مکان نمبر چھ۔۔۔۔گُل نوخیز اختر

رات کے وقت اچانک فائرنگ کی تیز آواز سے آنکھ کھل گئی۔ بوکھلا کر جلدی سے مین گیٹ کھول کر باہر آیا تو گلی میں بہت سے لوگ موجود تھے۔ سب نے فائرنگ کی آواز سنی تھی لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی کہ فائرنگ ہوئی کس طرف ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مکان نمبر6 میں فائرنگ ہوئی ہے۔عموماً محلے والوں کو کچھ نہ سمجھ آرہا ہو تو مدعا مکان نمبر6 پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ پورے محلے کا واحد مکان ہے جو انتہائی پراسرار ہے۔ یہاں کے مکین بہت کم باہر نکلتے ہیں۔ کسی ہمسائے سے سلام دعا نہیں رکھتے۔ یہاں ایک پچاس سالہ مرد اور چالیس پینتالیس سالہ خاتون رہتی ہیں جو یقینا ان کی اہلیہ ہیں۔ محلے والوں کی پرتجسس نگاہیں ہر وقت اسی گھر پر ٹکی رہتی ہیں۔ سب جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کون ہیں، کیا کرتے ہیں اورمحلے والوں سے کیوں نہیں ملتے۔ یہ اگر کرائے دار ہوتے تو شائد کچھ معلومات مل جاتیں لیکن مصیبت ہے کہ گھر بھی ان کا اپنا ہے۔ اِن کے گھر کوئی ملازم نہیں،کوئی ماسی نہیں۔ایک پرانے ماڈل کی گاڑی ہے جس میں اکثر یہ دونوں سوار ہوکر نکلتے ہیں اور پھر کچھ دیر بعد واپس آجاتے ہیں۔دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ مکان نمبر6 کے مکین کبھی دروازہ نہیں کھولتے۔ محلے کی خواتین نے جب بھی جاکر بیل دی، کوئی رسپانس نہیں ملا۔ یہاں فقیر بھی لاکھ دروازہ پیٹتا رہے کوئی نہیں سنتا۔یہاں رہنے والے مرد سے میری کئی دفعہ ملاقات ہوتی ہے لیکن جونہی میں سلام لیتا ہوں، وہ سرکے اشارے سے جواب دیتا ہے اور اس سے پہلے کہ کوئی اور بات کروں، وہ تیزی سے آگے بڑھ جاتاہے۔میں نے آج تک اُسے خود سے سلام لیتے نہیں دیکھا۔ کبھی کبھار سٹور پر اُس سے سامناہوجاتا ہے۔ وہ گھریلو استعمال کی چیزیں خریدتا ہے اور خاموشی سے واپس چلا جاتا ہے۔میں اس سے ملنا چاہتا تھا، پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ اتنا مردم بیزار کیوں ہے لیکن اس کی طرف سے لگ بھگ ناگواری جیسے تاثرات کے بعد کبھی ہمت نہ پڑی……اور اسی دوران یہ فائرنگ والا واقعہ پیش آگیا۔میں نے کچھ محلے داروں سے پوچھا کہ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ فائرنگ مکان نمبر6 میں ہوئی ہے؟ جواب ملا کہ وہیں سے فائرنگ کی تیز آواز آئی ہے۔ ایک محلے دار نے مشورہ دیا کہ پولیس کو فون کر دیتے ہیں وہ خود ہی پتا چلالے گی۔صائب مشورہ تھا لہذا ون فائیو پر کال کی گئی۔ تھوڑی دیر میں پولیس آگئی۔ اُنہیں صورتحال بتائی گئی تو وہ پوچھنے لگے کہ آپ کے خیال میں کہاں سے فائرنگ ہوئی ہوگی؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے سب کے لبوں پر تالے لگا دیے۔ وہ جو بڑے یقین سے مکان نمبر6 کی بات کر رہے تھے وہ بھی گڑبڑا گئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فائرنگ کی جگہ کوئی اور نکل آئے اوربعد میں بلاوجہ مکان نمبر6 کے مکینوں سے تعلقات خراب ہوجائیں حالانکہ تعلقات تھے ہی کب۔بہرحال پولیس والوں کو اشارتاً بتادیا گیا کہ گلی کی اِس جانب سے فائرنگ کی آواز سنی گئی ہے۔ ایک پولیس والے نے حکم دیا کہ اس طرف والی گلی کے سارے گھروں سے مردوں کو باہر بلا لیا جائے۔ مرد تو پہلے ہی باہر نکلے ہوئے تھے، صرف مکان نمبر6 سے کوئی باہر نہیں آیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں پولیس کو بھی پتا چل گیا شائد گڑبڑ مکان نمبر6 میں ہے۔اتنے میں وائرلیس پر کال چلی، سب نے آواز سنی، کنٹرول روم کو بتایا جارہا تھا کہ دو موٹر سائیکل سوارگرفتار ہوئے ہیں جنہوں نے ہماری گلی میں فائرنگ کی تھی لیکن فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ بات تو کلیئر ہوگئی کہ فائرنگ مکان نمبر6 سے نہیں ہوئی۔ لیکن موقع اچھا تھا اس لیے سب محلے دار چاہتے تھے کہ لگے ہاتھوں یہاں کے مکینوں کی معلومات ہی لے لی جائیں۔ پولیس افسربھی شائد عوام کی رائے بھانپ چکا تھا لہذا اُس نے آگے بڑھ کر مکان پر بیل دی۔ سب محلے والے وہاں جمع ہوچکے تھے تاہم چھ سات دفعہ بیل دینے کے باوجود بھی جب دروازہ نہیں کھلا تو پولیس افسر نے محلے داروں سے پوچھ لیا کہ یہاں کون رہتا ہے؟ بتایا گیا کہ ایک مرد اور ایک عورت۔سوال ہوا کہ چال چلن کیسا ہے؟ محلے والوں نے سچ سچ بتا دیا کہ یہ لوگ کسی سے نہیں ملتے جلتے لہذا اِن کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔پولیس کے لیے اتنی سی بات ہی کافی تھی۔ فوراً حکم ہوا کہ دروازہ پھلانگ کر اندر داخل ہوا جائے۔ دیکھتے ہی دیکھے چار پانچ سپاہی مین گیٹ پھلانگ کر مکان نمبر6 میں داخل ہوگئے اور اندر سے گیٹ کھول دیا۔ہم سب کی متجسس نگاہیں اندر کی طرف جھانکنے لگیں۔ سامنے گیراج نظر آرہا تھا جس میں گاڑی کھڑی تھی۔ایک طرف ایک چھوٹا سا خالی پنجرہ لٹک رہا تھااور دائیں جانب لکڑی کے موٹے سے میز پر یوپی ایس اور بیٹری رکھی تھی۔ پولیس افسر نے اشارہ کیا اور ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر اندر والے لکڑی کے دروازے پر زور سے دستک دی۔کسی کے چلنے کی آواز آئی اور پھر دروازہ کھل گیا۔ سامنے وہی پچاس سالہ شخص کھڑا تھا۔ باہر کی صورتحال دیکھ کر اس کی آنکھوں میں شدید حیرت نمودار ہوئی۔پھر سنبھل کر بولا’جی فرمائیے‘۔پولیس افسر آگے بڑھا’آپکا نام کیا ہے اور کیا کرتے ہیں؟‘۔ سارے محلے دار ہمہ تن گوش ہوگئے، وہ سننے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر یہ پراسرار شخص کام کیا کرتا ہے۔ پچاس سالہ شخص ایک قدم آگے بڑھا اور دروازہ بند کرتے ہوئے اطمینان سے بولا’بات کیا ہے آخر؟‘۔ پولیس افسر قدرے سخت لہجے میں بولا’جو پوچھا ہے وہ بتاؤ‘۔یہ سنتے ہی پچاس سالہ شخص نے ایک گہری سانس لی، پولیس آفیسر کے قریب ہوا اوراُس کے کان میں کچھ کہا۔پتا نہیں اُس نے کیا کہا تھا لیکن بات سنتے ہی پولیس آفیسر کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے پچاس سالہ شخص کو سیلوٹ کیا اور فوری طور پر سپاہیوں کو ساتھ لے کر مکان سے باہر نکل آیا۔ ہم سب حیران تھے کہ یہ سب کیا ہے۔ باہر آتے ہی سب نے پولیس آفیسر کو گھیر لیا کہ پچاس سالہ شخص نے اس کے کان میں کیا کہا تھا۔ پولیس آفیسر نے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا اور دھیرے سے بولا’وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہاں رہتا ہے لیکن نہیں چاہتا کہ کسی سے سلام دعا رکھے۔“ سب چلا اٹھے’کیوں، آخر کیوں؟‘۔ پولیس آفیسرکے لب کپکپائے’وہ کہتا ہے اگر عدالت میں کوئی اُس کا جاننے والا سامنے آگیا تو فیصلہ کرتے وقت اس کا قلم لڑکھڑا نہ جائے‘۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply