ریکوڈک: پاکستان کیا کرے؟۔۔۔کامران ریاض

عالمی بینک کے ثالثی ٹربیونل کی جانب سے پاکستان کو ریکوڈ ک کے مقدمے میں 6ارب ڈالر کے ہرجانہ کے فیصلے کے بعد یہ تنقید شروع ہوگئی ہے کہ ہماری عدالتوں کی جانب سے کاروباری معاملات میں غلط دخل اندازی کے باعث ملک کو بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے کہ عالمی ثالثی کے معاملات کیسے طے ہوتے ہیں اور کیا واقعی چند افراد پر مشتمل ثالثی ادارے ایک آزاد اور خود مختار ملک پر اپنے فیصلے مسلط کر سکتے ہیں۔

بین الاقوامی کاروباری معاملات میں تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے ثالثی ادارے بنانے کا عمل 1960 کی دہائی سے شروع ہوا جب نوآبادیاتی دور ختم ہو رہا تھا اور ترقی پذیر ممالک آزاد ہو رہے  تھے۔ نو آزاد ممالک کے عدالتی نظام پر بھروسہ کرنے کے بجائے مغربی ممالک نے اپنے سرمایہ کاروں کے تحفظ کی خاطر مخالفت کے باوجود یہ نظام وضع کیا۔ مثلاً جب عالمی بینک کے ثالثی ٹربیونل کا قیام عمل میں آ رہا تھا تو لاطینی امریکہ کے ممالک اور دیگر کئی ممالک نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اسی طرح کئی ملکوں نے آج تک ایسے ثالثی معاہدوں پر دستخط نہیں کیے ہیں اور برازیل جیسے ملک بھی موجود ہیں جو سرمایہ کاری میں کسی عالمی ثالثی کے کردار کو قبول ہی نہیں کرتے اور اس کے باوجود ان ممالک میں بڑے پیمانے پر بین الاقوامی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ کہ ان ثالثی اداروں کا فیصلہ بلا کم وکاست قبول کرنا لا زم نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ایسے فیصلوں کے بعد آزاد ممالک مجبور ہوجائیں کہ وہ انہیں من وعن قبول کریں ۔ اکثر اوقات فریقین میں باہمی بات چیت کے بعد معاملات طے پا جاتے ہیں اور فیصلے سے کہیں کم رقم پر اتفاق ہو جاتا ہے۔ ایسے بھی ہوتا ہے کہ متاثرہ ممالک فیصلہ تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیں۔ اس پر دوسرے فریق کی کوشش ہوتی ہے کہ جن ممالک میں متاثرہ ملک کے اثاثے موجود ہیں وہاں کی عدالتوں سے رجوع کرکے ان اثاثوں کو حاصل کیا جائے۔ یہ سب کچھ ایک طویل عمل ہے جس میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور اکثر اوقات ثالثی اداروں کی طرف سے حق میں فیصلہ آنے کے باوجود کا روباری کمپنیوں کو بہت کم رقم مل پاتی ہے۔

اب ریکوڈ ک والے فیصلے اور اسی طرح کے دوسرے مقدمات پر آتے ہیں۔ سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے ۔ اسے پورا قانونی حق حاصل ہے کہ کسی بھی معاملے کی سماعت کرے اور اس پر فیصلہ دے سکے۔ اگر سنگین بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے سبب عدالت کسی کاروباری ادارے کے معاہدے کو منسوخ کرے تو وہ قانونی طور پر اس کی مجاز ہے۔ اسی طرح پاکستان کی پارلیمنٹ ایسے کسی کاروباری معاہدے کو منسوخ کرنا چاہے تو وہ بھی اس کا پورا حق رکھتی ہے۔ پاکستان کی اعلی ترین عدالت یا 22 کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کے سزا کے طور پہ کسی غیر ملک میں بیٹھے ہوئے تین افراد پاکستان کو جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیں تو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے سے پاکستان مجبور نہیں ہے کہ ایسے کسی حکم کو تسلیم کرے۔ ایسی توجیہات بے بنیاد ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو ثالثی ٹربیونل کے کسی فیصلے کو تسلیم کرنے پر مجبور کریں گے۔ جس کمپنی کے حق میں 6 ارب ڈالر ہرجانے کا فیصلہ ہوا ہے وہ یہ نہیں کر سکتی کہ کوئی عالمی فوج تیار کر کے پاکستان پر وصولی کے لیے  چڑھائی کر دے۔ زیادہ سے زیادہ اس کے بس میں یہی ہے کہ پاکستان سےمذاکرات کے ذریعے کچھ نہ کچھ رقم حاصل کرنے کی کوشش کرے یا پھر جن ممالک میں پاکستانی اثاثے موجود ہوں ان کی عدالتوں میں ان اثاثوں کے حصول کے ذریعے ہرجانے کی رقم وصول کرنے کے لیے  درخواست دائر کرے۔ لیکن ثالثی معاہدوں میں یہ گنجائش بھی موجود ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی خودمختاری کے تحفظ کے نام پر کسی دوسرے ملک کے خلاف ہونے والے ثالثی فیصلوں پر عمل کروانے سے انکار کر سکتا ہے۔ لہٰذا مختلف ممالک کی عدالتوں کے ذریعے ثالثی اداروں کی طرف سے عائد کردہ ہرجانے کی وصولی کا عمل طویل اور غیر یقینی ہوتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر یا مستقبل میں کبھی بھی 6ارب ڈالر ہر صورت میں ادا کرنا ہی کرنا ہیں۔

اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے تو یہ کہ ثالثی عمل میں میں اپیل اور نظرثانی کے کئی مواقع موجود ہیں، ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس عمل میں کئی سال لگ جائیں گے۔ ہرجانے کی جس رقم کا تعین کیا گیا ہے اس کی بنیاد بہت کمزور ہے اور پھر پروسیجرل معاملات پر بھی بہت سے اعتراض اٹھائے جا سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی واضح کیا جائے کہ یہ معاہدہ حکومت نے خود نہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ختم کیا تھا لہذٰا حکومت پاکستان اپنی سپریم کورٹ کے فیصلے کے برخلاف کسی بھی عالمی ادارے کا حکم ماننے کی مکلف نہیں ہے۔ اس لیے اگر کوئی ملک اپنے ہاں موجود حکومت پاکستان کے مالیاتی اثاثوں کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا تو اسے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کاروائی تصور کیا جائے گا۔ پاکستان کے قابل ذکر بیرونی اثاثوں میں پی آئی اے کی ملکیت امر یکہ  اور یورپ کی چند جائیدادیں ہی ہیں، ان کی فروخت یا پی آئی اے کی نجکاری کے ذریعے انہیں حکومتی ملکیت سے نکالا جاسکتا ہے۔

مستقبل میں ایسے معاملات کے سد باب کے لیے  ضروری ہے کہ پاکستانی حکومت ثالثی معاہدوں سے دستبرداری پر غور کرے جیسا کہ کئی دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں۔ آئندہ کے لیے حکومت اور حکومتی اداروں کی طرف سے کیے گئے کاروباری معاہدوں سے ثالثی کی شق کو نکال دیا جائے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ایسے معاہدوں میں حکومتی ملکیت کے اداروں کے کے لیگل ڈیپارٹمنٹ اور ان کے قانونی مشیر عموماً اس قابلیت کے حامل نہیں ہوتے کہ پاکستانی مفادات کا مکمل تحفظ کر سکیں۔ جہاں ایسا ہو بھی وہاں حکومت معاہدہ کرنے کو اتنی بے چین ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہی مشیروں کے قانونی اعتراضات رد کر دیتی ہے۔ ویسے بھی کئی دوسرے ممالک کی مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے حکومتی حلقوں میں پائے جانے والے عام خیال کے برخلاف ثالثی کی شق کی موجودگی بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے ہرگز ضروری نہیں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حاصل گفتگو یہ ہے کہ ثالثی ادارے کا یہ فیصلہ تشویشناک ضرور ہے لیکن خدانخواستہ ایسا نہیں کہ ہماری عدالتوں کے فیصلے کو پس پشت ڈالتے ہوئے کوئی ہماری کنپٹی پر بندوق رکھ کر ہمیں یہ رقم ادا کرنے پر مجبور کر سکے۔ البتہ یہ ایک مناسب موقع ہے کہ آئندہ اس قسم کے تنازعات سے بچنے کے لیے اہم کاروباری معاہدات کے بارے میں حکومتی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے۔

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply