اساتذہ کی عارضی بھرتیاں اور قوم کا مستقبل ؟۔۔عاصمہ حسن

کسی بھی معاشرے کی ترقی میں استاد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ استاد ہی ہے جو قوم کی تعمیر میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں ہر روز ہمیں ایک نئے تجربے اور امتحان سے گزرنا پڑتا ہے ـ زندگی کے اس پُل صراط کو بہتر طریقے سے عبور کرنے میں رہنمائی کرنے والا ایک استاد اور معلم ہی ہے جس کی تربیت اور دیا گیا علم ‘ طالب علم کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور حالات سے لڑنے کا ہنر عطا کرتا ہے ـ۔

ایک استاد کی شخصیت براہ راست طالب علم کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ طلباء استاد کو اپنا آئیڈیل اور رول ماڈل مانتے ہیں اور جانے انجانے میں اپنے استاد کا اسٹائل اپنا لیتے ہیں ـ طلباء اس قدر استاد کو صحیح مانتے ہیں کہ اپنے والدین تک کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ کو نہیں معلوم میرے استاد نے بالکل صحیح کہا ہے ـ۔

جیسے ایک جوہری ہی کو ہیرے کی قدر معلوم ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایک استاد ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا کونسا طالب علم کیسا ہے’ اس کی صلاحیت کیا ہے مزید یہ کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو کیسے بروئے کار لا سکتا ہے ـ ایک استاد ہی ہے جو طالب علم کے اندر سے اس کی چھپی صلاحیتوں اور خوبیوں کو نہ صرف جانچتا’ پہچانتا ہے بلکہ ان کو نکھارتا بھی ہے ـ۔

یہ بھی سچ ہے کہ ایک استاد ہی ہے جو کورے کاغذ پر نقش بناتا ہے اور وہ نقش وقت کے ساتھ پکے ہوتے چلے جاتے ہیں نتیجاتاًطالب علم اسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے ـ اگر ایک استاد شاگرد کو کہہ دے کہ تم تو جینیس (عقلمند و باکمال) ہو’ تم یہ کر سکتے ہو— تو ایسا جادو ہوتا ہے کہ وہ شاگرد واقعی ویسا کر لیتا ہے اور یہ اعتماد اس کو اس کا استاد ہی عطا کرتا ہے ـ۔

وہی قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں جو اپنے استادوں کو عزت و احترام دیتی ہیں ـ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ وہ روم یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انھوں نے قانون کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں چالان ہو گیا اور کئی بار نوٹس آنے کے باوجود چالان جمع نہ ہو سکا آخر عدالت میں پیشی ہو گئی جب جج کو معلوم ہوا کہ آپ استاد ہیں تو اپنی کرسی سے کھڑے ہو گئے اور بولے کہ ٹیچر اِن کورٹ ،ـ اُن کو پروٹوکول دیا گیا اور ایک تقریر ہوئی کہ آپ کی وجہ سے ہی ہم اس مقام پر ہیں ہم شرمندہ ہیں کہ آپ کو کورٹ میں آنا پڑا لیکن مجبور ہیں کیوں کہ آپکے دئیے علم نے ہی ہمیں انصاف کرنا اور تمام ضابطے پورا کرنا سکھایا ہے یہ ہی نہیں بلکہ وہ کارروائی کے بعد مجھے رخصت کرنے بھی آئے ـ ان کے اس رویہ سے استاد ہونے کے ناطے زیادہ شرمندگی ہوئی ـ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ قوم اپنے استادوں کی بہت عزت و احترام دیتی ہے اور ان کو اپنا آقا مانتی ہے اسی لئے ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ ـ

ہمارے ہاں بھی ایک وقت تھا جب اساتذہ کو علم کا سمندر تصور کیا جاتا تھا ـ ان کا اپنا رعب و دبدبہ ہوتا تھا ایک عزت و وقار تھی ـ ان کا تقرر بھی میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا تھا لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ اس تعلیمی معیار کو برقرار نہیں رکھا جا سکا ـ جس کی سب سے بڑی وجہ سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کی بھرمار ہے جو ہر گلی کوچے پر کھولے گئے ہیں جن میں ان اساتذہ کو بھرتی کیا جاتا ہے جن کی تعلیمی صلاحیت کم ہوتی ہے اور تجربہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ـ ایسے لوگوں کو لینے کی سب سے بڑی وجہ یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ کم تنخواہ میں آسانی سے مل جاتے ہیں جو زیادہ تر نزدیک کی آبادی ‘ گلی محلے سے تعلق رکھتے ہیں ـ۔

اکژیت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو کوئی اور روزگار حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد استاد بن جاتے ہیں ـ اب خود سوچیں جو زبردستی یا مجبوری میں استاد بن گیا وہ کیا پڑھائے گا’ کیا تربیت کر پائے گا اور اس کے نتیجے میں کیسی قوم ابھرے گی اور ہمارا ملک کیسی ترقی کرے گا ـ۔

بجائے اس کے کہ اساتذہ کو تربیت دی جاتی ان کے مسائل جیسے کم تنخواہ’ تقرری ‘ معاشرے میں عزت و وقار جیسے کئی مسائل کو حل کیا جاتا اور ان کی قدر و قیمت کو بڑھایا جاتا تاکہ وہ معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکیں اور فخریہ بتا سکیں کہ وہ استاد ہیں یا اس شعبہ سے منسلک ہیں ـ لیکن حکومت نے خاص طور پر پنجاب میں روزانہ یا یومیہ اجرت کی بنیاد پر اساتذہ بھرتی کرنا شروع کر دئیے ہیں جس کے جہاں کچھ مثبت پہلو ہیں وہیں منفی پہلو بھی نمایاں ہیں ـ۔

حکومتی فیصلے کے مطابق پنجاب میں 15 ہزار عارضی اساتذہ بھرتی کرنے کا حکم صادر کیا گیا مزید یہ کہ ان اساتذہ کو مستقل نہیں کیا جائے گا یعنی ان کو کسی بھی وقت نوکری یا انٹرنشپ سے نکال دیا جائے گا ـیہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس میں کسی قسم کی سیکوریٹی نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ اپنا بھرپور ان پٹ (توانائی یا علم ) نہ دے پائیں گے نہ ہی جدت لانے کے لئے کوئی تگ و دو ہی کریں گے ـ آسان لفظوں میں بچوں کے مستقبل سے کھیلیں گے ـ۔

تعلیمی میدان کرونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی مسائل سے دوچار ہے اب اس فیصلے سےمزید مسائل پیدا ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں ـ۔لیکن جہاں اساتذہ کی بھرتی سے خدشات سامنے آرہے ہیں وہیں کچھ امیدیں بھی وابستہ ہیں ـ۔

اس سےطلبا اور اساتذہ کی نسبت میں بہتری آنے کی امید ہے ـ جیسا کہ ہمارے ملک میں بے روزگاری اپنے عروج پر ہے پڑھا لکھا طبقہ جو بے روزگاری کی وجہ سے مایوسی کی دلدل میں گرتے جا رہے ہیں ان جیسے ہزاروں لوگوں کے لئے امید کی کرن نظر آئی ہے ـ اس کے علاوہ وہ خواتین جو شادی اور خاندانی مجبوریوں کی وجہ سے نوکری نہ کر پائی تھیں اب تجربہ کی کوئی حد نہ ہونے کی وجہ سے نوکری کر سکتی ہیں اور تدریسی خدمات سرانجام دے سکتی ہیں جس سے نہ صرف وہ اپنا جیب خرچ نکال پائیں گی بلکہ ذہنی سکون بھی حاصل ہو گا ـ۔

اس تقرری سے نہ صرف بے روزگاری ختم ہو گی بلکہ اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ نہ صرف اپنا علم بلکہ اپنی مہارات بھی دوسروں میں منتقل کر سکیں گے ـ لوگوں کو کام کے مواقع حاصل ہوں گے حتٰی کہ طلبا بھی پڑھا کر نہ صرف تجربہ حاصل کر سکیں گے بلکہ اپنا خرچہ اٹھا کر اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں گے ـ جس سے ہماری معاشی و اقتصادی حالت بہتر ہو گی ـ۔

اس سلسلے کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کو چاہئیے کہ اساتذہ کو ٹریننگ دی جائے ـ کیوں کہ ہر سال نصاب میں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں بہت کچھ بدل گیا ہے وہاں ہماریتعلیمی سرگرمیاں بھی نمایاں طور پر بدل گئی ہیں ہمارے تعلیمی اداروں کو چاہئیے کہ اساتذہ کی اس طرز پر تربیت کی جائے کہ وہ اچھے معمار پیدا کر سکیں اپنی اپنی فیلڈز یا ایریا میں جدت لا سکیں ـ۔

ضروری نہیں کہ ایک بی ایڈ یا ایم ایڈ کی ڈگری والا استاد اچھا اور موثر استاد بھی ثابت ہو ـ جب تک تجربہ نہیں ہو گا اس وقت تک ڈگری کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ـ لہذا ان کی تربیت کو اہمیت دی جائے ـ
عارضی بھرتیوں سے فائدہ اس وقت حاصل ہو گا جب اساتذہ کو میرٹ کی بنیاد پر تعینات کیا جائے گا ـ اگر دیگر محکموں کی طرح اساتذہ کو بھی سیاسی بنیادوں پر کیا گیا تو یہ سارا عمل ناکام ہو جائے گا اور مستقبل کے معماروں کے ساتھ یہ ایک سنگین مذاق ہو گا ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوں تو ہر شعبے میں میرٹ اور صرف میرٹ کی بنیاد پر تقرری ہونی چاہئیے لیکن تعلیم کا شعبہ ایسا ہے جس میں سفارش یا سیاسی بھرتیوں کی کوئی گنجائیش نہیں ہوتی ـ امید ہے کہ محکمہ تعلم میرٹ کے سنہرے اصولوں کو نظر انداز نہیں کرے گا ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply