سائیں بابا سرقی والے۔۔روبینہ فیصل

سرقی،سرقہ کی مونث اور سری سے ہم وزن کر کے لکھا ہے یہ نہیں کہ ہمیں ” سری” یا ” سر۔کی “لکھنا نہیں آتا۔ اور یہ بھی نہیں کہ ہمیں پتہ نہیں کہ سرقہ میں “ی “نہیں آتی اور اب یہ بھی نہیں کہ آپ” یا سر” میں موجود سپیس کو نہ پڑھ پائیں اور اسے” یاسر “پڑھ لیں۔ ویسے اگر آپ ایسا پڑھ لیں گے تو بالکل ٹھیک پڑھیں گے لیکن تھوڑا جلدی ہو جائے گا کیونکہ یاسر ابھی صرف ہمارے دماغ میں ہے۔ ان پر لکھنا باقی ہے۔پہلے ذرا ہم سرقہ پر بات کر لیں۔۔یاسر کی باری تو آنی ہی آنی ہے اور لکھنا دونوں پر ہے” سرقہ “پر بھی اور” یاسر” پر بھی۔ پہلے ذرا ان دونوں کے لاسٹ نیمز کی بات ہو جائے۔ چونکہ یاسر کے لاسٹ نیم پر کوئی بحث نہیں اس لئے یہ آسان کام پہلے نبٹا لیتے ہیں تو جس یاسر کی آج بات رہی ہے ان کا پورا نام ہے یاسر پیر زادہ۔۔۔ جی آپ یاسر بالکل ٹھیک پڑھ رہے تھے۔ یا اور سر کے درمیان سپیس نہیں نظرآرہی تھی تو بالکل ٹھیک نہیں نظر آرہی تھی۔ تو یہ تو تھی بات یاسر پیرزادہ کی۔۔۔ اب بات کرتے ہیں سرقہ کے لاسٹ نیم کی تو ہمیں دو آپشن نظر آرہی ہیں، ایک تو “نویسی “، دوسری “بازی “اور ان دونوں کا آسان پنجابی میں ترجمعہ کیا جائے تو خادم حسین رضوی کی” پین دی سری” ہی متبادل کے طور پر سامنے آئے گی۔۔ خیر چونکہ ہمیں تحریروں میں ہمیشہ اردو نے ہی سنبھالا ہے اسی لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انہی دو الفاظ” نویسی یا بازی “میں سے ایک کا انتخاب کر لیا جائے،۔۔۔ نویسی یا بازی؟ خادم حسین رضوی کی لغت ِ خادمیہ کو نہ ہی چھیڑا جائے۔
سچ مانئیے! ہمیں یہ ” سرقہ نویسی “لکھتے ہوئے کچھ خاص کراہت محسوس نہیں ہو رہی، لاسٹ نیم سے یو ں لگ رہا ہے جیسے کسی نقشہ نویسی یا گزارش نویسی ٹائپ کاموں کی بات ہو رہی ہے اوران نویسییوں سے کوئی برا خیال بھی ذہن میں نہیں آرہابلکہ پسینے کی بو سی محسوس ہو رہی ہے، اس لئے ہمیں یہ” نویسی ” سرقہ کے لاسٹ نیم کے طور پر اتنی موثر نہیں لگ رہی جتنا کہ لاسٹ نیم کے طور پر” بازی” بازی لیتا نظر آرہا ہے۔۔ اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ” بازی” لفظ کے ساتھ ایک قانون شکنی اور عیاشی کا خیال پھدک کر ذہن میں آجا تا ہے، جیسے کہ جوئے بازی، پتنگ بازی، کبوتر باز،دید بازی، چسکے بازی اورعورت بازی وغیرہ وغیرہ۔۔چلیں ایک مشکل مر حلہ تو حل ہوا کہ” سرقہ “کا لاسٹ نیم “بازی” ہو گا، نویسی نہیں۔۔
تو بات ہو رہی تھی یاسر پیرزادہ اور سرقہ بازی کی۔۔ تو اسی پر بات کرتے ہیں۔؛آج اپریل کی پندرہ ہے اور “ہم سب” (ویب سائٹ)پر یاسر پیرذادہ (عطا الحق قاسمی صاحب کے صاحبزادے ہیں اور سول سروس میں بھی ہیں) کا ایک کالم نظر سے گذرا جس کا ابتدائی جملہ تھا “کالم کی سری۔۔۔۔” اور کالم کے آخر میں جگمگاتے الفاظ میں ایک نوٹ ہے کہ; یہ کالم خاص “ہم سب” کے لئے لکھا گیا ہے۔۔”
ہو سکتا ہے تمہید کچھ لمبی ہو گئی ہے اب بات اس کالم کے مواد پر کرتے ہیں؛محترم پیرزادہ صاحب کالم کے ابتدائیہ میں اپنے ڈرائیور کے سنت نگر کے ایک ایسے عظیم بونگ پائے بنانے والے کے پاس جانے اوران کے لئے سری پائی لانے کے متعلق لکھتے ہیں کہ سنت نگر کی اُس منفرد دکان کے کھلنے کے اوقات صرف صبح ۴ سے ۵ بجے تک ہیں اور پھر وہ بتاتے ہیں کہ دو پلیٹیں کلچوں کے ساتھ” چڑھانے “کے بعد، ان پر ایک خمار طاری ہو گیا ہے اور انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ ایسی حالت میں کالم کیسے لکھا جائے گا۔اور پھر کالم پڑھ کر آپ لوگوں کو اندازہ ہو جائے گا کہ خمار میں لکھے گئے کالم ان لوگوں کو نشہ نہیں چڑھا سکتے جنہوں نے سنت نگر کے اس ید طولی رکھنے والے بابا جی کی دو پلیٹیں سری پائے کلچوں کے ساتھ نہ کھائیں ہوں۔۔۔کاش سنت نگر والے بابا جی نارتھ امریکہ بھی بونگ پائے اور کلچوں کی ہوم ڈیلیوری شروع کر دیں تاکہ انٹر نیٹ کی اس دنیا میں خمارمیں لکھے گئے چربہ کالموں کو ہم بھی مدہوشی سے پڑھ کر،لکھنے والے کی علمیت سے متاثر ہو کر واہ واہ کر کے آگے بڑھ جائیں۔۔۔مگرہم پر دیسیوں کی اتنی اچھی قسمت کہاں۔ ہم نے تو آج صبح اٹھتے ہی کافی کا ایک مگ چڑھایا ہوا تھا اور اپنے دوست ڈاکٹر طاہر قاضی کے بھیجے ہو ئے کچھ نیویارک ٹائمز اور دی نیو یارکر میگزین کے ان کے ” سلیکٹیٹڈ کالمز “(ہم چند دوستوں کی بر سوں کی عادت ہے کچھ معلوماتی یا دلچسپ پڑھیں تو ایک ودسرے سکے ساتھ شئیر کر لیتے ہیں) میں سے ہم اپنی مرضی کے مطابق کچھ چھانٹ کر پڑھ رہے تھے۔۔(یاد رہے کہ اس سے پہلے ہم یاسر صاحب کی” کالم کی سری “پڑھ چکے تھے) تو، آج صبح، انہی میں سے کافی کے مگ کے ساتھ متھیو ھٹسن(Mathew Hutson ( کا 6 اپریل 2020 کا لکھا ہو ا آرٹیکل پڑھنا شروع کیا،ہفتہ بھر پہلے جب ڈاکٹر صاحب نے بھیجا تھا، اگر اسی دن پڑھ لیا ہو تا تو شائد اب تک بھول چکی ہو تی(یاداشت کا اب یہ عالم ہے)۔حسنِ اتفاق کہ” سری والے” کالم کے تھوڑی ہی دیر بعد پڑھاتو سرقہ بازی سے ملاقات کی سعادت نصیب ہو ئی۔
کسی بھی نالج، آئیڈیا، تحریر (مکمل یا کچھ حصہ) اصلی مصنف کو کر یڈٹ دئیے بغیر یا اس کا حوالہ دئیے بغیر اپنے نام سے چھپوانا سرقہ بازی کہلاتا ہے۔۔ یہ سرقہ بازی کی عالمی تعریف ہے۔ ہماری اس بات کی تصدیق کے لئے قارئین،” دی نیو یارکر” کا آرٹیکل
for A Pandemic Pill” “The Questپڑھ لیں۔ مقام ِ تشویش تو یہ ہے کہ ان اردو کالم نگاروں کو پڑھنے والے اور ان کی اندھا دھند تقلید کر نے والے کتنے قارئین ہیں جو انگریزی میں کالم پڑھتے ہونگے، اسی وجہ سے تو میڈ ان چائنا دانشور پیدا کرنے والا، ہمارا تین حصوں میں بٹا ہوا نظام ِ تعلیم نپولین کی زبان میں چیخ چیخ کر کہتا ہے”کہ مجھے بس اچھی انگریزی دے دو میں تمھیں اچھے دانشور دوں گا “۔
گوگل کے اس دور میں سرقہ بازی اتنی آسان نہیں رہ گئی اس لئے اگر یاسر پیرذادہ صاحب اپنے کالم میں، 1981 میں لاس اینجلس کے اسپتال میں مریض کے داخل ہو نے، ایڈز اور سارس کی پوری کہانی سنانے، اور تائیوان کے ڈاکٹر ہُوکی ایڈز پر ریسرچ، اور سارس کہانی کے بارے “دی نیو یارکر “کے کالم نگار کے دو تین پپیرا گراف نقل کر کے اپنے نام کے ساتھ لکھنے کی بجائے، اسے ترجمہ کا نام دے دیتے اور یا اس کالم اورکالم نگار کا حوالہ دے دیتے تو اس سے اردو قاری پر علم کا دروازہ نہ تو بند ہو جا نا تھا اور نہ پیر ذادہ صاحب کی ذاتی علمیت میں کوئی کمی واقع ہو نی تھی۔۔ کہ پاکستانی فضا میں انگریزی کالم پڑھنے والے کا اپنا ہی ایک بلند مقام اور درجہ ہو تا ہے اور لو گ اسے” پڑھا لکھا” مانتے ہیں اور بلا شک و شبہ اسے بھی اتنی ہی عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں جتنی کسی” سچ مچ “کے سکالر یا ریسرچر کو۔۔۔ بہر حال یہ بال تو پیر ذادہ صاحب کی کورٹ میں تھا کہ نقل کو اپنی عقل بنا کے بیچیں یا صرف اپنی “اصل” کو۔۔ لوگوں کا کیا ہے۔۔لوگ تو انگریزی کالم پڑھنے والے کی ہر حال میں عزت کر یں گے۔۔ ۔
تو طے یہ ہوا کہ ہمارے ہاں صرف سائیں بابا لیبارٹری والے(یاسر پیرذادہ صاحب کے کالم کا عنوان) ہی نہیں ہو تے بلکہ یہ سائیں بابے عمومی طور پر ہر جگہ اور ہمارے ادب میں خصوصی طور پر پائے جاتے ہیں۔ن م راشد کی کتاب” ماورا “پر کرشن چندر کا زبردست دیباچہ, سی ڈی لیوس کی شاعری کی کتاب” اے ہوپ فار پوئیٹری” کی شاندار نقل ہو سکتا ہے تو ادب کی دنیا میں اور کیا نہیں ہو سکتا۔ایسے کئی چٹ پٹے چربوں کی مزیدتفصیل پڑھنی ہے تو 14اگست 2012کو ڈان (انگلش) میں چھپنے والا ادریس بختیار کا آرٹیکل ” بر صغیر میں سرقہ بازی ” پڑھ لیں اور اپنا سر جتنا ہو دُھن لیں)کالم اورکالم نگار کا نام پتہ جلدی سے بتا دیا ہے یہ نہ ہوکہ مجھ پر بھی سرقہ بازی کا بہتان لگ جائے)۔ آپ یقینیا ہمارے ساتھ سرقہ کے لاسٹ نیم “بازی “سے متفق ہو گئے ہو نگے کہ یہ “علمی چوریاں “کسی بھی قسم کی “بازی” سے کم نہیں ہیں۔
پیرذادہ صاحب!! یہ سرقہ بازی قوموں کو ذہنی مفلوج بنانے کا آسان اور سستا نسخہ ہے۔۔ لیکن اگر آپ پھر بھی یہی کر نے پر تلے ہو ئے ہیں تو خدارا اپنا خاندانی،سماجی اور سیاسی اثر ورسوخ استعمال کر کے سنت نگر کے بونگ پائے والے بابا جی کودنیا بھر میں ہم جیسے کافی پینے والوں کے لئے انٹرنیشنل ہوم ڈیلیوری کاکنٹریکٹ ہی دلو ا دیں تاکہ ہم بھی خمار میں لکھے گئے کالموں کو پڑھ سکیں، ویسے تو ہم آپ کے تبحر علمی کے پرانے مداح ہیں۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سائیں بابا سرقی والے۔۔روبینہ فیصل

  1. میں روٹی چوری کر کے پیٹ بھرنے والے غریب بچے کے معاملے میں حسن ظن کا ثبوت دے سکتی ہوں ۔۔۔ ایک کم پڑھے لکھے یا کم اثر و رسوخ والے انسان کو مارجن دے سکتی ہوں ۔۔ مگر ہمارے ملک کے یہ اشرافیہ اور ایسی چوریاں ۔۔۔ان کے معاملے میں میرا حسن ظن آگر مجھ میں زندہ ہو جایے تو جان لئجیے گا اسی دن میں مردہ ہوگئی ۔۔۔ معاشرے کے ضمیر کی طرح ۔ آپ فکر نہ کریں افشاں صاحبہ ہم لوگ نقار خانے میں طوطی ہیں ۔۔ کوئی نہیں سنتا ہماری ۔۔۔ لگے رہیں ۔۔۔
    ڈاکٹر طاہر !!اس سب برائی میں سے ایک اچھائی یہ نکلی ہے کہ آپ صاحب ایمان ہوگئے ہیں ۔

Leave a Reply