پہلی جماعت دوسرا انعام، انعام رانا

فیس بک پر تھا کہ ایک پیغام موصول ہوا، کوئی انعام رانا تھا، پیغام کیا تھا، ایک عرضی تھی محبت کے آٹے میں سلیقے سے گوندھی ہوئی، پڑھا، لکھا تھا “آپ مکالمہ کے لیے لکھیں، عزت افزائی ہو گی”۔ سوچا ڈان کے لیے لکھتا ہوں، یہ مکالمہ کیا بلا ہے؟ پھر یہ انعام رانا کیا چیز ہے؟ دل نے کہا دیکھو تو کتنی محبت سے عرضی ڈالی ہے کہ تمہارا دل بانس پر چڑھ گیا ہے، دماغ نے کہا، ارے ہٹاو سرسوں کی طرح مت پھولو۔۔خیر جواب دیا کہ لکھ دیں گے، جواب آیا، مکالمہ کو آن ایئر کر رہے ہیں ، جلد بھجوا دیں، ۔۔۔۔ ادھر ادھر نظر ڈالی ایک زنگ آلودہ مضمون نظر آیا، بھیج دیا۔۔یہ انعام سے میرا پہلا تعارف تھا۔
کچھ عرصے بعد پھر موصوف آ دھمکے، کہنے لگے کہ کوئی پھڑکتی ہوئی چیز دیں، کہا بھائی کل سے چشمِ بینا پھڑک رہی ہے وہ دے دوں؟ کہنے لگے کتنے سال کی ہے؟ پھر کہنے لگے ” یہ بینا کہیں وہ ہی تو نہیں جس نے اپنی فیس بک پر عربی گھوڑے کا عکس لگایا ہوا ہے؟ واللہ کیا مرد مار پسند ہے بینا کی” !! میں نے جل کرجواب دیا، کہنے کا مطلب تھا کل سے دائیں آنکھ پھڑک رہی ہے وہ دے دوں؟۔۔۔ دل جل کر رہ گیا، یہ انعام سے میرا دوسرا ٹاکرہ تھا جو دالان میں لٹکے ہوئے اس چھینکے کی طرح تھا جو بلی کے بھاگوں کبھی بھی ٹوٹ سکتا تھا ، موصوف مجھے کچھ کچھ سنکی سے لگے تھے!
معلوم ہوا کہ رانا لندن رہتے ہیں، سہم سے گئے کہیں بھائی نہ ہوں، پھر کسی نے بتایا کے نہیں وکیل ہیں، دل نے کہا ذرا بچ کر، وکیل ہے پہلے آنکے گا پھر تمام عمر دوستی کے کوڑے سے ہانکے گا، یوں ہی مرے ڈرے دل سے دوستی کا ہاتھ ہلکا سا بڑھا دیا جسے انعام نے اس شدت سے تھاما کہ انعام پر شدت پسند ہونے کا شبہ یکدم ہی یقین میں بدل گیا۔
پھر مکالمہ چل پڑا، اور انعام مکالمے کے کھونٹے سے بندھ گئے۔
یوں ہی ایک دن سیکس پر بات چل نکلی، گرو رجنیش بنے جانے کون کون سی جبلتیں، حیوان ناطق و غیر ناطق، آسودگیوں پر ٹارچ مار مار کر روشنی ڈالنے لگے۔ ایک بار تو اُن کی باتوں سے آنکھیں اس قدر خیرہ ہو گئیں کہ دیر تک سوا سفید روشنی کے کچھ نظر اور سمجھ ہی نہیں آیا ۔ جب دیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہوئے تو پوچھنے لگے کچھ سمجھ آیا؟ کہا ہاں۔ کہنے لگے کیا؟ کہا کہ جب سمجھ آجائے تو بندہ بولنے کے قابل نہیں رہتا ، فوراً لاحول پڑھ کر کھڑکی بند کر دی۔
رانا کو پچپن ہی سے شادی کا شوق تھا۔ پہلا عشق موصوف کو پانچ سال کی عمر میں ہی ہو گیا، وہ بھی بائیس سال کی لڑکی سے، یوں آپ بچپن سے ہی کمزور رہے،۔ پھر لڑکپن میں کسی نے بتایا کہ عشق یوں نہیں یوں کیا کرتے ہیں، تب کہیں جا کر ہم عمر خاتون سے دل لگا بیٹھے، خاتون طرحدار ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھدار بھی تھیں، سمجھ گئیں ابھی ان تلوں میں تیل نہیں ، یوں رانا پھر مایوس ہو گئے۔ اور پھر ایک روز انہیں پردیس میں سچ مچ کی محبت ہو گئی، منیر نیازی اللہ بخشے ہر کام میں دیر کیا کرتے تھے اور رانا جلد بازی، جھٹ پٹ شادی بھی رچا ڈالی۔ پر زیادہ دیر نبھ نہ سکی، مکالمے کی عادت سوال پر سوال، دلیل، ایک دن بیگم صاحبہ نے غصے میں آ کر بول دیا، پلنگ کی بان کی طرح آپ کی آن میں بھی جھول آ چکا ہے۔ سکتے میں آ گئے، کافی دیر بعد جب سمجھ آیا کہ۔۔ آن ۔۔ کہا ہے تو جان میں جان آئی، ترنت کہا، بیگم اپنے نرخرے پر رحم کریں اور اپنے اس نر کو جسے آپ خر سمجھتی ہیں بخش دیں! یوں بخش دیے گئے، جب سے سنگل ہیں اور ڈبل ڈیکر بسوں کو آتے جاتے غور سے دیکھتے ہیں!
میں نے ایک دن دریافت کیا ، یار بھابھی سے نبھی کیوں نہیں؟ کہنے لگے بس اک دن دونوں کو احساس ہوا کہ محبت شادی کیلیے کافی نہیں ہوتی، سو علہدہ ہو گئے۔ ویسے بھی اگر شوہر بیوی کا عاشق بن جائے تو شادی ناکام ہی ہوتی ہے۔
خاندانی طور پر بریلوی ہیں اس ہی لیے ہر دم اُلٹے بانس بریلی کو ہمکتے ہیں، جانے کس بد بخت نے قادیانی ہونے کا الزام لگا دیا، اگرچہ فیس بک پر روضہ رسولﷺ کا عکس سجا ہے، میں نے پوچھا تو انبکوس میں آنسووں کے دریا بہا ڈالے، بھائی میں تو ایمان لے آیا کہ آنسو میں نمک نہیں عشق کی مٹھاس تھی-
اور پھر ایک دن اُن سے ملاقات ہو ہی گئی، دیکھتے ہی گلے لگا لیا، اور اس شدت سے کہ میں خود کو اُن کی اہلیہ محسوس کرنے لگا، منمنا کر کچھ کہا جو شور میں سمجھ نہیں آیا ، بس چوم کر چھوڑ دیا، اور میں اپنا گال سہلاتا ہوا، ساتھ چلنے لگا۔ رانا کراچی مکالمہ کانفرینس کے لیے آئے تھے، کئی لوگوں نے مکالمہ کراچی کے لیے دھوکہ دیا تھا جس کی دھول رانا کے چہرے سے عیاں تھی، منچ پر چڑھ کر بولنا شروع کیا، اور میں دیکھتا رہا، گندمی رنگت جو پال میں پڑے پڑے پک چکی تھی، معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی اُن کے بالوں سے ظاہر ہو رہی تھی کہ خال خال ہی تھے، خمار میں ڈوبی ہوئی آنکھیں، خمار محبت کا جس میں کوئی بھی ڈوب جائے، انعام منچ پر بول رہے تھے، اور ہم غالب کو یاد کر رہے تھے، تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!
انعام کو آب بیتیاں پسند ہیں۔ کہنے لگے ایک بار میرا کزن ایک آب بیتی لایا، جب مجھے اس عمر میں معلوم نہیں تھا کہ آب بیتی کیا ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ کزن نے جواب دیا آب بیتی ہے، کہا وہ کیا ہوتی ہے؟ کزن نے جواب دیا، دیکھ لو۔ کزن نے ادھر ادھر دیکھ کر کیسٹ لگا دی، اور آوز بند کر دی ، میں نے دریافت کیا آواز کیوں بند کر دی، کہنے لگا بہت درد ناک انجام ہے، آنسو نکل جائیں گے!میں نے کہا نہیں اور آواز کھول دی! آواز اور ٹی وی پر چلتے عکس دیکھ کر ہی میرے ہوش اُڑ گئے، آواز سن کر کزن کے بڑے بھائی نے بھی انٹری دے دی جن کے بارے معلوم ہوا تھا کہ آج گھر پر نہیں ، بس اُس کے بعد خوب مار پڑی، کزن نے میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہا، دیکھ انعام کہا تھا نا انجام پر آنسو نکل جائیں گے! بس اس دن کے بعد سے انعام کو آب بیتیوں میں دلچسپی ہو گئی، اور وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر آب بیتیاں پڑھنے لگا، سچ مچ والی!
انعام یار باش آدمی ہے آپ سے بات کرے گا تو سب کو بھول جائے گا، لگے گا کہ صرف آپ ہی اہم ہو، یہ صفت ہم نے تو صرف پرانے وقتوں میں پائے جانے والے پیر فقیروں میں ہی دیکھی کے اتنی عاجزی اور انکساری اُن ہی کا خاصی تھی کھانے میں گوشت پسند ہے، مگر گرم، کہتے ہیں ٹھنڈے گوشت سے حلق میں کچھ عجیب سا ہو جاتا ہے، حسن پرست ہیں ، ہم نے پوچھا آپ کے نزدیک حسن کیا ہے؟ جواب میں جو فلسفے کا دور شروع ہو اتوہمیں بار بار اشارتاً جماہی لینا پڑی،محبت کے پھیلاو پر یقین رکھتے ہیں ، سُنا ہے کوئن سائز بیڈ کے مالک ہیں!
سوشل میڈیا پرانعام کو ہر ایک سے بات کرنے پنگے لینے کی عادت ہے ، کبھی یہاں سوال اچھال دیا کبھی وہاں جواب دے دیا، متحرک رہتے ہیں ، کبھی اس کے انبوکس میں جھانک لیا تو کبھی کچھ لکھ کر دے مارا، سوال بہت کرتے ہیں ذات کے وکیل جو ٹھیرے! مکالمہ بنائی ہوئی ہے اور لوگوں کے پیچھے پڑ پڑ کر انہیں اکسا اکسا کر لکھواتے ہیں اور کیا خوب لکھواتے ہیں ، کہتے ہیں مکالمہ میرا خواب ہے، یہ میری زندگی کا رنگ ہے، میں نے پوچھا کون سا رنگ کہنے لگے سبز، ترقی کی علامت! میں تو جھوٹ جانوں کہ وہ خواب ہی کیا جس میں کوئی رنگ نیلا نہ ہو!
چھتیس کے ہو گئے ہیں مگر لگتے نہیں ، کچھ لوگوں پر جوانی ٹوٹ کر آتی ہے انعام پر بڑھاپا ٹوٹ کر آ رہا ہے، مجھے یقین ہے کہ کئی جوانیاں انعام پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار رہتی ہوں گی، انعام مگر انعام ہے ، کہتے ہیں انعام ہر ایک کوئی نہیں دیا جاتا ، جو سب کو مل جائے وہ انعام نہیں حرف عام میں لنگر کہلاتا ہے-
انعام جیسے دوستوں کے ہی لیے کسی نے کہا ہے،
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”پہلی جماعت دوسرا انعام، انعام رانا

  1. کیا کہنے مانی جی۔۔۔!
    یہ رانا ایسا ہی ہے بالکل ایسا ہی جیسے آپ نے لکھا ہے۔
    اللہ سے دعا ہے کہ یہ انعام ہمیں تا دیر میسر رہے اور ہم اسکی ضوفشانیوں سے بہرہ مند ہوتے رہیں۔

Leave a Reply