معاشرتی ہم آہنگی,معاشرتی ترقی۔۔۔۔اعظمیٰ نقوی

امن کی فاختاؤ! پر کھولو
آندھیوں میں ستم کا لشکر ہے
رات اندھیری ہے اور تو اس پار
درمیان آگ کا سمندرہے!

خالق ِ کا ئنات نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے۔ کیونکہ وہ اسکی ذہین اور خوبصور ت ترین تخلیق ہے اور پسندیدہ بھی تاکہ وہ اس کی کائنات کے سر بستہ رازوں کو دریافت کرے،تحقیق کرے،اک جہد مسلسل سے خود کو اور اپنے اردگر کے ماحولیات کو ترقی و کامیابی کی منز ل تک پہنچائے۔انسان ترقی تو کر رہا ہے مگر اس لامحددود   بالیدگی کے عمل نے اس اجتماعی ترقی کو بہت نقصان پہنچایاہے جو کہ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔

پاکستان ایک متنوع معاشرہ ہے جہاں معاشی، ثقافتی، سیاسی، مذہبی اور معاشرتی تفرقات موجود ہیں جو بلاشبہ رنگ نسل، ذات پات اورفرقوں میں منقسم ہے۔یہی تنوع،تفرقات اور اختلاف رائے پاکستان کے امن، ہم آہنگی اور معاشرتی تناسب کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نا  صرف اندرونی بلکہ بیر ونی طور پر بھی ان تفرقات اور منفی رویوں کا مقابلہ صرف تحمل برداشت اور امن کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قوم یا معاشرے کے تہذیب یافتہ ہونے کا بنیادی ستون یہی روایات اور ہم آہنگی ہیں جو کہ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تنقید برائے تنقید کی بجائے ایسی تجاویز اور اقدامات پر غور کیا جائے جو نا صرف قابل ِ قبول اور قابلِ عمل ہوں بلکہ ایک طویل مدت تک معاشرتی یگانگت کو فروغ دیں۔کوئی ذی شعور اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہمیں اپنے معاشرے میں ایسے فعال اداروں کے مربوط سلسلے کا علم ہونا چاہیے۔تاکہ ایک عام انسان ایک عام شہری بھی ان کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

اس سلسلہ میں اولاً ادارہ خاندان ہے۔جہاں ایک بچہ پرورش پاتا ہے اور اسکی پرورش اسی خاندان کی روایات و اقدار کے مطابق تشکیل پاتی ہیں۔
دوئم ،قوم اور حکومت ایسا ادارہ ہے جو بلاشبہ کسی بھی قوم اور معاشرے کی ترقی، امن، اتحادو یگانگت کو انفرادی و اجتماعی طور پر اثر   کرتا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ انصاف پسندی،مساوات اور لوگوں کی آزادی رائے کی حفاظت کرے، لوگوں کا  حق خود ارادیت بغیر کسی نسلی و مذہبی فرق کے محفوظ ہو۔

سوئم: بحیثیت ایک معاشرتی جانور،انسان بہت سے اداروں سے وابستہ ہے، جس ادارے میں وہ کام کرتا ہے جس علاقے میں وہ رہائش پذیر ہے۔ جن اداروں سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ وغیرہ  وغیرہ۔۔۔۔۔یہ سب ادارے بلاشبہ انسان کے  انفرادی و اجتماعی رویوں، روایات، رہن سہن اور معاشرتی عقائد کو متاثر کرتے ہیں۔
John Galting(جان گالٹنگ) جو ناروے کا انسان پرست (Humanist) ہے کا خیال ہے کہ معاشرے میں امن کے قیام کے لیے میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ میڈیا کے ذریعے نا صرف لوگوں کی عمومی رائے تبدیل کی جاسکتی ہے بلکہ مثبت اندازمیں اس کا استعمال معاشرے میں سکون اور چین کا مرکزی اور بہترین ذریعہ بھی ہے۔ میڈیا کئی جہتوں سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ جس سے نا  صرف عملاً نظریات کی اصلاح کی جاسکتی ہے بلکہ از سر نو تشکیل بھی دی جاسکتی ہے۔میڈیا کا کردار گو مرکزی ہے مگر متاثر کن انداز میں پیش کرنے کے لیے حق، حقیقت اور ذمہ داری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔

کسی بھی قوم اور ملک میں امن ،سکون اور معاشرتی ہم آہنگی کا حصول بذات خود سچا معاشرتی ہونے میں پنہا ں ہے۔جس کا پہلا اصول دوسرے فرد کے جذبات کو سمجھنا ،اہمیت دینا،تاکہ جواباً ً ہم بھی وہ سب حاصل کر سکیں۔ حقوق و فرائض میں توازن ہی اس کے حصول کی ضمانت ہے۔
“من لا یر حم لا یرحم”(جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا)

ہمدردی کو فروغ دینا ،انفرادی طور پر تفرقات کو کم کرنا ہی باہمی دوستی اور روادری کی فضا پیدا کرتاہے۔ جو بتدریج طاقت بنتی ہے اور اتحاد و تنظیم کے دروازے کھولتی ہے۔ اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے جہاں انصاف، مساوات اور آزادی  ء رائے جیسی نعمتیں ہوں۔ جو بلاشبہ ہر قوم کی ترقی اور ہر تہذیب کے وقار کی ضامن ہے۔

بحث سمیٹتے ہوئے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں معاشرتی ہم آہنگی کی از سر ِ نو تعریف کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ بغیر کسی رنگ و نسل، مذہبی و معاشرتی تفرقے کے انسان کو انسانیت کی بنیاد پر عزت دینا، محبت سے اس کی رائے کا احترام کرنا، مساوات کا ماحول پیدا کرنا ہی معاشرتی ہم آہنگی ہے۔ اور کسی بھی معاشرے میں امن کا ضامن بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلاشبہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ کتب بینی کو فروغ دیا جائے اور بالخصوص ادبی کتب کے مطالعہ کو یقینی بنایا جائے کیونکہ ادب سے فاصلہ اور دوری انسانیت سے دوری ہے۔ بلاشبہ کسی بھی تہذیب کی اصل روح اس کی ادبی و فکری سر گرمیاں ہو تی ہیں اور جب کسی جگہ فکری و ادبی سر گر میاں ختم ہو جائیں یا ماند پڑجائیں تو تمدن، تنظیم اور امن کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور قوم، قوم نہیں رہتی بلکہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی مانند محض ایک ہجوم باقی رہ جاتا ہے جس کے شب وروز ایک دوسرے کو نوچنے، کھسوٹنے میں گزرتے ہیں۔
ظلمتوں کے سیل سے انوار دب سکتے نہیں
اصل میں روئے سحرکو اور چمکاتی ہے رات
مسکرا کر پھول برسائے گی کل صبح بہار
کیا ہوا گر آج ہم پہ شعلے برساتی ہے رات!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply