“درحقیقت” روحانی مضامین کا گلدستہ /ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

کسی لکھاری کی رو ح کو سمجھنے کے لئے اس فضا کو سمجھنا از حدضروری ہوتا ہے جس ماحول میں اس نے تعلیم و تربیت اور پرورش پائی ہو۔
کیونکہ وہ اسی ماحول سے تخیلات و جذبات کا چراغ جلا کر اپنے قلم کی روانی سے اسے صفہء قرطاس پر بکھیرتا ہے، تاکہ قاری کا دل بےاختیار ہو کر اسے سوچ بچار پر مجبور کر دے۔کیونکہ ہر تخلیق کار کا طبعی رحجان اور صنف سے لگاؤ اس کی دلچسپی پر منحصر ہوتا ہے۔ اصناف ادب کی ان گنت اقسام ہیں۔ جو قلبی اور قلمی اظہار پر مجبور کرتی ہیں۔ مصنفہ نثری ادب میں کمال درجہ رکھتی ہیں۔خصوصا مضمون نگاری ان کی پسندیدہ صنف ہے۔جسے انہوں نے کمال مہارت سے قلم بند کیا ہے۔انہوں نے حقائق و اثبات کا بے لاگ تجزیہ کر کے قائرین کو بے حد متاثر کیا ہے۔ ظاہر ہے مصنفہ نے تعلیم و تربیت اور معاشرتی زبوں حالی کو اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھ کر جس جستجو اور تحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔وہ گراں قدر ہے۔روحانی امور سے پر نمکین ہے۔زبان و بیان میں بے مثال ہے۔اسے منطقی انداز میں اپنے تجربات و مشاہدات کو صفحہ قرطاس پر اچھوتے انداز میں بکھیرا ہے۔ مضامین میں سادگی و سلاست کو قائم رکھا ہے۔ مختلف امور کی انجام دہی کے لیے کشادگی اور آمادگی جیسے عناصر بھرپور توجہ حاصل کرنے کی گہرائی اور گیروئی رکھتے ہیں۔
ادب کو سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے لیے کئی امثال کی ضرورت پڑتی ہے۔جو قلب و ذہن کو اپنائیت پر مجبور کر دیتی ہیں۔
جیسے جسم و روح کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔
اسی طرح قلم اور سوچ کی ہم آہنگی اپنے درمیان توازن برقرار رکھ کر حد نگاہ جمانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
لہذا مذکورہ حقائق کی روشنی میں یہ کہنا حق بجانب ہے کہ روحانی ادب صحت مند تصورات کا آئینہ ہوتا ہے۔ جبکہ جسمانی ادب محض دنیا تک اپنی محدودیت ، اثر انگیزی اور اثر نفوذی قائم رکھتا ہے۔اگر حقیقت دامن گیر ہو جائے تو بہت سی باتوں کا خلاصہ و راز کھل جاتا ہے۔ بہت سے پس پردہ حقائق سامنے آجاتے ہیں۔بات سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
اسے یوں سمجھ لیجئے کہ جو روح کے لئے بوتا ہے وہ ابدی اجر پائے گا اور جو جسم کے لئے بوتاہے وہ ہلاکت کی فصل کاٹے گا۔ کیوں کہ ادب قدرت کا وہ انمول اور بے لوث تحفہ ہے جس کی قدروقیمت کسی بھی دور میں بھی کم نہیں ہوئی کیونکہ یہ تخلیق کے معنی خیز موتیوں میں جڑا ہوتا ہے اور دوسری بات دیگر لوگوں کو ادب سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔
ادب کے پرچار میں زبان سب سے اہم آلہ کار ثابت ہوتی ہے۔جس کی بدولت اس کی ادبیت ، روحانیت اور لسانیت کا پتہ چل جاتا ہے کہ اس میں کتنا دم ہے۔
یقینا علم و ادب کی فضا تجربات اور مشاہدات کی زینت بن کر اپنی ارتقائی منزل کا انتخاب کرتی ہےجو قاری کو متاثر کرنے کے لیے ادب کی پرتوں میں پنہاں شیریں و تفسیری رنگ منعکس ہوتے نظر آ جاتے ہیں.تاکہ اذہان و قلوب میں روحانی من آسانی سے اتر سکے۔ یہ کماحقہ کی سی بات معلوم ہوتی ہے کہ ادب سکون و قلب کا وہ دروازہ ہے جو جسم و روح کو تروتازگی کا احساس دلاتا ہے۔ یقینا اس امر کے لیے صحت بخش تصورات ہی آگے بڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
خدا کا کلام ایسی ہمہ گیر صداقت ہے جس میں
توشہ آخرت اور ارض وسماں کی وسعتوں کے حقائق موجود ہیں۔ جو ہمیں شعور و آگاہی فراہم کر کے زندگی کی باریکیوں اور تلخیوں کو سمجھنے کا موقع دیتے ہیں۔ یقینا ایسے معاملات ، حاصلات ، ماخذات روحانیت کے باعث وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
جن کو دیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کے لیے روحانی آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیونکہ دنیا میں انسان کا زیادہ تر طبعی رحجان ہے جس کی بنیادی وجہ دنیا کی لذت و تاثیر ہے جو اسے روحانی منزل تک پہنچنے کے لئے رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑی کرتی ہے۔

دراصل ہماری دنیا میں گناہ کا اتنا زیادہ زور و شور ہے کہ انسان روز بروز اپنا روحانی معیار گراتا جا رہا ہے۔ اس کے وجود کے گرد گناہ کی دیواریں اس قدر پختہ ہیں کہ انہیں گرانے کے لیے صرف توبہ اور پختہ ایمان معجزہ کر سکتا ہے۔کیونکہ جب گناہ کے اثرات و فتور خون تک منتقل ہو جائیں تو انہیں خون سے پاک کرنا اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔جتنا خون کے نئے بننے کا عمل ہوتا ہے۔ نتیجتا خون سے ہر قسم کی کثافتوں اور ناسوروں کو پاک کرنے کے لیے پہلی ایمرجنسی دوا توبہ ہے۔جو بے قیمت اور سود مند ہے۔
بات دھیان و گیان کی روشنی میں اثرپذیری سے عملی میدان تک گناہ پر غالب آنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ مصنفہ کی کتاب پڑھتے ہوئے گماں گزرتا ہے کہ” در حقیقت” اپنی فضیلت و کرامات میں
صداقتی موضوعات کے داخلی اور خارجی اثرات سے پرنمکین ہے۔ جس کو پڑھ کر قاری کی زبان کو وہ تاثیر مل جاتی ہے جس کے حصول کے لیے اس نے اسے خریدا ہوتا ہے ۔ کسی بھی کتاب کی خوبصورتی اس کے تصورات و تخیلات سے اسے جاذب نظر بنا تی ہے تاکہ وسیع النظری اور وسیع القلبی قاری کو تشنگی اور آمادگی کا ماحول مہیا کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلاشبہ” درحقیقت” حقیقت نگاری سے روحانی شعور کی ان حسی قوتوں کو بیدار کرتی ہے اور ان شکوک و شبہات کو جڑ سے ختم کرتی ہے جو روحانی کبڑے پن کا باعث بنتے ہیں۔
میرے نزدیک کتاب پڑھنا آسان عمل ہے لیکن اس سے دشوار راستہ تخلیق کا میدان ہے جسے الفاظ کی مجسمہ سازی سے ترتیب و تدوین کے دائرے میں بنا جاتا ہے ۔جہاں روحانیت کے داخلی اور خارجی راستے رحجان کے فروغ میں پیش رفت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اس بات کی پختہ دلیل و اعزاز روحانیت کے ان علمبرداروں کو حاصل ہوتا ہے جو اس کے مکاشفات اور بھیدوں کو قلم کی روانی سے بیان کرنے کی جسارت کرتے ہیں ۔جو لوگ اپنی زندگی کی سمت اور اختیار خدا کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں وہ اس خدائے ثالوث سے جسمانی و روحانی برکات ضرور حاصل کر لیتے ہیں ۔
محترمہ کنول شفقت حیات صحابہ جہاں روحانی جذبوں سے معمور ہیں۔ وہاں وہ پاک روح سے معمور ہو کر علمی، فکری اور روحانی موضوعات کو تراشنے کا ڈھنگ جانتی ہیں۔ان کی قلمی بصیرت اور اثباتی عناصر روح و قلب کے بند دروازے کھول دیتے ہیں۔
آج کا انسان جہاں طمح و لالچ کے کھڈے میں گر گیا ہے وہاں حرص و ہوس نے اسے گناہ کے سمجھوتے پر مجبور و بے بس بھی کر دیا ہے ۔لیکن روحانی علم گناہ کے تمام اقسام کو کلام کی نوک سے کاٹنے کی طاقت رکھتا ہے۔
معلمہ نے روحانی صف میں کھڑے ہوکر” در حقیقت” لکھنے کے لیے جو جستجو و تحقیق کا پیمانہ استعمال کیا ہے وہ اپنے فکری و فنی محاسن میں بے مثال ہے۔ معلمہ نے اپنی زندگی میں گوناگوں مصروفیات کے باوجود ایک ایسا فرض ادا کیا ہے جسے نبھانے کے لیے لوگ جان چھڑاتے ہیں۔
کیونکہ تخلیق ایسا کٹھن راستہ ہے جس کی مقصدیت اور معنویت کو معلمہ نے اپنا روح و بدن جلا کر مذکورہ موضوعات کو جو جلا بخشی ہے۔وہ روحانی تشنگی بجھانے کے لیے کافی ہے۔ ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے
کہ لکھنے کا فن ایک ایسا توڑا ہے جو ایک لکھاری کو تاریخ وآخرت میں زندہ رکھتا ہے۔ لگتا ہے اسی جذبہ سے کشید ہو کر محترمہ کنول شفقت حیات صحابہ نے روحانی گوشہ ادب میں ایک نئے گلدستے کا اضافہ کیا ہے جس کی خوشبو اور روشنی کتاب کے اوراق میں بکھری پڑی ہے۔
مذکورہ کتاب کی افادیت مضامین کی صورت میں موجود ہے۔جس کا اسلوب نگارش روحانی سیرت و صورت میں موجود ہے۔
میں مصنفہ کو خوبصورت روحانی کتاب لکھنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں یہ کتاب اشاعت دوم میں اپنے بھرم وعروج کے ساتھ عوام الناس میں عزت و وقار پائے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply