مشال کا انتظار 2

میں آج بھی ہر جمعے انتظار کرتی ہوں. جب میرا شیر ویک اینڈ پہ آتا تھا. بہنیں اپنے اکلوتے بھائی کے لئے آج بھی اسکی پسند کی چیزیں پکا کے دروازہ تکتی ہیں. یہ بہنوں کی آنکھیں بھی پتھرا جاتی ہیں مگر جھپکتی نہیں. انتظار کی ڈور نہیں ٹوٹنے دیتی. بہنوں کے سروں کے دوپٹے ہوتے ہیں بھائی یہ کہتی ہوئی وہ اپنی ماں سے دروازے کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی ہیں جیسے کوئی بھٹکا پیاسا مسافرصحرا میں بادل کو دیکھ کے زندگی کی امید لگائے بیٹھا ہو. یہ چھوٹا بادل تو کبھی بڑی گھٹا بن کے برسے گا. ارے یہ کیا آج تو ابا بھی عصر کی نماز کے بعد مصلے پہ دعا میں گھٹائیں برسا رہے ہیں. یوں لگ رہا تھا کہ صوابی کے اس چھوٹے سے گھر میں کوئی ننھے منھے بہت سے بادل ایک ساتھ مل کے گھٹائیں بنے ہوئے ہیں. آج اس نمک زدہ بارش میں سب مقدس چیزیں بھیگ رہی تھیں مصلے سے لیکر قرآن. ماں کے دوپٹے سے لے کر ابا کا جائے نماز. بہن کا قرآن مجید. آخر پہ ابا بولے بیٹا میں ذرا فاتحہ کر کے آیا قبر پہ مشال میرا انتظار کررہا ہوگا. بہن دیوانہ وار ننگے پائوں گرم فرش سے بھاگتی ہوئی بیرونی دروازے تک پہنچ گئی کہ ابا میں بھی بھائی کو مل کے آئونگی کہ یک لخت اماں کی آواز نے بیٹی کے پائوں روک دئیے بیٹا اسلام میں قبرستان عورتیں نہیں جاتیں. پہلے ہی لوگوں نے ہم پہ الزام لگا کے بیٹا اں کتھے فیر وچھڑ نہ جاواں

Facebook Comments

رانا مدثر علی
میں مدثر علی ایک phd سکالر ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply