کانگو میں سامراجی جرائم

1884ء میں جرمنی کے شہر برلن میں اس وقت کے تمام سامراجی ممالک کا اکٹھ ہوا، یہ تیرہ اقوام تھیں۔ جو دنیا کے تقریباً پچانوے فیصد علاقے پہ قابض تھیں۔ کانفرنس کا موضوع تھا افریقہ کی بندر بانٹ۔ بسمارک جو جرمنی کا چانسلر تھا، اسے اس بات کا ادراک ذرا دیر سے ہوا کہ دراصل برطانیہ، فرانس، پرتگال اور سپین کی شاندار ترقی کے پسِ پردہ اصل محرک نوآبادیات سے لوٹ کھسوٹ کرکے حاصل کیا گیا زر ہے۔

بسمارک نے برطانیہ اور فرانس کے نمائندگان پہ زور دیا کہ افریقہ میں نوآبادیات کا ایک حصہ اسے بھی دیا جائے۔ سامراجی بھلا ایسی سونے کے انڈے دینے والی مرغی (نوآبادیات) سے کیوں دستبردار ہوتے۔ اسی لیے معاہدہ یہ طے پایا کہ کانگو ریجن کی تقسیم کی جائے گی اور جو سامراجی ملک جتنا علاقہ دریافت کرے گا، اسی کا ہوجائے گا۔ جرمنی کو کانگو اور مغربی افریقی ساحل پہ کچھ علاقہ مل گیا اور ساتھ کی ساتھ غلامی پہ بھی بظاہر پابندی عائد کردی گئی۔ اس پابندی کو عاید کروانے میں سب سے نمایاں کردار برطانیہ عظمٰی نے ادا کیا کیونکہ اس سے بھی اسے معاشی فائدہ حاصل ہونا تھا نا کہ اس کے پس پردہ انسانی ہمدردی کا کوئی جذبہ تھا۔ دراصل برطانوی نوآبادیات میں انسانی وسائل اور مزدوروں کی کوئی کمی نہیں تھی، جب کہ فرانس، پرتگال اور سپین کے نوآبادیات میں آبادی کی شرح کافی کم تھی۔ سو ان نوآبادیات میں کام کے حصول کے لیے غلاموں کی بہت طلب تھی۔ پس اس پابندی کے پیچھے بھی محرک سامراجی برتری ہی تھی۔

برلن کانفرنس کے دران ایک اور شخص بھی موجود تھا، وہ تھا لیوپولڈ دوم شاہِ بیلجیم۔ یہ شخص ایک لائحہ عمل کے ساتھ ظاہر ہوا، اس نے فرانس اور برطانیہ کو باور کروایا کہ ان کے درمیان افریقی نوآبادیات پہ تنازعہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ دونوں کی کالونیوں کے درمیان کا علاقہ ہنری مارٹن سٹنیلے نامی مہم جو نے دریافت کرلیا ہے اور یہ اب بیلجئیم کی نوآبادی ہے۔ یہ نوآبادی بفر ریاست کی طرح کام کرے گی اور دونوں بڑی سامراجی ریاستوں میں تصادم کے امکانات کم کرے گی۔

برطانیہ اور فرانس راضی ہوگئے مگر شرط یہ رکھی گئی کہ کانگو دریا باربرداری اور جہاز رانی کے لیے کھلا رہے گا اور اس علاقہ میں تمام یورپی ممالک کی کمپینیاں انوسٹمنٹ کرسکتی ہیں۔ 1885ء میں کانگو باضابطہ طور پہ بیلجئیم کی نوآبادی بن گیا مگر لیوپولڈ دوم نے خصوصی اختیارات اور پارلیمنٹ میں لابنگ کرکے اس خطے کو اپنی نجی ملکیت میں لے لیا جو بیلجئیم سرکار نہیں بلکہ شاہ لیوپولڈ کے ذاتی تصرف میں تھی۔ نوآبادیاتی سرکار نے سب سے پہلے خطے کے وسائل لوٹنے شروع کیے اور ہاتھی دانت کی چوری شروع کی۔ لاکھوں کی تعداد میں ہاتھیوں کو مارا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کانگو بیسن میں شاذونادر ہی آپ کو ہاتھی نظر آئیں گے۔ 1894ء میں مشرقی سواحلی بولنے والی مقامی ریاستوں نے سامراجی سرکار کے خلاف بغاوت برپا کردی۔ مقامی سادہ ترین ہتھیار استعمال کرتے تھے جب کہ سامراجیوں کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ بغاوت کو کچل دیا گیا مگر سامراج نے مظلوم طبقات سے بے رحمانہ بدلہ لیا، قوم کے مردوں کے ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ تاریخ میں اس سے زیادہ ظلم کی داستان کبھی نہ سنی گئی مگر ایسا یورپی "مہذب" ملکوں نے کیا۔ 19ویں صدی کے آخری عشرے میں ربڑ کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی تھی کیونکہ ربڑ منڈی میں نیا نیا آیا تھا اور اس سے تیار شدہ اشیا مہنگے داموں بک رہی تھیں۔


لیوپولڈ کی بنائی سرکار نے کانگو کی ساٹھ فیصد بے آباد زمین جس پہ جنگلات تھے اور مقامی آبادی بھی آباد تھی، قومیا لیے اور پھر یہ زمینیں اینگلو بیلجین ربڑ کمپنی اور انورساریو ربڑ کمپنی کو دے دی گئیں۔ ایک پبلک فورس نامی فوج بنائی گئی جو لوگوں کو جبری محنت پہ مجبور کرتی تھی اور کام نہ کرنے پر مزدوروں کو "چلکوٹی" نامی کوڑے سے مارتی اور اگر معاملہ زیادہ بڑا ہوتا تو قتل بھی کردیتی تھی۔

جزیرہ نما کانگو دریا کے زیریں میدان کے علاقہ میں 1890 سے 1908 کے درمیان دس سے پندرہ ملین لوگوں کی اموات ہوئیں جو اسی پبلک فورس کی کرشماتی قتل عام کی تیکنیکس کی بنا پہ ہوئیں۔ درست بتایا نہیں جاسکتا مگر اندازہ ہے کہ ان اموات بلکہ قتل کی وارداتوں کی تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔

کمپنیوں نے ربڑ کے کھتیوں میں کام کرنے کے لیے مقامی آبادی کو غلام بنا لیا جہاں جبراً کام کروایا جاتا اور بدلے میں صرف دو وقت کی روٹی ملتی۔ اس سیاہ دور کے بارے میں کانرڈ نام کے ایک مصنف نے بہت کچھ لکھا۔ اس کی کتاب "ہارٹ آف ڈارکنس" میں اس کے بارے میں تفیصلاً لکھا گیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ" دریائے کانگو کے زیریں میدان میں کوئی مقامی آپ کو تندرست اور توانا نظر نہیں آئے گا۔ لوگوں کے پیٹ پسلیوں سے جا ملے ہیں۔ جو بھی شخص فارغ نظر آتا ہے، کمپنی کے کارندے اسے جبراً اغوا کرکے اپنے ربڑ کے کھتیوں میں لے جاتے ہیں جہاں ان کی پشتوں پر چابک سے مارا جاتا ہے، ہاتھ کٹے ہوئے مرد کثرت سے ملیں گے".

یہ تمام استحصال ایک انسانی حقوق کی تنظیم "عالمی افریقی تنظیم" کی آڑ میں ہورہا ہے۔ جس کا سربراہ شاہ لیوپولڈ دوم خود ہے۔ پورے 23 سال کے دورانیے میں کوئی ترقیاتی یا عوامی فلاح کا کام نہیں ہوا۔ صرف ریلوے لائن تعمیر ہوئی جس کا مقصد غلاموں اور لوٹے ہوئے خام مال، ہاتھی دانت اور ربڑ کی ترسیل تھا۔

شاہ لیوپولڈ دوم ملک کا مختار کل تھا اور اسی کے اشاروں پہ یہ تمام اقدامات اٹھائے جاتے تھے۔ بیلجئیم کی معاشی حالت بہتر ہوتی جارہی تھی مگر وطن غربت، افلاس اور جبر کی اتھاہ گہرایوں میں دفن تھا۔ سیاسی سرگرمیوں پر ہر قسم کی پابندی تھی۔

فرانسیسی کانگو سے بڑی تعداد میں لوگوں نے جبر سے بچنے کے لیے لیوپولڈ کے کانگو کی جانب ہجرت شروع کی مگر یہ تمام مقامی لوگ واپس فرنچ نوآبادیاتی انتظامیہ کے حوالے کردئیے گئے جن میں سے کم و بیش پچاس ہزار افراد کو پھانسی دے دی گئی اور باقیوں پہ غلامی کو جبراً تھوپ دیا گیا۔ فرانسیسی سامراج کے ہاتھوں دس لاکھ الجزائری عوام کا قتل تو دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے۔


مقامی افراد میں یورپیوں کی بیماریاں چکن پاکس اور ہیضہ پھیل گئیں جس سے دریائے کانگو کے زیریں اور بالائی میدان کی آدھی آبادی فنا ہوگئی۔ طبی سہولیات سرے سے موجود ہی نہ تھیں۔ لیوپولڈلی جو سب سے بڑا شہر تھا، موجودہ نام کنشاسا، میں صرف ایک ہسپتال تھا جہاں سفید فاموں کا علاج ہوتا تھا۔

پہلی جنگ عظیم میں پبلک فورس اور برطانوی افواج نے مل کر جرمن کانگو پہ قبضہ کرلیا اور وہاں بھی مقامی آبادی کا ہی قتل عام ہوا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دران جو بھی مرد نظر آتا، اسے فوج میں بھرتی کرلیا جاتا اور یہ معصوم لوگ پرائی جنگ کا ایندھن بن جاتے۔ دس لاکھ افراد کو رنگروٹ بنایا گیا جن میں سے جنگ کے بعد صرف تین لاکھ ہی واپس لوٹے، باقی تمام تاریک راہوں میں مارے گئے۔

شاہ لیوپولڈ نے ربڑ، ہاتھی دانت اور مقامیوں کے خون سے رنگی دولت سے بیلجئیم میں بڑی بڑی عمارتیں بنائیں اور اپنی داشتاؤں کو دولت سے خوب نوازا۔ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی وجہ سے بہت سے ارکان پارلیمان لیوپولڈ کے مخالف ہوگئے یا شاید ان کا اپنا فائدہ بھی موجود تھا کیونکہ کانگو فری سٹیٹ کی پوری دولت کا کرتا دھرتا لیوپولڈ ہی تھا۔ پس پارلیمان نے متفقہ قرارداد سے کانگو کو بلاواسطہ بیلجئیم کی نوآبادی بنا لیا مگر انتظامیہ وہی رہی جو پہلے فری سٹیٹ کے دور کی تھی۔ حتیٰ کہ گورنر جنرل بیرن وہز تک تبدیل نہیں کیا گیا۔
1936 تک کوئی پارٹی بنانے کی اجازت نہیں تھی مگر بیلجئیم کی کالونی بننے کے بعد کچھ ترقیاتی کام ہوئے اور کمپنیوں کی غنڈہ گردی کو کچھ لگام ملی۔ لیوپولڈ دوم کو مقبوضہ علاقہ میں موت کے فرشتے کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

1940 کے عشرے میں قومی آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا اور پیٹرس لوممبا جیسے جانباز مجاہد سرگرم ہوئے۔ وہ مارکسی لیننی بنیادوں پہ سامراج دشمنی کے قائل تھے۔ انہوں نے سیاسی جدوجہد کی لیکن نتائج ندارد۔ آخرکار فرانز فینن کی بات پہ عمل کرنے پہ مجبور ہوئے کہ" تشدد کو تشدد کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے" ۔ سامراج کو ملک بدر کرنے کا عمل کبھی بھی پرامن نہیں ہوسکتا کیونکہ سامراج نوآبادیوں کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔

1960 میں کانگو آزاد ہوگیا۔ لوممبا کو پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ انھوں نےانقلابی سوشلسٹ اصلاحات نافذ کیں اور ملک سے خون آشام کمپنیوں کا خاتمہ کیا۔ مگر سامراج نوآبادیوں اور ترقی پذیر ملکوں کو پھلتا پھولتا کیسے دیکھ سکتا ہے جب کہ سرمایہ دار کی سب سے بڑی شکست یہ ہے کہ مزدور اب ریاست چلانے کے لیے آزاد ہے۔ ساتھ ہی کمیونزم سے شدید نفرت بھی۔ ان تمام عوامل نے امریکی سامراج کو اپنے پٹھو بیلجئیم کے ساتھ مل کر یہ سوچنے پہ مجبور کیا کہ کیسے لوممبا کو گرایا جائے اور دوبارہ سے کانگو کو اپنی باج گزار ریاست بنایا جائے۔ اسی مقصد کے تحت ملک میں خانہ جنگی شروع کرائی گئی اور پھر لوممبا کو ایک سامراجی ایجنٹ مابوتو کے ہاتھوں گرفتار کرا کے تخت دار کی زینت بنا دیا گیا۔ وہ کانگو جو 1965 میں وسطی افریقہ کی سب سے مضبوط معیشت تھا، آج انتہائی غریب ملک بن چکا ہے، سول وار عام ہے اور قبائلی تعصب سے وطن کو جہنم بنادیا گیا ہے۔
سامراج کبھی بھی اپنی نوآبادی کو چھوڑتا نہیں ہے۔ اگر وہ چھوڑ بھی دے تو اپنے گماشتے چھوڑ جاتا ہے جو اس کے لیے ایجنٹ کا کام کرتے ہیں۔ یہ آزادی بے کار ہے۔ اصل آزادی کا حصول تب ہی ممکن ہے جب سامراج کی پھیلائی ہوئی غلاظت کو نکال باہر پھینکا جائے۔


ہمارا اصل مقصد سامراج کی وہ چیزیں دکھانا ہے جن کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ پندرہ ملین کانگولیز لوگوں کی نسل کشی، دس لاکھ الجزائری لوگوں کا خون سامراج کے ہاتھ پہ آج بھی لگا ہے، وہ اسے لاکھ دھوئیں مگر وہ اتر نہیں سکتا۔ سرمایہ دار کمپنیوں اور سرمایہ دار ملکوں کی برہنہ جارحیت نے افریقہ کو تاریک براعظم بنا دیا ہے۔ ہمارے وطن مکمل وسائل کے باوجود ترقی پذیر ہیں اور یورپ بنا کسی قسم کے وسائل کے ترقی یافتہ۔ یہ ترقی صرف افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کی دولت اور وسائل لوٹنے کی وجہ سے ہی ہے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply