انجام سے ناواقفیت کاکوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔ سب اپنے انجام سے واقف ہیں۔ میں بھی ہوں اور آپ بھی ۔ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے اور ویسے ہی مریں گے۔ ہوسکتا ہے کل کوئی نام لینے والا بھی نہ رہے۔ جیسا ہوتا آیا ہے ۔کہاں ہیں عباسی اور عثمانی خلیفہ ، کہاں ہے مغل اور راجپوت بادشاہ۔ سب نسلیں چھوڑ کے گئے پتہ بھی نہیں ان کی نسلیں کون ہیں ۔ مسلمانوں کی تاریخ میں خلفا راشدین کے بعد سوائے چند ناموں کے کون کس سے واقفیت رکھتا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ، خلیفہ ہارون الرشیدؒ، مامون الرشید، صلاح الدین ایوبیؒ سے لے کر ہند تک کے مغلوں کے نام سے واقفیت تو ہے لیکن انجام سے بھی واقفیت ہے۔ کیا کرنا ہے اس دولت کا جس سے نہ دنیا خرید سکے نہ جوانی اور نہ ہی آخرت میں کام آئے گی۔
محترمہ کلثوم نواز کو کینسر ہوا، اللہ انہیں صھت دے۔ کیا تُک بنتی تھی ایک بیمار خاتون کو الیکشن میں کھڑا کرنے کی۔ کُرسی تو اللہ جسے چاہے دے اور لے سکتا ہے حالات کب پلٹا کھائیں کیا ہوجائے ۔ دولت کے لیے اتنے جھوٹ بولے جا رہے ہیں کیا کرنا ہے اس دولت کا ۔ اسحٰق ڈار صاحب بظاہر دیندار لگتے ہیں لیکن مال جمع کرنے میں دین کہاں گُم کردیتے ہیں۔ اسلام نے مال اور اولاد کو فتنہ بتایا ہے پھر اسی فتنے کو دوسرے فتنے کے لیے جمع کرنے کی کیا تُک بنتی ہے۔ پھر اسے بچانے کے لیے جھوٹ ،کذابیت اور غلط رویوں کا مظاہرہ کیوں کیا جاتا ہے۔ یہاں تو چند کرائے کے ساتھیوں کے ساتھ پیش ہوا جا سکتا ہے کل رب کی عدالت میں جب ‘نفسا نفسی’ کا دور دورہ ہوگا ، خاندان کے لوگ بھی نہیں پہچانیں گے ، پھر وہاں کیسے پیش ہوا جائے گا۔ وہاں کون وکالت کرے گا۔ عدالت میں صرف شریف خاندان نے نہیں بلکہ سب بے اختیار اور بااختیار نے پیش ہونا ہے انہوں نے بھی حساب دینا ہے جو اربوں روپے کے بنگلوں میں کتوں کے ساتھ تو رہ سکتے ہیں لیکن ان بنگلوں میں انسانوں کے لیے جگہ نایاب ہے۔ میں تو کہتا ہوں فرعون، قارون، شداد ہمارے ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کا عشر عشیر بھی نہیں ۔
جیسے قصے قران میں ملتے ہیں یا ماضی کی تاریخ سے تو ان سے زیادہ ہم موجودہ لوگوں کو دیکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے انہوں نے رب اور ربوبیت کو تسلیم تو کیا ہوا ہے لیکن پھر بھی رب کا حکم ماننے کے انکاری ہیں۔میاں صاحب کے کرتا دھرتا سے جو حرکتیں ہو رہی ہیں یہ دوبارہ کہیں سیاسی پناہ نہ حاصل کرنی پڑے۔ پھر یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے جن لوگوں کو کمان دی ہے وہ اس کمان کو تیر میں ڈال کر میاں صاحب کو نشانہ لگانا چاہ رہے ہیں۔ چوہدری نثار صاحب کی ناراضگی اور باتیں کبھی کبھار درست بھی لگتی ہیں لیکن چوہدری صاحب ہر ایسے موقع پر میان نواز شریف صاحب سے روٹھ کر میکے کی طرف چل پڑتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے ان کو پہلے سے ہی کچھ معلوم تھا جو کچھ ہونے والا تھا۔ ان کی ہمدردی پر بھی رشک آتا ہے کہ چوہدری صاحب فیصلوں سے پہلے متوقع فیصلہ سناکر مشورے دیتے ہیں کہ سرکار! سرکار چھوڑ دیں ورنہ کچھ ہاتھ نہیں آنا ۔ پھر ویسا ہی ہوا جیسا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی سنا ایسے مشیر ہوتے تھے تو جو مشورے بھی مخلصانہ دیتے تھے ساتھ آنے والوں کی چاپلوسی بھی کرلیتے تھے۔
گزشتہ روز احتساب عدالت میں پیشی کے وقت سابق وزیراعظم کی صاحبزادی ایک قافلے کے ساتھ عدالت پیش ہوئی ، ایسا لگتا ہے کہ عدالت کی سکیورٹی بھی تیار تھی، ساتھ محترمہ بھی اپنے دستے لے کر آئیں جن کی وجہ سے پولیس اور وکلاء میں گھونسے اور مکوں کا تبادلہ بھی کیا گیا۔ عدالت میں وکلاء کے دستوں کے ساتھ ، ن لیگ کے جانبازوں نے بھی پھلانگنے کی کوشش کی اور عدالت کو ایک منڈی بنا لیا جس کی وجہ سے جج نے سماعت چھوڑ کر کچھ دنوں تک موخر کردی۔ پہلے بھی میاں نواز شریف صاحب پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے وقت عدالت پر حملہ کرنے کا راگ اکثر سنائی دیتا ہے۔ پھر میاں صاحب نے ججز بحالی تحریک میں جس جج کو بحال کروایا تھا اور اپنے ان گناہوں کو دھونے کی کوشش کی اس کی وجہ سے وکلاء بھی آؤٹ آف بریک ہوئے ساتھ بحال ہونے والے جج صاحب نے بھی ایک مافیا کا روپ دھا ر لیا اور آج وہ میاں نواز شریف کے خلاف ہی زہر افشانی کرتا رہتا ہے۔ یہ غلطیاں اس خاندان کو مزید گرداب میں پھنسائے جا رہی ہیں۔
اب کچھ دن سے ختم نبوتﷺ کی آئینی ترمیم کے مسئلے نے میاں صاحب کو مزید خراب کر دیا ہے حالانکہ لگتا ایسے ہے جیسے ان کے پشت پر بیٹھے اعمال لکھنے والے ساتھیوں نے ایسی حرکت کی ہو اور میاں صاحب کو خبر بھی نہ ہونے دی ہو، پھر جب خبر ہوئی تو حکم تحقیقات بھی آن ٹھہرا ۔پھر داماد اول کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے اس آگ کو بُجھانے کی بھرپورکوشش کی لیکن ن لیگ کے اپنے ہی صوبائی وزیر قانون راناثناء اللہ نے اس بُجھتے الاؤ پر تیل چھڑک کر مزید بھڑکا دیا ۔ میں سمجھتا تھا کہ وزیر قانون صاحب آئین اور قوانین سے کافی واقفیت رکھتے ہیں جو مسلسل دوسری تیسری مرتبہ وزارت کے عہدے پر براجمان کیے جا رہے ہیں لیکن اب یہ عقدہ کھُلا ہے کہ موصوف کو یہ علم بھی نہیں کہ قادیانی پاکستان کے آئین کی روُ سے بھی کافر ہیں بلکہ ان سے مسلمانوں کا اختلاف کوئی فروعی نہیں بلکہ یہ اختلاف نظریاتی اور حقیقی ہے۔ کیپٹن صفدر کی جذباتی تقریر کو راناثناء اللہ نے ملیا میٹ کردیا جس کا خمیازہ اب پوری پارٹی کو بھگتنا پڑے گا اور یہی زوال کی نشانیاں ہیں۔
Facebook Comments
تمام دوستوں کا بہت شکریہ جنہوں نے تحریر کا مطالعہ فرمایا۔ اگر ساتھ اپنی رائے عنایت فرما دیں تو بہت مشکور ہوں گا۔