مسیحی نوجوانوں کی تعمیر و ترقی۔۔۔۔اعظم معراج

یہ دسمبر 2016 کی بات ہے میں نے ایک مختصر سا اشتہار سوشل میڈیا پر دیکھا جس کا متن یہ تھا کہ غیر مسلمان پاکستانی نوجوان اگر سی ایس ایس کرنا چاہتے ہیں تو ہم سے رابط کریں ۔میرے لئے اس اشتہار میں خاص کشش تھی کیونکہ میں 1997سے  پہلے نوجوان ورغلاوں مہم پھر مم سیپ اور اب کئی سالوں سے تحریک شناخت کے بینر تلے نوجوان مسیحیوں کو اس امتحان اور دیگر ایسے معاشرے قابل عزت پیشوں کے لئے منعقد ہونے والے امتحانات میں شرکت کی ترغیب دے رہا ہوں۔ میں نے فوراً اس نمبر پر رابط کیا ۔اپنا تعارف کروایا۔یہ ٹیکس فورم کے نام سے لاہور بیس ایک کمپنی تھی۔جس نے یہ پروگرام ترتیب دیا تھا کہ پورے ملک سے اقلیتی نوجوانوں کو دعوت دی جائے پھر انھیں سی ایس ایس کے امتحان کے میعار پر پرکھا جائے  اور کوالیفائی کرنے والوں کو ہر طرح کی بشمول مالی مدد اور راہنمائی دی جائے۔میں نے شاہد پرویز جامی صاحب (اس پروگرام کے روح رواں) کو غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے اتنا اچھا سوچنے پر مبارکباد دی۔۔ پاکستانی مسیحیوں کی طرف سے انکا شکریہ ادا کیا۔ جامی صاحب نے میری گفتگو اور انکے اس مقصد میں دلچسپی سے پتہ نہیں کیا نتیجہ نکالا مجھے اپنے منتخب کردہ تیرا (13) مسیحی نوجوانوں سے اسکائپ پر بات کرنے کا موقع دیا۔اسکے بعد میں نے پہلے جنرل کھوکھر جو ان دنوں ریٹائرمنٹ کے بعد ایف سی کالج میں آئے تھے۔ان سے کہا  یہ کام ہم کیوں نہیں کرسکتے۔ پھر اپنے دوست بریگیڈیئر نیر جو پشاور کالج کے پرنسپل ہیں انھیں ورغلانے کی کوشش کی شمیم خورشید پرنسپل سینٹ پیٹرک کالج کو بہلایا پھسلایا۔ یہ کام ہمیں بھی کرنا چاہیے۔اس کے بعد میں اپنے ہر سماجی،مذہبی کاروبار اور اداروں سے وابستہ شخص سے گلہ کیا
(اس میں ہر مسیحی مسلک کے لوگ شامل ہیں لیکن کہیں بات بنی نہیں )
اپنے نوجوانوں کے لیے ہم اپنے اداروں کے پلیٹ فارم سے یہ کام کیوں نہیں کرتے۔ پھر  (2018)کو تحریک شناخت کے بینر تلے ہم نے ملک بھر میں اس امتحان کی ترغیب اور آگاہی دینے کے لئے سوشل میڈیا پر تشہیری مہم چلائی۔ اب کاتھولک چرچ کے اسلام آباد ڈیسوس نے مسیحی نوجوانوں کے لئے سی ایس ایس کی کوچنگ کا نہایت ہی عمدہ پروگرام ترتیب دیا ہے جسکے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔یہ پروگرام پاکستانی مسیحیوں کی اجتماعی معاشرتی زندگیوں میں بڑے انقلابی اثرات مرتب کرے گا۔ ساتھ ہی میں شاہد پرویز جامی اور انکی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ پسے ہوئے لوگوں کے لئے انکی سوچ تحریک شناخت کے رضاکاروں کے ذریعے پاکستانی مسیحیوں کے مذہبی راہنماوں تک پہنچی اور اب اس فکر کے مثبت اثرات انکی زندگیوں پر مرتب ہونگے۔ بے شک اچھی نیت سے کوئی کام اگر نارتھ پول پر بھی شروع ہو تو ایک دن اسکے اثرات ساؤتھ پول پر بھی پہنچ ہی جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میری پاکستان کی دوسرے چرچ کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ  اپنے شہروں میں اسی طرح کے پروگرام ترتیب دیں۔اور خاص کر کاتھولک چرچ کے دوسرے ڈیسوس بھی اس پروگرام کو شروع کریں۔ کیونکہ اسلام آباد ڈیسوس کے پہلے قدم سے یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ اس طرح کے پروگرام پاکستانی مسیحیوں لئے کسی طرح بھی مضحر صحت نہیں بلکہ انکی زندگیوں میں اجتماعی ترقی کی نئی راہیں ہموار کریں گے۔ آخر میں تحریک شناخت کے رضا کاروں کو بھی مبارک اور ایک بار پھر وہ ہی گزارش”تحریک شناخت کے بے لوث رضا کار ذہنوں میں مسلسل فکر کے بیج بوتے جاؤ ۔لگن محنت،صبر، ریاضت سے آبیاری ہوگی تو معجزوں کی کونپلیں پھوٹیں گی۔انشاالللہ
a few days back I saw post about program
that was encouraging minority students to sit for CSS exams. I contacted the organizers and found that they were based in Lahore and they were named “Tax forum”. Even though I still don’t know if it is a NGO or an academy but their program is very close to my heart as I am also trying create awareness under the banner of Mairaj Memorial social awareness educational Program Pakistan (Tehrik-e-shanakht) to educate the Christian youth about these kind of opportunities.
Today the organizers invited me to share my views with the Christian candidates who are preparing for CSS 2017 and it was a pleasant surprise that there were 13 students. I was overjoyed as since the creation of Pakistan including the pre-partition ICS according to my research maximum only 30 Christians have passed the CSS.
Whether it is a business or social work still hats off to the Tax forum people especially Shahid Pervaiz Jami. I enjoying talking to the candidates via skype.
I hope that programs like these will be organised in Christian educational institutes.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply