلمان نسل کے ساتھ بھی پیش آ رہی ہے کہ جدید دور کی تہذیب اور تقاضے دین کے نام سے احکامات کی مداخلت کو برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ۔ اور پرانی نسل کے لوگ اسے زبردستی نئی نسل پر لاگو کرنا چاہتے ہیں ۔

ایک ایسی ہی صورتحال پیش آ گئی ۔ عینہ ہمارے گھر اپنی چھوٹی سی پیاری سی بیٹی کے ساتھ آئی میں سبزی لینے کے بہانے باہر نکل گیا کہ عینہ اور میری بیوی کھل کر گپ شپ لگا سکیں ۔ اور عینہ سے کہا کہ کھانا ہمارے ساتھ کھا کر جانا ۔ اس نے کہا نہیں میں بہت زیادہ کھاتی ہوں تمہاری فریج خالی ہو جائے گی ۔ میں نے کہا بے فکر ہو جاؤ اللہ کے خزانے اتنے کم نہیں کہ تم اسے ختم کر سکو ۔ بیٹھو گپ شپ لگاؤ میں کچھ چیزیں لے کر آتا ہوں ۔ میں مچھلی ، گوشت لینے چلا گیا ۔ واپسی پر گھر کا دروازہ کھولنے سے پہلے اندر سے عینہ کی گانے کی آواز آ رہی تھی ۔ میں نے دستک دی تو بیوی نے کچھ دیر کے بعد دروازہ کھولا اور بتایا کہ ہم گانا گا رہے تھے ۔ میں نے کہا عینہ اللہ نے تمہیں پیاری آواز دی ہے اور ویسے بھی ایغور گانے کے شوقین ہوتے ہیں ۔ اس نے بتایا کہ اس کی باقی مسلمان سہیلیاں اسے حرام کہتی ہیں لیکن میرا دل نہیں مانتا کہ اپنے جذبات کا اظہار لے اور سر سے کرنا کیسے حرام ہو گیا ۔ میں نے جواب دیا اللہ نے کھانے پینے کے علاؤہ پانچ چیزیں ہی حرام کی ہیں شرک ، فواحش ، حق تلفی ، ناحق زیادتی اور اللہ پر جھوٹ باندھنا ۔ اگر تمہارا گانا ، موسیقی سر ، لے ان پانچ میں سے کسی زمرے میں آتا ہے تو حرام ہیں چاہیے وہ عربی میں ہو یا انگریزی میں اور اگر ان پانچ میں سے کسی زمرے میں نہیں آتی تو اس سے دین کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ۔ خدا تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی زبور لے اور خوبصورت آواز میں پڑھنے کی تعریف کی ہے ۔
میں نے اپنی بیوی سے کہا لیکن اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ جو پہلے تم عام لہجے سے لڑائی کرتی تھی اب لے اور سر میں لڑائی کی پریکٹس شروع کر دو ۔

بہرحال ہمارے اہل علم کو  اب ایسی روایات پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو چند الفاظ میں اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر بیان کی گئیں اور غلط سمجھی گئیں ۔ کیونکہ بچوں کو بھی یہاں اسکولوں میں ایسے ہی کچھ باتیں دلچسپی کےلیے ‘ سر ” ‘ لے ‘ میں پڑھائی جاتی ہیں تاکہ وہ اس سے بوریت محسوس نہ کریں ۔

عینہ پھر اس کے بعد منظر عام سے غائب ہو گئی ۔ پتہ نہیں وہ واپس اپنے گھر اورمچی چلی گئی یا ایوو ہی میں کہیں مقیم ہے لیکن اس کے بعد پھر اس سے رابطہ نہ ہو سکا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ری ایجوکیشن کےلیے اس کا کسی سکول میں دوبارہ ایڈمیشن کر دیا گیا ہو ۔ کہ جیسے کمپیوٹر کےلیے نیا پروگرام نئی ضرورت کے مطابق انسٹال کرنا ضروری ہوتا ہے ویسے ہی وہاں کے نظام اجتماعی نے بھی ایغور لوگوں کو کمپیوٹر سمجھ رکھا ہو کہ اب ضرورت نئے بیانیے کی ہے یہ ری ایجوکیشن کے نام سے انسٹال کیا جائے ۔

چائنا میں ایغور ہونا بھی ایک بہت مشکل کام ہے ۔ کئی نسلیں اس ملک میں گزارنے کے بعد بھی وہ ان سرحدوں کے اندر اجنبی ہی ہیں ۔ پتہ نہیں یہ اجنبیت کبھی دور ہو گی  بھی کہ نہیں یا یہ مٹی انہیں قبول کرنے سے انکاری ہی رہے گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply