ابن حزم اندلسی( 2)-انور مختار

“طوق الحمامہ” ابن حزم اندلسی کی تصنیف ہے جو گیارہویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرے میں مکمل ہوئی۔ یہ کتاب محبت و عشق پر مبنی اسرار و رموز پر لکھی گئی ہے۔اِس کتاب کا اولاً انگریزی ترجمہ A. R. Nykl

(ALOIS RICHARD NYKL (1885-1958) A. R. Nykl was born in Radlice, Bohemia, December 13, 1885. He. received his Ph.B. in 1918, his A.M. in 1919 and his Ph.D.)

نے 1931ء میں کیا اور یہ ترجمہ مارچ 1932ء میں اورئینٹل انسٹیٹوٹ شکاگو سے شائع ہوا۔ بعد ازاں دوسرا انگریزی ترجمہ آرتھر جان اربری نے 1951ء میں شائع کیا۔

The Ring of the Dove or Ṭawq al-Ḥamāmah (Arabic: طوق الحمامة) is a treatise on love written in the year 1022 by Ibn Hazm. Normally a writer of theology and law, Ibn Hazm produced his only work of literature with The Ring of the Dove. He was heavily influenced by Plato’s Phaedrus,though the bulk of the work was still his own writing, rather than an anthology of other works. Although the human aspects of affection are the primary concern, the book was still written from the perspective of a devout Muslim, and as such chastity and restraint were common themes.The book provides a glimpse into Ibn Hazm’s own psychology. Ibn Hazm’s teenage infatuation with one of his family’s maids is often quoted as an example of the sort of chaste, unrequited love about which the author wrote. The work has been published into English multiple times. A. R. Nykl [Wikidata] of the Oriental Institute of Chicago translated the work and his translation appeared in 1931[1] and A. J. Arberry’s translation was published in 1951.

ابن حزم اندلسی علم الہیات و فلسفہ اور قانون و فقہ میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اس کے علاوہ ابن حزم نفسیات کے بھی عالم تھے آپ نے بڑے غور و فکر سے نفس انسانی کی گہرائی میں اتر کر بنظر غائر اس کا مطالعہ کیا تھا آپ نفس انسانی کا تجزیہ کرتے اور بتاتے ہیں کہ قبائل و اقوام میں مختلف قسم کے افکار و نظریات کیونکر نفوذ کرتے ہیں پھر افراد کے نفوس کا تجزیہ کرتے ہیں یہاں تک کہ عشق و محبت کو بھی موضوع کلام بناتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں کہ عشق کیونکر دلوں میں داخل ہوکر ان پر قابو پا لیتا ہے آپ کی کتاب “طوق الحمامہ “یہ بات معلوم کرنے کے لیے کافی ہے یہ عظیم فقیہ عشق و عشاق کے احوال و کوائف اور عشق و محبت کے عوامل سے کس قدر با خبر تھے۔ یہ معلومات انھوں نے تجربہ و مشاہدہ کی روشنی میں حاصل کے تھے ظن و تخمین کی بنا پر نہیں اس کے لیے انہوں نے کتابوں کی ورق گردانی نہیں کی بلکہ اپنے علم کی مدد سے اسے محسوسات کی دنیا میں ملاحظہ کیا۔ ابن حزم کی خوشحالی اور فارغ البالی اس میں مزید معاون ثابت ہوئی انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں تربیت پائی تھی جس کے صحن میں حسین نازنین باندیوں کی آمدورفت تھی اور اس طرح انہیں اپنے نفس کو آزمانے اور دوسروں کے اعمال کا جائزہ لینے کا موقع ملا پھر ان احساسات و عواطب کو ایسی بلیغ و لطیف عبارت میں قلمبند کیا جو اس صاف و شفاف آب شیریں کی طرح رواں دواں تھی جو باغوں اور ندیوں میں جاری اور ساری ہوتا ہے.اُن کی دیگر تصانیف کی نسبت طوق الحمامہ محبت و عشق کے اسرار و رموز پر مبنی کتاب ہے جو 413ھ/ 1022ء میں مکمل ہوئی۔ابن حزم اندلسی کی صرف یہی ایک کتاب ہے جو عربی ادب پر تحریر کی گئی ہے۔ دراصل یہ ایک مقالہ ہے جس کا بیشتر مواد افلاطون کی کتاب فائیڈرس سے اخذ کیا گیا ہے۔ کتاب پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو ابن حزم اندلسی کی نفسیاتی کیفیات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ہی اُن کے لڑکپن کی حسِ جمالیات پڑھنے کو ملتی ہیں بدقسمتی سے اس نایاب کتاب”طوق الحمامة”کا مکمل اردو ترجمہ ابھی تک نہیں ہوا ھے مگر عمر سلفی صاحب نے کچھ اشعار کے اردو تراجم کیے ہیں جن میں ابنِ حزم اندلسی اپنی داستانِ عشق و فراق کے بارے کہتے ہیں کہ ”اگرچہ وہ مشرق کے ایک کونے میں اور میں مغرب کے دوسرے کونے میں ہوں، مگر ہمارے درمیان محض ایک دن کی مسافت ہے۔ صبح کو سورج طلوع اس کے ہاں سے ہوتا ہے، اور شام کو غروب میرے پاس ہوتا ہے۔“ ”فراق کی ایک صورت موت ہے کہ جس میں واپسی کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ یہ آفت گُھلا دیتی ہے، یہ دکھ کمر توڑ دیتا ہے۔ یہ عمر بھر کا روگ ہے، یہی وَیل ہے، اسی کے دم سے شب تاریک ہے۔ ہر امید کو فنا، ہر چاہت کا اختتام، ہر ملاقات سے بیزاری۔ یہاں زبانیں گُنگ ہو جاتی ہیں، دوائیں بے اثر ہو جاتی ہیں، طوعاً و کرھاً صبر کے سوا کوئی حیلہ نہیں۔ آہ! محبت کرنے والوں کی اس سے بڑھ کر بھی کیا آزمائش ہو گی!! اس مصیبت کے بعد محض آہ و بکا ہے، یہاں تک کہ محب خود تلف ہو جائے یا مزید سکت کھو دے۔ اس زخم کا کوئی مرہم نہیں ہے، اس درد کا کوئی درماں نہیں ہے، اس غم کی تازگی دائمی ہے میں نے اس مصیبت میں مبتلا بہت سوں کو دیکھا، میں خود ان لوگوں میں سے ہوں جن پر یہی آفت ٹوٹی، اوائل ایام میں ہی یہ دکھ سہنا پڑا۔ میری ایک لونڈی تھی، میں ہر شے سے بڑھ کر اس سے محبت، ہر خواہش سے شدید تر اس کی خواہش رکھتا تھا۔ وہ امیدوں کا مان تھی، خَلق و خُلق کی غایتوں کا کمال تھی، میری ہم نوا و ہم ادا تھی۔ میں اس کی پہلی محبت تھا، دو طرفہ مودت تھی، پھر قدرت نے پہاڑ ڈھا دیا، گردشِ دوراں اسے اپنے ہمراہ لے گئی، وہ مٹی و پتھروں کی ہم سفر ہو گئی۔میری عمر ابھی بیس برس نہ ہوئی تھی، اور وہ مجھ سے بھی چھوٹی تھی۔ سات ماہ اس حال میں گزرے کہ کپڑے لتے کا ہوش نہ رہا، اس کے غم میں میری آنکھیں پتھر ہو گئیں، خوشیوں کو زنگ لگ گیا۔ اور اللہ کی قسم، یہ زخم ابھی تک ہرا بھرا ہے۔ اگر اس کے بدلے فدیہ دیا جا سکتا تو میں لپَک کر، پا بجولاں اپنی کُل ملکیت اور جسم کے بعض محبوب اعضاء تک دے دیتا۔ اس کے جانے کے بعد زندگی بے رنگ ہے، نہ اسے بھول پاتا ہوں، نہ کسی اور سے اُنس ہوتا ہے، وہ آئی تو دنیا سنور گئی، وہ گئی تو ہر محبت حرام ہو گئی“”عشق کا ایک مرحلہ وصل ہے۔ وصل نصیب کی معراج، مرتبے کی بلندی، عالی شان درجہ اور طلوع ہوتا ستارہ ہے۔ بلکہ وصل تو نئی زندگی ہے، جیوَن کا سکون ہے، دائمی خوشی ہے، اللہ کی عظیم رحمت ہے۔ اور اگر دنیا محض سرائے، امتحان گاہ، اور اونچ نیچ کی جگہ نہ ہوتی، اور جنت دارِ جزاء اور پریشانیوں سے جائے امان نہ ہوتی تو ہم کہتے کہ وصل ہی وہ چشمۂِ صافی ہے جو گدلاتا نہیں ہے، وہ خوشی ہے جس کے ساتھ غم اور بے چینی نہیں ہے۔ وصل خواہشات کا کمال ہے، امیدوں کی انتہا ہے۔میں نے ہمہ قسم کی لذتیں اٹھائی ہیں، رنگا رنگ حظوظ سمیٹے ہیں۔ مگر جو راحت وصل میں ہے، وہ نہ سلطان کے قُرب میں ہے، نہ دولت کی فراوانی میں ہے، نہ عدم سے وجود میں آنے میں ہے، نہ طولِ غیاب کے بعد لوٹنے میں ہے، اور نہ ہی خوف سے امن پانے میں ہے۔ بالخصوص جب فراق طویل تر ہو جائے، آتشِ ہجر خوب بھڑک چکے، لقاء کا شوق شعلے مارتا ہو، اور امیدیں اپنی حدوں کو پہنچ جائیں موسلا دھار بارش کے بعد پھوٹتی کونپلیں، بہار کے چَھٹتے بادلوں سے جھانکتی کرنیں، باغات میں بہتے پانی کا رس گھولتا ساز، چہار سُو سبزے میں گھرے سفید محلات ؛ سب وصلِ یار کے لمحے سامنے ہیچ ہے۔ ایسا یار جس کے اخلاق عالی ہوں، عادات عمدہ ہوں، اوصاف حُسن کا مقابلہ کرتے ہوں۔ وصل کو بیان کرنے سے بلغاء کی زبانیں عاجز ہیں، فصحاء کا دامن تنگ ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں عقلیں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں، سوچیں ہاتھ باندھ لیتی ہیں “

”محبت کرنے والوں کی ایک علامت آہ و بکا بھی ہے مگر اس کیفیت کے درجات ہیں۔ کچھ کے آنسوؤں کے پیالے ہمہ وقت بیتاب، جب چاہا چھلک پڑے، بہنے لگے۔ اور کچھ سدا کے بنجر، روانی سے نا آشنا۔ میرا شمار دوسری قسم میں ہوتا ہے … مجھ پر دِل سوز مصیبتیں ٹوٹتی ہیں، دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے، درونِ قلب کڑواہٹ کی وہ لہر اٹھتی ہے کہ الفاظ مخارج کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، حتی کہ سانسیں اکھڑنے کے قریب ہو جاتی ہیں۔ مگر آنکھ پتھر کی پتھر، خال خال ہی اس میں واجبی سی نمی دَر آتی ہے۔”اس دنیا کے عذابوں میں فراق کے مثل کوئی بھی نہیں، فرقت کے غم میں آنسوؤں کے ساتھ ساتھ روحیں بھی بہہ جائیں تو کم ہے۔“

”وہ لوگ جنہیں اپنے دُکھڑے سنانے کو قابلِ اعتماد دوست میسر نہ ہو، تنہائی کو دوست بنا لیتے ہیں۔ اکیلے بیٹھ کر خلا میں بڑبڑاتے ہیں، زمین سے باتیں کرتے ہیں، انہیں اس سے وہی راحت ملتی ہے جو مریض کو کراہنے سے اور مغموم کو سِسَکنے سے ملتی ہے۔ کیونکہ غم اگر دل میں گھر کر لیں تو گھٹن بڑھ جاتی ہے۔ پھر اگر زبان انہیں بیان نہ کر پائے، شکوے کر کے غبار ہلکا کرنے کو کوئی میسر نہ ہو، تو یہ غم انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ایک روز مجھے دور دراز کے علاقے سے اپنے محبوب کی موت کی خبر پہنچی۔ میں اپنے آپ سے بھاگ کر قبروں کے درمیان جا پہنچا۔ چل رہا تھا اور گنگنا رہا تھا … اے کاش کہ آج زمین الٹ دی جائے، جو مر گیا ہے وہ اٹھ کھڑا ہو، جو چل رہا ہے وہ دفن ہو جائے! کاش میں اس سانحے سے پہلے ہی مر گیا ہوتا کہ جس نے جگر میں انگارے دہکا دئیے! کاش میرے لہو سے اسے غسل دیا جاتا، میرے سینے کی پسلیوں میں اس کی قبر تیار ہوتی!“

”اگرچہ وہ مشرق کے ایک کونے میں اور میں مغرب کے دوسرے کونے میں ہوں، مگر ہمارے درمیان محض ایک دن کی مسافت ہے۔ صبح کو سورج طلوع اس کے ہاں سے ہوتا ہے، اور شام کو غروب میرے پاس ہوتا ہے۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply