تین بیوروکریٹ،تین سیاستدان۔۔۔۔محمد اشفاق

ظفر حجازی صاحب ایس ای سی پی کے سربراہ تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انہوں نے نواز شریف فیملی کے خلاف ہونے والی ایک تحقیق کی فائل بند کر دی۔ لطیفہ اس میں یہ تھا کہ یہ کیس برسوں پہلے کلوز ہو چکا تھا، ایس او پی کے تحت ہر کیس کی دو فائلیں تیار ہوتی ہیں، ایک پر کیس کلوزڈ کی مہر پچھلے چیئرمین لگا گئے تھے، دوسری پر یہ مہر لگنے سے رہ گئی تھی جو بدقسمتی سے حجازی صاحب نے لگا دی۔ یہ اتنا بڑا جرم تھا جس کا سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا اور ہماری حالیہ عدالتی تاریخ کے خبیث ترین کردار جناب ثاقب نثار کے براہ راست احکامات پر حجازی صاحب جیل چلے گئے۔ مزید لطیفہ یہ کہ ان کے ہاتھ سے بند کی گئی فائل آج تک بند ہی ہے، اسے کھولنے کا حکم کسی نے نہیں دیا۔ کیونکہ ان کا اصل قصور یہ تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے ایک مخصوص شخص کی جے آئی ٹی میں تعیناتی کا پیغام وصول ہونے پر خط لکھ کر اس کی تصدیق کرنا چاہی تھی۔ یہ بزرگ آدمی ہیں، پوری عمر کارپوریٹ سیکٹر میں عزت اور وقار کے ساتھ گزار کر ایک گھٹیا شخص کی کینہ پروری کا نشانہ بنے۔ آج کوئی بھولے سے بھی ان کا نام نہیں لیتا۔

فواد حسن فواد صاحب اپنے کیرئیر کے آخری پندرہ بیس برسوں میں سپر بیوروکریٹ بن گئے تھے۔ مشرف دور میں یہ جرمنی میں پاکستان کے کمرشل کونسلر رہے، پی پی کی حکومت میں ان کی خدمات پنجاب حکومت کو سپرد کی گئیں۔ مختلف اہم عہدوں پر تعینات رہے اور ہر جگہ ان کی شہرت ایک لائق اور ایماندار بیوروکریٹ کی تھی۔ اسی شہرت کی بنیاد پر 2015 میں نواز شریف نے انہیں اپنا پرنسپل سیکرٹری مقرر کیا۔ سی پیک کے حوالے سے پی ایم سیکریٹیریٹ میں جو سپیشل سیل قائم کیا گیا تھا، فواد اس کے غیررسمی سربراہ تھے۔ چین کی مختلف وزارتوں، پرائیویٹ انویسٹرز، پلاننگ کمیشن اور متعلقہ وزارتوں میں کوآرڈینیشن ان کی ذمہ داری تھی۔ آج سے ایک سال قبل ٹھیک اسی ماہ میں نیب نے انہیں آشیانہ سکینڈل میں گرفتار کیا۔ ہائی کورٹ سے آٹھ ماہ بعد انہیں اس کیس میں تو ضمانت مل گئی مگر نیب نے ان پر آمدنی سے زائد اثاثوں کی مشہور زمانہ دفعہ لگا کر انہیں اب تک قید کر رکھا ہے-

احد چیمہ صاحب کی گرفتاری نے پنجاب بیوروکریسی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ نوجوان بیوروکریٹ تھے، مشکل ترین پراجیکٹس کو کم سے کم وقت میں مکمل کرنے میں لیجنڈری شہرت رکھتے تھے۔ شہباز شریف جن کارناموں کا کریڈٹ لیتے ہیں ان میں نصف سے زائد میں احد چیمہ کا مرکزی کردار تھا۔ یہ آشیانہ سکینڈل ہی میں گزشتہ سال فروری سے گرفتار ہیں۔ آشیانہ سکینڈل چونکہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہو چکا، اس لئے اب نیب ان پر ساٹھ کروڑ مالیت کی جائیدادوں کا کیس چلا رہا ہے- دلچسپ امر یہ ہے کہ بیس جائیدادیں ان کے اپنے اور دو ان کی زوجہ جو خود بھی سول سرونٹ ہیں کے نام پر ہیں۔ گویا اتنے بڑے بیوروکریٹ نے اتنی سی زحمت بھی نہیں کی کہ کرپشن سے بنائی جائیداد بے نامی ہی رکھ لیتا۔

ان تینوں بیوروکریٹس کو گرفتار کرنے کی بنیادی وجہ ان کا دو گزشتہ وزرائے اعظم نواز شریف اور خاقان عباسی اور ایک سابقہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے تعلق تھا۔ اب دیکھئے بلکہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ یہ تینوں سیاستدان آج کس حال میں ہیں۔

میاں نواز شریف کو جیل گئے بھی ایک سال ہو گیا۔ ابتدا میں آپ کا قیام اڈیالہ جیل میں تھا۔ پوری بیرک آپ کے زیر استعمال رہتی تھی، ہر وہ آسائش جو مجھے اپنے ہی گھر میں اپنے ہی خرچے پر بھی دستیاب نہیں، آپ کو جیل میں سرکاری خزانے سے مہیا کی جاتی تھی۔ عینی شاہدین نے میرے سامنے نقشہ کھینچ رکھا کہ کیسے ایس پی بیچارہ برآمدے میں ٹہل رہا ہوتا تھا اور میاں صاحب اس کی کرسی پر بیٹھے اس کے دفتر میں مہمانوں کو دیدار کروایا کرتے تھے۔ نون لیگ کے تنخواہ داروں کی ” بائیس منٹ” جیسی دردناک کہانیوں کی نسبت مجھے اپنے ذاتی ذرائع پہ زیادہ بھروسہ ہے۔ اس لئے جب میاں صاحب نے خود کوٹ لکھپت کا انتخاب کیا تو یقین ہو گیا کہ وہاں انہیں فائیو سٹار رہائش ملنے کا یقین ہوگا۔ اب دو کارڈیک یونٹ تمام ضروری عملے اور سہولیات سے لیس چوبیس گھنٹے آپ کی خدمت پہ مامور ہیں۔ ایک سال میں ناسازی طبع کے بہانے چھ ہفتے کی چھٹی بھی انجوائے کر چکے اور شاید چند ماہ میں انہیں ضمانت بھی مل جائے۔ یہ کہنا غلط ہرگز نہ ہوگا کہ جیل بیٹھے بھی وہ نہ صرف اپنی جماعت بلکہ پاکستان پہ راج کر رہے ہیں۔

شہباز شریف جب جب اندر ہوئے، پروڈکشن آرڈر پہ اسمبلی میں خطاب بھی فرماتے رہے، لندن کا دورہ بھی کر آئے اور آزاد بھی گھوم رہے ہیں۔ عمران خان کو سب سے زیادہ ڈر ان سے رہتا ہے کہ یہ ڈیل کر کے خان صاحب کی پتنگ نہ لوٹ لیں، اس لئے ان پر آئے روز ایک نیا مقدمہ اور ایک نیا سکینڈل بنتا رہتا ہے۔ جس کا ان کی صحت یا شہرت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

شاہد خاقان عباسی صاحب کو تو اندر ہوئے آج تیسرا روز ہے۔ گرفتاری سے پہلے، گرفتاری کے دوران، عدالت میں پیشی پر اور نیب میں تفتیش کے دوران یہ چٹکلے چھوڑتے، نیب حکام کی سرزنش کرتے، ہنستے مسکراتے وکٹری کے سائن بناتے دن گزار رہے ہیں۔

ہم عامیوں کی سی وی پر جو مقام تجربے کے صفحے کا ہے، سیاستدان کی سی وی پر یہی رتبہ جیل والے صفحے کو حاصل ہوتا ہے- وہ جتنی مرتبہ اور جتنا عرصہ جیل کاٹتے ہیں ان کی عزت، مقام اور سیاسی طاقت میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا ہے۔

بیوروکریٹ کا معاملہ اور ہے- یہ پاکستان کی پڑھی لکھی کلاس کی کریم ہے جو ایک سخت مقابلے کا امتحان پاس کر کے، شاندار ٹریننگ لے کر میدان میں اترتے ہیں۔ سیاستدانوں کے غلط فیصلوں کی سزا اگر انہیں بھگتنا پڑے تو یہ بھی زیادتی ہی ہے مگر جہاں جہاں غلطی نہ سیاستدان کی ہو نہ بیوروکریٹ کی اور مشق ستم صرف بیوروکریٹ پہ ہو رہی ہو تو اس کا اثر پوری بیوروکریسی پہ پڑتا ہے- یہ اثر پڑ چکا ہے اور حکومت میں بیٹھے نابغوں کے علاوہ سب کو دکھائی دے رہا ہے- آپ بھول جائیں کہ موجودہ احتساب کے ماحول میں بیوروکریسی آپ کے اہداف حاصل کرنے میں آپ کی معاونت کرے گی۔ وہ ہر سطح پر سب سے پہلے اپنی گردن بچانے کا اور اس کے بعد آپ کی گردن پھنسانے کا انتظام یقینی بنائے گی بلکہ بنا رہی ہے-

Advertisements
julia rana solicitors london

پی ٹی آئی کو بطور جماعت اور بطور حکمران اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ آپ سیاستدانوں کو جیل بھیج کر انہیں فائدہ پہنچا رہے ہیں اور بیوروکریٹس کو جیل بھیج کر خود کو نقصان۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply