تقدیر۔ (افسانہ)۔۔۔۔۔اورنگزیب وٹو

وہ آخری موقع تھا اس کے لیے۔منزل پاس تھی چند قدم کے فاصلے پر۔ہزاروں چہروں کے بیچ اسے وہ چہرہ نظر آ رہا تھا جس کے لیے اس نے لاکھوں لمحے جیے تھے۔آج اسے فتح حاصل کرنا تھی۔بے شمار چہرے اسے فاتح دیکھنا چاہتے تھے مگر وہ خود مفتوح تھا۔اس کے اندر آگ جل رہی تھی،دنیا اسے عظیم فاتح کے روپ میں دیکھ رہی تھی اور وہ ماضی اور حال کے سنگم پر اس لمحے کی عظمت کو تن تنہا اپنے کندھوں پہ اٹھائے کھڑا تھا۔آج اسے یقین تھا کہ وہ لا زوال ہو جائے  گا یا ہمیشہ کے لیے خود کو فنا کر لے گا۔اس کی رگوں میں صدیوں کا کرب لہو بن کے دوڑ رہا تھا۔اس کا چہرہ ہزاروں برس قدیم کسی یونانی دیوتا کا عکس تھا۔

”تم ہار نہیں سکتے۔تم ہارنے کے لیے اس دنیا میں نہیں آئے ۔۔تم فاتح ہو۔زمانے کے سکندر ہو،اگر تم ہار گئے تو سب فنا ہو جائے گا، تم سکندر بن کے ہی آؤ گے۔تم مقدر کے سکندر ہو۔“

پانچ برس قبل اس نے میدان کا رخ کرنے سے پہلے اپنی تقدیر کا سامنا کیا۔تقدیر نے اسے فاتح بن کر لوٹنے کا آدیش دیا۔مگر اس نے اپنی تقدیر کا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیا۔وہ ہار گیا اور اس کی تقدیر بھی۔اس کے ہاتھوں پر لاکھوں دلوں کے ارمانوں کا خون تھا۔اس کے قدم تب بھی نہیں لڑکھڑائے  جب اس ہار پر اس کی قوم کے ہر گھر نے ماتم کیا۔ وہ ساری دنیا کا سامنا کرسکتا تھا،اس کا قد ہمالہ سے بڑا،دامن سندھو سا زرخیز، سینہ سمندروں سے گہرا تھا۔مگر تقدیر کے سامنے وہ بے بس ہو جاتا تھا۔تقدیر کے سوالوں کا جواب نہیں تھا اس کے پاس۔پانچ سال تک مسلسل وہ اس لمحے کے بہت پاس آیا تھا جسے کھو کر وہ بہت پچھتایا تھا۔جب وہ خالی ہاتھ ساری دنیا سے چھپتا چھپاتا تقدیر کے سامنے پہنچا تو اسے دیکھ کر  سب بھول گیا۔
” تم کیسے ہار سکتے ہو؟ تم تو جیتنے کے لیے پیدا ہوئے  ہو،تم تو مقدر کے سکندر ہو،تم تو فاتح زمانہ ہو۔تم کیسے ہار گئے؟“

اس کی ساکت آنکھیں کسی سنگتراش کا کمال لگ رہی تھیں۔اس کا وجود دسمبر کی راتوں کی طرح ٹھٹھر رہا تھا۔اس لمحے کا کرب آج سالوں بعد بھی اس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیتا تھا۔تقدیر چند لمحوں بعد اس کے قدموں میں ڈھیر ہو چکی تھی۔وہ اسے اپنے کندھے پر اٹھائے سنسان راستے پر بھاگ رہا تھا۔اسکا دل اس کے قدموں کی رفتار سے ہزار گنا تیزی سے اس کے سینے کو پھاڑتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔اس کے کندھوں پر وہ وجود تھا جسے شاید وہ اپنی ماں کے بعد سب سے عزیز جانتا تھا۔اس رات تقدیر کے جسم پر نظر آنے والے زخم تو ختم ہو گئے تھے مگر ان دونوں کی روح پر جو زخم لگے تھے وہ ابھی تک زندہ تھے۔اس رات وہ تقدیر زندگی اور موت دونوں سے روٹھی ہوئی تھی۔زندگی شاید ان دونوں کو ایک کر دیتی مگر موت؟ دونوں کو ہمیشہ کے لیے فنا کر دیتی ۔

تقدیر سے اسکی ملاقات لاہور کے زمان پارک میں ہوئی تھی۔وہ اس وقت عروج کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔پوری دنیا اس کے حصار میں تھی۔اسے افسانوی داستانوں کے دیوتاؤں کی مانند پوجا جا رہا تھا۔اس روز وہ زمان پارک کے میدان میں اپنا بچپن ڈھونڈنے نکلا تھا جب اسے تقدیر کی پہلی جھلک دکھائی دی۔اس پہلی جھلک نے اسکی نظر کو مسحور کر دیا تھا اور اس کے قدم کسی طلسم کے اثر سے کھنچے چلے جا رہے تھے۔وہ ایک ہاتھ میں برش تھامے اپنے سامنے نا مکمل تصویر کو گھورے جا رہی تھی۔اس کے چہرے پر نہ جانے کہاں سے معصومیت دسمبر کی دھوپ کی طرح اتر رہی تھی۔اسے آکسفورڈ کی گرمیاں یاد آ گئیں۔آج بھی ویسا ہی خوبصورت دن تھا مگر یہ اس کا اپنا گھر تھا جہاں اسکے کمزور بازوؤں نے طاقت پکڑی تھی۔ وہ اس کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔
یو سیم ٹو بی اے گڈ پینٹر۔

اس نے نظریں پورٹریٹ سے ہٹائے  بِنا کہا۔
اگر میں جادو کر سکتی تو اس تصویر کو کاغذ پر قید کرنے کی بجائے  اس انسان کو ہی قید کر لیتی۔
”بڑے خطرناک ارادے ہیں۔لگتا ہے آپ کسی شہزادے کو قید کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ہماری کہانیوں کی طرح۔“ وہ ہنس کر بولا
”ہاں شاید ہے تو کہانیوں جیسی کہانی مگر وہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے یہیں کہیں آس پاس ہے مگر اسے ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔سنا ہے وہ ہواؤں میں اُڑتا پھرتا ہے،اس کا کہیں پڑاؤ  نہیں۔“
اور وہ اس کی طرف دیکھے بنا ہی اپنا سامان اٹھا کر وہاں سے چلی گئی۔آج آخری معرکہ تھا اور وہ اس کی فتح کا یقین لیے اس کے ساتھ موجود تھی۔

پانچ برس قبل وہ ساری رات اپنا چہرہ چھپائے  ہسپتال کے دروازے پر بیٹھا رہا۔اسے خوف تھا کہ اگر اس وقت اسے تقدیر کے ساتھ اس حالت میں کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے  گی۔وہ رات بھی قیامت کی رات تھی۔وہ شہرہ آفاق تھا،اس کی ایک جھلک کے لوگ دیوانے تھے اور وہ فقیروں کا بھیس بنائے  زمین پر بیٹھا تھا۔آخری پہر اس نے تقدیر کو ہسپتال سے نکلتے دیکھا، وہ اس کے پیچھے بھاگا تھا مگر وہ اس وقت نظروں سے  اوجھل ہو چکی تھی۔

اس سے پہلی ملاقات 85 میں ہوئی اور پھر وہ ہمیشہ اس کے ساتھ سائے کی طرح موجود رہی۔وہ اس کے وجود کا حصہ بن چکی تھی۔ساری دنیا کی چاہت اور محبت ہیچ تھی۔تقدیر نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔لندن شارجہ سڈنی کنگسٹن ہر جگہ وہ اس کے ساتھ پہنچ جاتی۔وہ اسکی ہر کامیابی پر نازاں تھی۔وہ اسے سکندر جانتی تھی۔
ایک مرتبہ پہاڑوں کے سفر میں تقدیر نے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے  کہا تھا
“ تم سکندر کا دوسرا جنم ہو، تمہاری آنکھوں میں تین ہزار سال کی کہانی ہے۔تم بھی فاتح عالم کہلاؤ  گے۔تمہاری کہانیاں پورے عالم کو تسخیر کریں گی۔“
اور وہ پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ہمالہ کی چوٹیوں کو۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس رات وہ شہر کی سڑکوں پر اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا،دیوانوں کی طرح مگر وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اس کو کھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو بھول چکا تھا۔اسے شکست کا سن کر جان دینے والوں کا غم تھا مگر اب تو اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے  تھے۔وہ ساری دنیا کو تیاگ کر میدانوں اور پہاڑوں کی خاک چھان رہا تھا،اسے اپنی تقدیر کی تلاش تھی۔وہ اسے پیڑوں کے پتوں میں دیکھ رہا تھا، اسے پہاڑ کے دامن میں ڈھونڈھ رہا تھا۔اس کے سر میں خاک تھی، پاؤ ں خارزار تھے۔اک رات وہ پاگلوں کی طرح بھٹکتے تھک ہار کر کھلے آسمان تلے مدہوش سو گیا۔اس رات تقدیر نے اسے ڈھونڈ لیا اور جیسے ہی اپنا ہاتھ اس کے دل پہ رکھااس کے گرد نخلستان آباد ہو گیا۔وہ تقدیر کی گود میں چہرہ چھپائے  رو رہا تھا، چیخ رہا تھا۔ اس کے سینے میں صدیوں کا کرب تھا،سالوں کی وحشت تھی۔تقدیر نے اسے ایک بار پھر سینے سے لگا لیا۔
”تم تقدیر کے سکندر ہو،تم فاتح عالم ہو۔“
اور وہ پھر سے اسی شان سے لوٹا جیسے دنیا اسے دیکھنا چاہتی تھی۔وہ جہاں گیا فاتح کہلایا،دنیا اس کے جنون اس کے عشق اس کے عزم کے قصیدے پڑھ رہی تھی۔اس نے کامیابیوں کے تمام میدان سر کر لیے مگر ایک آخری پڑاؤ تھا جہاں قدم رکھنے کا وعدہ اس نے تقدیر سے کر رکھا تھا-آخری مقابلہ بڑا سخت تھا۔اس کے ساتھیوں نے پوری جان لگا رکھی تھی۔اس کا دماغ ہر لمحے بدلتے حالات کے ساتھ دوڑ رہا تھا۔شروع میں نقصان اٹھانے کے بعد وہ خود آگے بڑھا اور چٹان بن کر میدان میں جم گیا۔اس کے سب سے قابل اعتماد ساتھی،نائب نے بھرپور ساتھ دیا اور جب شام ڈھلے دشمن حاوی ہونے کے لیے پر تول رہا تھا تو اس کے اعصاب سب سے مضبوط تھے۔وہ جانتا تھا کہ اس کی قوم کے علاوہ ساری دنیا کی نظریں بھی اس پر ہیں۔وہ ہمیشہ اس فتح کی نوید سناتا رہا تھا اور اب اس لمحے اس کا وجود آتش فشاں بن چکا تھا۔اسی لمحے ان دونوں کی نظریں چار ہوئیں اور تقدیر نے اسے ایک لمحے کے لیے مسحور کر دیا۔اسے کے گرد ہزاروں وجود ساکت ہو گئے۔اسی لمحے اسے ہمالہ یاد آیا۔
بس؟ کیا انسان کی یہی حیثیت ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر کوئی چیلنج نہیں؟ کیا انسان یہیں تک محدود ہے؟
”تم تقدیر کے سکندر ہو۔تم فاتح عالم ہو،تم ہی فاتح کہلاؤ گے۔“
تقدیر نے اشارہ دے دیا تھا۔اس نے اگلے ہی لمحے اپنے شاہین کو میدان میں اتارا جس نے چند ساعتوں میں میدان کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔اس نے دشمن کے دونوں خطرناک مہرے میدان بدر کر دیے اور فتح اس کی جھولی میں ڈال دی تھی۔
آخری لمحے کے لیے تقدیر نے اس کو چنا تھا۔اس کے سینے میں آندھیاں چل رہی تھیں۔اس کا وجود اس طوفان سے لرز رہا تھا۔اسے اگلے ہی قدم پر پل سراط کا سامنا تھا۔”تم سکندر ہو،تم فاتح ہو،آگے بڑھو“۔اس کے قدم آگے بڑھنے لگے۔ہزاروں نگاہیں اس کے قدموں کی حرکت پر جمی ہوئیں تھیں۔
پانچ برس پہلے جب وہ تقدیر کو کندھوں پہ اٹھائے  بھاگ رہا تھا،اس کی روح تحلیل ہو چکی تھی،وہ دنیا کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئی تھی۔وہ دوڑ رہا تھا اور تقدیر کی نگاہیں اس پر جمی تھیں۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور تقدیر اسکے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی تھی۔وہ ورلڈ کپ جیت چکا تھا اور تقدیر نے اسے حصار میں لے رکھا تھا۔لاکھوں انسانوں کے سامنے اس نے فتح کے زینے پر قدم رکھا اور تقدیر نے اسے سینے سے لگا رکھا تھا۔تقدیر نے پانچ برس قبل اس کی ہار پر دنیا سے پردہ کر لیا تھا اور اس کے وجود کا محور بن گئی تھی۔آج وہ فاتح عالم تھا اور تقدیر اس سے ہم آغوش ہو رہی تھی ۔اسے ہمالہ یاد آ رہا تھا اور تقدیر مسکرا رہی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply