پیالی میں طوفان (54) ۔ عدسے/وہاراامباکر

جب کوئی لہر کسی سرحد سے ٹکرائے تو یہ صرف منعکس نہیں ہوتی۔ یہ refract بھی ہو سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر آپ ساحلِ سمندر پر کھڑے لہروں کو دیکھ رہے ہیں تو یہ نوٹ کیا ہو گا کہ لہریں ہمیشہ ساحل کے متوازی ہوتی ہیں۔ کسی ساحل پر کبھی لہر سائیڈ سے آ کر نہیں ٹکراتی، خواہ ساحل کی اپنی سمت کوئی بھی ہو۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کی لہروں کی رفتار کا انحصار پانی کی گہرائی پر ہے۔ گہرے پانی میں لہر تیز چلتی ہے۔ ایک لمبا اور سیدھا ساحل ہے جس کی طرف بائیں سمت سے لہر بڑھ رہی ہے۔ لہر کا وہ ابھار جو کہ اس کے دائیں طرف ہے، وہ زیادہ گہرے پانی میں ہے۔ اس لئے یہ زیادہ تیز سفر کرے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لہر کا یہ ابھار گھڑی وار گھومنے لگے گا۔ جب تک یہ ساحل تک پہنچے گا، یہ اس سے متوازی ہو چکا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لہر کے سفر کی سمت کو تبدیل کر سکتے ہیں، اگر آپ دورانِ سفر اس کے منتخب حصوں پر اس کی رفتار کو تبدیل کر سکیں۔ یہ فینامینا refraction کہلاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی کی لہر میں میں رفتار کی تبدیلی کا تصور آسان ہے لیکن روشنی؟۔ فزکس میں “روشنی کی رفتار” کی بات کی جاتی ہے۔ یہ بہت ہی تیز رفتار ہے اور آئن سٹائن کی مشہور تھیوریوں ۔۔۔ سپیشل اور جنرل ریلیٹویٹی ۔۔۔ میں اس کا نمایاں کردار ہے۔ یہ دریافت کہ “روشنی کی رفتار” مستقل ہے، متنازعہ بھی تھا، اس کو قبول کئے جانا بھی مشکل تھا اور انتہائی شاندار خیال بھی تھا۔
اور اس لئے آپ کو یہ بتاتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا کہ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی ایسی روشنی کی لہر نہیں دیکھی جو کہ روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی ہو۔ ہر شے اسے سست کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ پانی بھی۔ اور اس کی تصدیق آپ خود کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ایک سکہ اور ایک پیالی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکے کو پیالے کی تہہ میں رکھیں کہ وہ آپ کی طرف والی سائیڈ کو چھو رہا ہو۔ اب اتنا نیچے آئیں کہ پیالی کا کنارہ اس سکے کو بمشکل چھپا لے۔ روشنی سیدھا سفر کرتی ہے اور اب کوئی ایسا سیدھا راستہ نہیں جو سکے سے آپ کی آنکھ تک روشنی کو لا سکے۔ اب نہ اپنا سر ہلائیں اور نہ پیالی اور اس میں پانی بھر دیں۔ سکہ نظر آ جائے گا! یہ کیسے؟ سکہ اور پیالی تو نہیں ہلے لیکن پانی سے نکلنے کے بعد روشنی نے اپنی سمت تبدیل کی اور آپ کی آنکھ تک پہنچ گئی۔ یہ اس مظہر کا بالواسطہ مظاہر ہے کہ روشنی پانی میں سست ہو جاتی ہے۔ جب یہ ہوا سے ملی تو پھر تیز ہو گئی اور اس کی وجہ سے پانی اور ہوا کے سنگم پر لہر ایک زاویے میں مڑ گئے۔ اس کو ہم refraction کہتے ہیں۔
صرف پانی ہی روشنی کی رفتار سست نہیں کرتا، ہر شے کرتی ہے۔ صرف اس کی مقدار میں فرق ہے۔ “روشنی کی رفتار” کا مطلب اس کی vacuum میں رفتار ہے۔
پانی اس کو 75 فیصد رفتار پر لے آتا ہے۔ شیشہ 66 فیصد۔ جگمگ کرتا ہیرا 41 فیصد۔ جتنی یہ سست ہو گی، ہوا کے ساتھ سرحد میں اس کا خم اتنا بڑا ہو گا۔ اور یہ وجہ ہے کہ ہیرے اتنا جگمگاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدسوں نے سائنس میں نئے دروازے کھولے۔ خوردبین نے جراثیم دریافت کئے۔ یہ دریافت کیا کہ خلیات ہیں اور ہم ان سے بنے ہیں۔ ٹیلی سکوپ سے آفاق کی کھوج لگائی۔ کیمرہ سے مناظر کو مستقل ریکارڈ کیا اور تفصیلات تک پہنچے۔
اگر روشنی ہمیشہ روشنی کی رفتار سے سفر کرتی تو ان میں سے کچھ بھی نہ ممکن ہوتا۔ ہم روشنی کی لہروں میں نہائے رہتے ہیں۔ اور یہ لہریں مسلسل reflect اور refract ہو رہی ہیں۔ ان کے سفر کے ساتھ ان کی رفتار کم اور زیادہ ہو رہی ہے۔
جس طرح متلاطم سمندر کی سطح پر choas مچا ہے۔ ویسے ہی مختلف سائز کی لہریں ہمارے گرد ہیں۔ ہماری آنکھ ان میں سے کسی ایک چھوٹے حصے کو منتخب کر لیتی ہے اور اس سے ہمیں دنیا کے بارے میں انفارمیشن ملتی ہے۔ اس کو ہم بصارت کہتے ہیں۔ سمندر کے پاس چٹان پر کھڑا شخص پانی کی لہروں کو روشنی کی لہروں کی مدد سے دیکھ رہا ہے۔ دونوں کے پیچھے ایک ہی فزکس کارفرما ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply