ناسٹلجیا۔۔۔عنبر عابر

میرا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا اور حلق سوکھ کر کانٹا بنا ہوا تھا۔میرے سامنے ریت پر پیروں کے وہ نقوش بنے تھے جنہیں میں حسرت بھری نگاہوں سے تک رہا تھا۔ بہت دیر ہوگئی تھی۔۔۔مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ کبھی ان نقوش پر نظر ڈالتا۔۔اب وقت تھا کہ ریت کی مانند میری مٹھی سے پھسل رہا تھا۔مجھے جلد از جلد ان نقوش کے سہارے اپنی منزل تک پہنچنا تھا۔ہاں اپنی منزل جہاں بہت کچھ تھا۔جہاں میرا بچپن تھا،جہاں رنگینیاں تھیں اور بچھڑے یار تھے،جہاں آسمان سے پریاں اترتی تھیں اور زمین سے محبت کے سوتے پھوٹتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے ہمت کرکے اپنا پہلا قدم ان نقوش پر رکھ دیا۔میرے پاؤں جلنے لگے،لیکن میں رک نہیں سکتا تھا،مجھے چلنا تھا۔۔میں آبلہ پا اپنا سفر طے کرنے لگا۔یہ کانٹوں بھرا سفر تھا۔۔ گردشِ ایام کا پیچھے کی طرف لوٹنے کا سفر۔یہ نقوشِ پا میرے جانے پہچانے تھے۔یہ بڑے نپے تلے نقوش تھے۔یہ میرے قدم تھے جو میں نے پھونک پھونک کر اٹھائے تھے۔اب میں سوچ رہا تھا کاش ایک پھونک مار انہیں ختم کردیتا۔سارا قصہ ختم ہوجاتا۔۔لیکن یہ ناممکن تھا۔یہ پتھر پر لکیر کی طرح مضبوط تھے۔۔یہ نقوش ظالم وقت نے رقم نے کیے تھے جس کا لکھا کوئی نہیں مٹا سکتا۔۔
یک بیک میرا رواں رواں خوشی سے جھومنے لگا.ل۔میری منزل نزدیک آگئی تھی۔واپسی کا سفر مکمل ہونے والا تھا۔آنے والی کیف آور گھڑیوں کے احساس سے میرا جسم شرابور ہوگیا تھا کہ ناگاہ میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔
میری نگاہوں کے سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ایک جھریوں زدہ انسانی لاشہ۔سالخوردہ اور درماندہ۔۔میں نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔۔وہ بوڑھا میرا ہمشکل تھا۔سو فیصد میرا ہمشکل۔۔اس کے تاریک چہرے پر صد ہا سالوں کی ویرانی تھی۔۔اس کی آنکھیں کھنڈر تھیں اور پیشانی گرد آلود۔۔میں آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا۔
بوڑھے کے ہونٹ ہلے اور زخمی لفظوں کی تپش سے میرے کان جلنے لگے۔۔
“واپس لوٹ جاؤ۔۔تم کبھی بھی اس زمانے تک نہیں پہنچ سکتے جسے تم پیچھے چھوڑ چکے ہو“
میں بے دم سا ہوکر ریت پر گر گیا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply