برہنہ معاشرے کی بُجھی ہوئی قندیل۔۔۔۔رمشا تبسّم

نوٹ:قندیل بلوچ سے متعلق ہر دو طبقے کی رائے مکالمہ پر شائع ہوچکی ہے،یہ مضمون اسی سلسلے کی ایک کَڑی ہےاور آزادیِ اظہارِ رائے کے تحت شائع کیا جارہا ہے!

ہم ایک ایسے برہنہ معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہم برہنہ جسم اور حُسن سے اس وقت تک محظوظ ہوتے ہیں جب تک ہمارے اپنے برہنہ وجود سرِ عام لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں ہوتے۔ہر شخص یہاں ظاہری پارسا اور باطنی شیطانیت لیے  بیٹھا ہے۔ہم اس بات کا چرچا تو کرتے ہیں کہ انسان کو اصلاح خود سے شروع کرنی چاہیے ، پھر معاشرے کی بہتری کی طرف آنا چاہیے۔مگر یہاں اصلاح شروع ہو نہ ہو البتہ کردار کشی , برائی کا چرچا اور بے ہودگی کے پھیلاؤ پر طنز اور تنقید ہم دوسروں سے شروع کرتے ہیں۔ اور دوسروں کی برائیوں اور بے ہودگیوں کی فضا کچھ اس لیے  بھی قائم کردی جاتی ہے تا کہ اپنے آپ کو پارسا ثابت کرسکیں اور اس طرح اپنی “اصلاح ” سے بچ سکیں۔آج کے پُرفتن دور میں انسان اپنی برہنہ سوچ سے پورے معاشرے کو برہنہ کر کے رکھنا چاہتا ہے۔تا کہ اسکی دلجوئی کا سامان پیدا ہو سکے۔

اگر ہر شخص یہاں پارسا ہے اور دوسروں پر طنز کرتا ہے تو پھر برائی , گناہ اور جرم کرنے والے کہاں سے آتے ہیں؟ان برائیوں سے لطف اندوز ہونے والے کہاں سے آتے ہیں؟ان لطف اندوز ہونے والوں پر تنقید اور طنز کے نشتر کیوں نہیں برسائے جاتے؟

کبھی کبھی معاشرہ کردار کشی کا نشانہ کسی ایک انسان کو بناتا ہے۔ اور کبھی ایک پورا گروہ اس کا نشانہ بنتا ہے اور یہ ایک خطرناک چیز معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔ بعض دفعہ کوئی گروہ معاشرے میں دینی یا مذہبی یا اجتماعی یا فکری حوالے سے ایک تشخص کا حامل ہوتا ہے اور یہ اپنے مخالف گروہ کی کردار کشی شروع کرتے ہیں اور اب یہ ایک خطرناک اجتماعی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔جس کا نتیجہ اکثر قتل و غارت ہے۔

انسان کی شخصیت کی اہمیت کی طرف آتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی اشرف مخلوق قرار دیا ہے اور اسے دوسری تمام مخلوقات سے فضیلت  بخشی ہے ۔اب یہ  فضیلت ہر انسان کے پاس موجود ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی دین یا فکر سے ہو اللہ نے انسان کو نا  صرف اشرف مخلوق قرار دیا ہے بلکہ اس کی انسانیت کے ناطے اسے پوری دنیا کا تسخیر کنندہ بنایا ہے لہٰذا انسان کی ایک اجتماعی و معاشرتی مقام و منزلت کا ہونا ضروری ہے اور فطرتی طور پہ انسان معاشرے میں اپنی شخصیت و قدرومنزلت کا محتاج ہوتا ہے معاشی زندگی میں مادی اور معنوی طور پر انسان اپنی شخصیت و اجتماعی قدرومنزلت کی حفاظت کا محتاج ہوتا ہے۔ جب کہ کردار کشی اس فطرتی ضرورت کے الٹ ہے بعض اوقات انسان کے پاس اس کی انسانیت و خدائی کرامت کے علاوہ کسی مخصوص فکری اخلاقی یا دینی گروہ میں معتبر شخصیت ہوتی ہے ایسی صورت میں اسے مشہور و مقبول اور محترم شخصیت کے طور پر پہچان کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملات و امور کو طے کرے۔ اور اپنا معتبر ہونا ثابت کر کے زندگی سے لطف اٹھائے۔

ہم میں سے ہرشخص دوسروں کا محتاج ہے تاکہ اپنی ضروریات کو پورا کر سکے۔کچھ لوگ معاشرے میں خود کو ظاہری پارسا اور معتبر ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اپنی اس معتبر شخصیت کی حفاظت کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں تاکہ انکا باطنی برہنہ وجود کسی کےسامنے ظاہر نہ ہو۔ کیونکہ اگر ان ظاہری پارسا لوگوں کا وجود سرِ عام برہنہ ہو گیا تو لوگ ان سے دور ہو جائیں گے۔ جس کے نتیجہ میں وہ نفسیاتی طور پر اور معاشرتی طور پر مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں ، اور اپنی مادی و معنوی احتیاجات کے لیے دوسروں کا تعاون حاصل نہیں کر پائیں گے لہٰذا ظاہری معاشرتی , سماجی,دینی, اجتماعی قدرومنزلت کی حفاظت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اور جب کوئی اپنی معتبر شخصیت اور اس سے ہونے والے فائدے کو خطرے میں دیکھتا ہے تو وہ اس قدر ومنزلت کو برقرار رکھنے کے لئے معاشرتی و مذہبی اقدار کو خطرے میں ثابت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اپنی انا کی خاطر پورا معاشرہ ہی کیوں نہ برہنہ کرنا پڑے وہ اس سے گریز نہیں کرے گا کیونکہ صرف کچھ سلامت رہنا چاہیے تو وہ ایسے شخص کا اپنا باطنی برہنہ وجود اور سوچ۔۔

ہم مذہب کی بات نہ کرتے ہوئے پہلے بحیثیت ِ  انسان بات کریں گے کیونکہ مذہب کی حدود اور دائرہ کار ہم سب کو معلوم ہے۔اس پر سزا و جزا کا علم سب کو ہے۔اب ہم میں سے کوئی بھی سو فیصد پاکیزہ کردار کا حامل نہیں ہے اور اگر ہے تو بیشک وہ پھر “ولی اللہ” کا درجہ رکھتا ہے۔ایسے ولی کو سامنے آ کر دیدارضرور کروانا چاہیے۔ انسانیت کی بات کریں تو ہمیں سمجھ آ جائے گی کہ ہم سب کس قدر کھوکھلے وجود اور سوچ رکھتے ہیں۔ہمارے وجود نفرتوں اور لعن طعن کی منفی رویوں کی وجہ سے تعفن زدہ ہیں۔ہم نہ کسی زندہ انسان سے ہمدردی کا رویہ رکھ سکتے ہیں اور نہ مُردہ انسانوں کو بخشتے ہیں۔ہماری دکھاوے کی نیکیوں, عبادات, مذہبی رسومات, اور سماجی و معاشرتی اقدار کو نقصان ہو نہ ہو ہماری انا کو نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ورنہ پھر ہم لوگوں پر نہ صرف مذہبی فتوے لگائیں گے بلکہ انسانیت کے درجے سے گرا کر اسکو واجب القتل قرار دے دیں گے۔

محترمہ مرحومہ قندیل بلوچ پر گزشتہ دو دنوں سے پھر سے چرچا عام ہے۔میں بذات خود مرحومہ کا برے الفاظوں میں ذکر کرنا یا اس کو لعن طعن کرنا یا کسی قسم کی تعریفیں کرنا غیر مناسب سمجھتی ہوں۔کیونکہ اس نے جو کیا جیسے کیا، اسکا کیا نتیجہ ملا ،سب کے سامنے عیاں ہے۔وہ اب نہ تو اب اس دنیا میں ہے کہ  کوئی فضول دلیلیں دے کر اسکو ہیروئین  بنانے چل پڑے ، نہ ہی وہ اب لوگوں کے طنز کا جواب دینے آئے گی جو اس کو زیرو بنا کر اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں۔۔لہذا مرنے والوں کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا حوصلہ نہیں تو کم سے کم مزید کردار کشی سے بھی گریز کریں۔ہاں! کسی حد تک اگر کسی کے کام یا طور طریقوں سے اختلاف ہے تو اس کام پر بات کر لینی چاہیے تا کہ معاشرے میں ہر سوچ ہر نظریہ سامنے آ جائے اور ہر کوئی اپنی سمت کا تعین خود   کر لے۔برائی اور بے حیائی کا نہ تو تعلق کسی کے کردار سے ہوتا ہے نہ جنس سے نہ شخصیت سے اور نہ ہی بے حیائی کوئی فردِ واحد کی محتاج ہے۔برائی اور بے حیائی کا اپنا ذاتی وجود ہے اور ذاتی کردار ہے۔جس پر ڈائریکٹ بات ہونی چاہیے بغیر کسی سے منسوب کیے اور بغیر کسی پر تہمت لگائے۔

میرے لئے مرحومہ قندیل بلوچ کی ذات میں نہ تو دلچسپی کا کوئی عنصر ہے نہ ہی نفرت کی کوئی  وجہ۔دلچسپی اور نفرت رکھنے والے دونوں طبقات وہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح مرحومہ کی حرکات پر نظر رکھتے تھے۔جسکی دلچسپی نہیں اسکو کیا علم کہ مرحومہ کون تھی؟ کیا کرتی تھی؟ مبشر لقمان کے ساتھ قندیل بلوچ کا آخری انٹرویو نشر ہوا تو پہلی بار معلوم ہوا یہ بھی کوئی شخصیت ہے۔اسکے چند دن بعد انکا قتل ہو گیا اور پورا سوشل میڈیا انکی تصاویر اور حرکات کو لے کر میدان میں آ گیا۔اس طرح باطنی برہنگی کے حامل حضرات سر عام کسی مُردہ کو برہنہ کرنے کے لیے میدان میں آگئے۔ اور مجھ جیسے کافی نادان اور لا علم لوگوں کے علم میں یہ بات لے آئے کہ مرحومہ کیا کرتی تھیں۔اس وقت کچھ لوگوں نے نفرت کرنے والوں کا ساتھ دیا کچھ نے ہمدردی رکھنے والوں کا۔
اور میں اس وقت سے اب تک صرف اس کشمکش میں ہوں کہ وہ کون سے پارسا, مذہبی, انسانیت کے علمبردار لوگ تھے جن کو مرحومہ کی ایک ایک غلط حرکت کانہ صرف علم تھا بلکہ ان کے فون میں مرحومہ کی تصاویر اور ویڈیوز بھی تھیں ،جو شاید گیلری لاک میں محفوظ ہونگی تاکہ تنہائی میں لطف اندوز ہو کر اپنے آپ کو معاشرے میں سرِ عام برہنہ ہونے سے بچا لیں؟ وہ کون سے پارسا لوگ تھے جنہوں نے قتل کے بعد صرف چسکے کی نیت سے مرحومہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا رُخ کیا ؟

ان سوالوں سے زیادہ اہم سوال یہ بھی ہے کہ  وہ کونسے عناصر یا معاشرتی رویے تھے جنہوں نے ایک عورت کو قندیل بلوچ بننے پر محبور کیا؟جنہوں نے اسکو سراہا , پذیرائی کی کہ  وہ مزید شدت اختیار کرتی گئی ؟وہ افراد یا عناصر کون تھے جنہوں نے اسکے قتل کی فضا قائم کی؟ اور اب وہ کون لوگ ہیں جو آج تک اسکی حرکات کو دیکھ کر لطف اندوز ہو کر کبھی اس کو ہیرو بناتے ہیں اور کبھی زیرو بنانے کے لیے تنقید کرتے ہیں؟.

میری نظر میں یہ تمام لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہیں ایک گروہ “قبر سے مردے نکال کر کھانے” والا ہے۔جن کا کام مرنے والوں کی برائی کرکے اپنی پارسائی کو ثابت کرنا ہے۔اور اپنی یا اپنے خاندان کی اصلاح نہ کرنی پڑے لہذا معاشرے کے ایسے مُردہ کرداروں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے گناہوں کو چھوٹا ثابت کرنے کے لیے ان کرداروں سے موازنہ کر سکے اور اپنی باطنی برہنگی کو برقرار رکھ سکیں اور اپنے گناہوپ پر انگلی نہ اٹھنے دیں۔اس گروہ کا کام صرف تنقید کرنا ہے نہ کہ اپنی اور معاشرے کی اصلاح۔انکی پارسائی تب ہی چمکتی جب معاشرے میں کوئی بہت ہی بُرا کردار موجود ہو تا کہ اس برے کردار کے پیچھے چھپ کر ان کے کالے کرتوت اور تعفن ذدہ وجود پارسا نظر آ سکیں۔
دوسرا گروہ”قبر سے کفن چوری کر کے اپنے چولہے جلانے والا” ہے۔
جن کا مقصد بھی معاشرے کی یا خود کی اصلاح نہیں بلکہ ایسے مُردہ کرداروں کو ہیرو بنا کر شہرت اور پذیرائی حاصل کرنا ہے۔تا کہ انکی ظاہری اور باطنی برہنگی کو پذیرائی ملے۔اور انکا کاروبار روشن رہے۔

انسانیت, مذہب,ریاست اور معاشرہ ہر ایک کے قوانین اور اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ تاکہ معاشرہ میں ایک پُر امن فضا قائم رہ سکے۔انسان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر افسوس جس وقت ایسے کردار جنم لے رہے ہوتے ہیں اس وقت جس حد تک ممکن ہو یہ لطف اندوز  ہوتے ہیں مگر یہ لوگ کبھی ان کرداروں کا سہارا نہیں بنتے۔لطف اندوز ہونے والے گروہ میں پذیرائی  کرنے والے اور نفرت کا اظہار کرنے والے دونوں گروہ شامل ہوتے ہیں۔اگر کسی کے سر پر چادر اوڑھانے کا حوصلہ نہیں معاشرے میں تو معاشرہ حق نہیں رکھتا کہ  اس کو چادر کو تار تار کرے یا اُتری ہوئی چادر پر تنقید یا نفرت کا اظہار کرے۔ پہلے معاشرے میں بے سہارا لوگوں کا سہارا بننا سیکھیں۔مذہب کی آڑ میں بے حیائی پر لوگوں کو واجب القتل قرار دینے والے مذہب میں موجود بے سہارا , غریب اور مفلس خواتین کا سہارا بننے والے احکامات پر بھی نظر ڈالیں۔ جن خواتین کو مرنے کے بعد بھی قندیل بلوچ کے کردار پر لعنت ڈالنی ہے ان سے عرض ہے معاشرے میں کسی نئی قندیل کا سہارا بن جائیں۔جو خواتین قندیل کو بدکردار کہہ کر لوگوں کو دعوت دے رہی ہیں کہ  اپنے گھر کی خواتین کو ایسا بنائیں ان سے عرض ہے آپ معاشرہ کو پاکیزہ بنانے میں کردار ادا کرنے والی بن جائیں ۔”

ہماری  معاشرے کے  تمام تنقید کرنے والے مرد و زن سے عرض ہے آپ کسی کو جوتوں کا ہار نہ پہنائیں آپ صرف اسلامی بنیادوں پر معاشرے کی تشکیل شروع کریں۔آپ بے سہارا عوتوں کا سہارا اپنے بھائی, باپ , شوہر اور بیٹوں کو بنائیں۔اسلام حلال طریقے سے غریب, مفلس اور بے سہارا عورتوں کو سہارا دینے کا حکم دیتا ہے۔آپ جب معاشرے کی کسی ایک لڑکی کو قندیل بننے سے روک لیں یا قندیل بن چکی عورت کو برائی چھڑوا کر سہارا دینے کا وعدہ کر لیں اور عمل پیرا ہو جائیں۔اس وقت آپ کا حق ہے کہ  معاشرے کی برہنگی پر بات کریں ورنہ فی الحال تو پورا معاشرہ برہنہ ہے۔قندیل ظاہری برہنہ کردار ہو سکتی  ہے مگر پورا معاشرہ باطنی اور پوشیدہ برہنہ کردار رکھتا ہے۔جن کا اسلام, معاشرہ اور سماج صرف اس وقت خطرے میں پڑتا ہے جب کسی کی ظاہری برائی سامنے آئے۔اور خود چاہے انسان اپنی برائی پر پردہ ڈالنے کے ہزار جتن کر رہا ہو۔
اپنی برائیوں کو پسِ پُشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیں  مزید قندیلیں بننے سے روکیں۔آئیں مزید قندیلیں بُجھنے سے روکیں۔اور آئیں بن چکی قندیلوں کا سہارا بنیں۔اگر نہیں۔ ۔تو خاموش رہیں ،کسی کی ظاہری بے حیائی اس کو مبارک , ویسے ہی جیسے آپ کی ظاہری پارسائی اور باطنی برہنگی آپ کو مبارک۔
قندیل ہمارے برہنہ معاشرے کے باطنی برہنہ وَجُودوں میں سے ایک ظاہری برہنہ وَجُود تھی۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”برہنہ معاشرے کی بُجھی ہوئی قندیل۔۔۔۔رمشا تبسّم

  1. آج کی تحریر قندیل کے لئیے تھہ ٹائٹل اور پک سے پتا چل گیا تھا مگر آپ نے شروع ہی معاشرے کی اصلاح سے کیا تلخ حقائق بیان کئے معاشرے کے پوشیدہ عیب ایسے بتائے کہ قاری کو یہی محسوس ہو رہا تھا کہ رمشا مجھ سے مخاطب ہے ۔۔۔۔کیا ہی طنز سے بھرپور تمہید باندھی آپ نے پھر جا کر قندیل کی بات کی ۔۔آپ کے لکھنے کا انداز بہت نرالا ہے بہت مختلف ہے ۔۔آپ اسانی سے ایسی بات سمجھا جاتی ہو کہ بس یہ فن آپ کو ہی عطا ہوا ہے۔۔۔غالب کا ایک شعر آپ کے لئے

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز_بیاں اور۔۔۔۔

    یقیناً آپ کا بھی انداز_ بیاں دوسروں سے ہٹ کر ہے

Leave a Reply