• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پیام ِ واصف ؒ اور استحکامِ پاکستان۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

پیام ِ واصف ؒ اور استحکامِ پاکستان۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

ولایتٗ جوہر ِکلّیت ہے۔ ایک ولی اللہ کے نام ،کام اور پیغام کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں۔ اِس دَور کے ولی ٔ کامل حضرت واصف علی واصفؒ کی شخصیت کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ آپؒ شاعروں میں شاعر ہیں، ادیبوں میں ایک صاحبِ طرز ادیب ہیں ، دانش کی چوپال میں ثقہ دانشور آپؒ کا پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ اصلاحِ فکر کے باب میں آپؒ کو مصلح ِ پاکستان کہا جاتا ہے، اس موضوع پر ظہیر بدرکاایک ایم فل کا مقالہ تفصیل فراہم کرتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات معاشرے میں نفسیا تی رویوں پر تعلیماتِ واصفؒ کے اثرات کے موضوع پر مقالے لکھ چکے ہیں، نفسیاتی معالج ڈیپریشن کے مریضوں کو حضرتِ واصفؒ کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اُمّید اور مثبت سوچ کے حوالے سے اقوالِ واصفؒ ہمارے نَو بہ نَو موٹیوشنل اسپیکروں کی تقریروں میں جان ڈال دیتے ہیں۔ سالکین ِ طریقت آپؒ کی تحریروں کو’’کشف المحجوب‘‘ کی تشریحِ جدید کے طور پرلیتے ہیں۔’’نہج البلاغہ‘‘ کی نہج ِ بلاغت پر آپؒ کی تحریر و تقریر’’سلونی سلونی‘‘کی بازگشت ہے۔باطن کے رُموز جاننے والی شخصیات نے آپؒ کو قطب ِ ارشاد لکھا۔ بہت سی خانقاہوں میں زیرِ تربیت سالکوں کو سب سے پہلے تصانیف ِ واصفؒ کا مطالعہ کرنے کا کہا جاتا ہے۔ فقر کا پرچار ایک کارِ دشوار ہے ، اِس لیے کہ اِس کے لیے خود فقیر ہونا شرط ہے۔ فقر روایت نہیں‘ درایت ہے، یہ گفتار نہیں‘ کردارہے!! تصوف روحِ دین ہے اور فکر واصفؒ روحِ تصوف ہے۔

فکرِ واصفؒ کو اگر بڑے بڑے موضوعات میں بانٹا جائے تو اِس کے تین بنیادی ستون نظر آتے ہیں۔ اخلاقیات، حُبّ ِ رسولﷺ اور پاکستانیت!! یوں تو برصغیر میں جس صوفی کی بھی آمد ہوئی ‘ اْس نے دراصل پاکستان ہی کے لیے کام کیا۔پاکستان کسی جغرافیائی حدود اربعہ سے بہت پہلے ایک نظریاتی رعنائی فکر کا نام ہے۔ ناموں میں کیا پڑیں، بیضۂ باطن میں بچے کا کوئی نام نہیں ہوتاـــ نام اس وقت تجویز کیا جاتا ہے جب بچہ ظاہر کی دنیا میں جنم لیتا ہے۔اجودھن کو پاک پتن بنانے والے بابا فریدالدین گنج شکر ؒ دراصل پاکستان ہی کا دیباچہ لکھ رہے تھے۔پاک پتن کا سفر پاک وطن پر مکمل ہوتا ہے ۔ دَورِ جدید میں تصوّف کو ریاست سے ہم آہنگ کرنے کی ایک بھرپور شعوری کوشش ہمیں حضرت ِ واصف علی واصفؒ کے ہاں نظر آتی ہے۔

’’پاکستان نور ہے، نور کو زوال نہیں‘‘ یہ لازوال فقرہ ٗ ایک عرصے سے ملّت کے یاس کے بھنور میں ڈولتے ہوئے فکر کے سفینے کو اُمید کے ساحل پر لنگر انداز کر رہا ہے۔ اِس قول کی وضاحت آپؒ نے خود ہی فرمائی ہے، اسی قول کے تسلسل میں کہا گیا ’’ آپﷺ ہی کی بخشی ہوئی نورِ ایمان کی روشنی میں پاکستان بنا اور آپﷺ ہی کے فیض ِ نظر سے اِس کا قیام و دَوام ممکن ہے‘‘ آپؒ کا فرمان ہے’’ اِس ملک کی خدمت اسلام کی خدمت ہے‘‘ مسالک اور فرقوں کی تقسیم اور تفریق تودُور کی بات‘ وحدت ِ ملّت کے تقاضوں کے پیشِ نظر آپؒ طریقت کے سلاسل کو بھی سلسلۂ پاکستان میں ضم کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد ہم سب کی طریقت ’’پاکستانی‘‘ ہے، اور اِس طریقت کے بانی قائدِ اعظمؒ ہیں۔

وحدتِ ملت کے لیے وحدتِ فکر کا ہونا لازم ہے۔ نصابِ تعلیم سے مستقبل کا نصابِ فکر متعین ہوتا ہے۔ نصابِ تعلیم کے یکساں ہونے کی نصیحت آپؒ نے آج سے پینتس برس قبل کر دی تھی۔ مقام ِ شکر ہے کہ آج یکساں تعلیمی نصاب پر بات ہو رہی ہے۔ نصاب مرتب کرنے والوں کو مضامینِ واصفؒ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں ٗ ہر سطح پر شامل کرنے چاہییں۔ فکرِ واصفؒ وحدتِ ملّت کے لیے ایک ایسا فکری سرمایہ ہے جس کا اسلوب جدید ہے اور جوہر قدی!

ایک محفل میں کسی نے سوال کیا کہ اسلام ایک مقدس آفاقی دین ہے اور پاکستان ایک جغرافیائی خطہ ہے، اسلام کی آفاقی تقدیس کو ہم کسی طرح جغرافیائی خطے سے کیسے منسلک کر سکتے ہیں؟ اِس کے جواب میں آپؒ نے ایک نکتہ ارشاد فرمایا جس سے یہ پیراڈاکس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا، آپؒ نے فرمایا کہ جس قطعۂ زمین کو مسجد کے لیے حاصل کر لیا جائے‘ وہ تقدیس کا حامل ہو جاتا ہے ، اس کا احترام شعائر اسلام کے احترام میں داخل ہو جاتا ہے۔ ولی اللہ کی کوئی بات قرآن و حدیث کی سند کے بغیر نہیں ہوتی۔ وہ روحِ دین کی جہت سے خطاب کرتا ہے۔ شریعت کے کلیات میں یہ شامل ہے کہ جس جگہ مسجد بن جائے ‘ وہ جگہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی۔ قائدِاعظمؒ سے پوچھیے کہ پاکستان کس مقصد کے لیے بنایا گیا۔ پاکستان جس مقصد کے لیے بنا ‘ اِس کے سوا اَب یہاں کوئی اور مقصد پنپنے کا نہیں ! پاکستان بر صغیر کے مسلمانوںکا ایک متفقہ اجتہاد ہے، اورکلّیہ یہ ہے کہ جس بات پر ایک مرتبہ اجتہاد ہو چکا ہو‘ اس پر دوبارہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان مشیّتِ خداوندی کا ایک جغرافیائی اظہار ہے۔

یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ اگر’’پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں‘‘ تو پھر بنگلہ دیش کیسے بن گیا؟ بغیر کسی جذباتی لے دے کے ‘ اس فکری اشکال کو فکری انداز میں سمجھیں۔ پاکستان ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ‘‘ کے اصول پر بنا۔ یہ قوم الاقوام ہے، یہاں درجنوں قومیتیں آباد ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی فکر کے زیر سایہ اور قائد اعظم ؒ کی سیادت کے زیر ِ قیادت مسلمانانِ ہند نے اپنے نسلی ، لسانی اورجغرفیائی تمام زمینی عصبیتیں ترک کرتے ہوئے کلمۂٌ طیبّہ کے بینر کے نیچے ایک ملک کی صورت میں خود کو آباد کیا۔ یعنی ہجرت کرنے والوں اور یہاں انہیں قبول کرنے والوں نے اپنی تمام زمینی شناختیں موقوف کرتے ہوئے کلمے کی شناخت کے تحت خود کو ایک نئی شناخت دی۔ سیاسی اور اقتصادی وجوہات سے قطع نظر‘ فکری اعتبار سے تخریب کاری یہ ہوئی کہ ہمارے بنگالی بھائیوں پر پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی بنگالی زبان کی عصبیت غالب آگئی، یہاں تک کہ قائد اعظمؒ کے پہلے دَورۂ مشرقی پاکستان ہی میں انہوں نے بنگالی زبان کا نعرہ لگانا شروع کردیا، اس پر قائدِ اعظمؒ نے سختی سے کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اُرود ، اُرود اور صرف اُردو ہو گی۔اہلِ بنگال کو اُن کی لسانی عصبیت نے کلمے کی وحدت کے تحت اکٹھے ہونے والے گروہ سے فکری طور پر علیحدہ کر دیا۔

پس! پہلے فکر جدا ہوتا ہے‘ پھر جسم!! پاکستان نہیں ٹوٹا ، بلکہ وہ پاکستان سے ٹوٹ گئے ، یعنی وہ پاکستانیت سے ٹوٹ گئے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام نے نظریۂ پاکستان پر ضرب نہیں لگائی بلکہ نظریۂ پاکستان مزیدمستحکم ہو گیاــ پاکستان سے نکلنے کے بعد منطقی طور پرچاہیے یہ تھا کہ مسلم بنگال اور ہندو بنگال باہم ضم ہو جاتے ، ڈھاکہ اور کلکتہ میں بنگالی زبان ، لباس اور ثقافت کی سانجھ صدیوں سے موجود تھی، لیکن ایسا نہیں ہواـــ یعنی نہ تو ہندوستان والوں نے انہیں اپنے ساتھ ضم کیا ، اور نہ بنگلہ دیشیوں نے گوارا کیا کہ وہ واپس متحدہ ہندوستان میں جا شامل ہو جائیں۔غور کریں ٗ آخرکیوں؟؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ درمیان میں کلمہ حائل تھا۔ مسلمان کلمے سے جان نہیں چھڑوا سکتا ، اگر وہ کلمہ بھول بھی جائے تو ہندو اْسے یاد کروا دیتا ہے۔ہندوؤں کو احساس ہے کہ وہ ایک پاکستان سے نمٹنے کے چکر میں دو پاکستان بنا بیٹھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نظریۂ پاکستان دراصل دو قومی نظریہ ہے۔ اِس کی حفاظت اَز حد ضروری ہے۔ تخریب کار سب سے پہلے آپ کی فکر پر حملہ آور ہوتا ہے۔ نظریے کی حفاظت کے لیے شخصیت کا موجود ہو نا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر نظریہ دینے والی شخصیت کو نظریے سے جدا کر دیا جائے تو فکری تخریب کار نظریہ ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ ہمیں نظریۂ پاکستان قائد اعظمؒ نے عطا کیا ہے۔ نظریۂ پاکستان قائدِ اعظمؒ نے ہمیں مختصر اور مستند الفاظ میں سمجھا دیا ’’پاکستان اْسی دن قائم ہو گیا تھا‘جس دن برصغیر میں پہلا ہندو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوا تھا‘‘ نظریۂ پاکستان کی اس سے بہتر تعریف شاید ممکن نہیں۔ نظریۂ پاکستان کی حفاظت مطلوب ہے تو قائد اعظمؒ کے تقدس کی حفاظت کریں۔ قائدِ اعظمؒ کے تقدس پر انگشت نمائی بھی قابلِ تعزیر جرم تصور ہونا چاہیے۔ اپنے مشاہیر کی حفاظت کریں‘ آپ کا شہرہ قائم رہے گا۔ قلندرِ لاہوری علامہ اقبالؒ نے تخیل دیا ، قائدِ اعظم ؒ نے اس تخیل کو تعمیر کے پیکر میں ڈھال کر دکھایا ، تعمیر کے بعد اب استحکام کا دَور ہے۔ عدم استحکام اور انتشار کا دَور اب قصہ ماضی ہوا، ہم بہت سی کٹھن وادیوں سے بخیر و عافیت گزر آئیں ہیں، پیہم مشکلات نے ہمیں کندن بنادیا ہے ۔ قومی استحکام ٗفکری استحکام سے وابستہ ہے۔ فکری استحکام کے لیے قلندِر وقت حضرت واصف علی واصفؒ کا فکری سرمایہ قدم قدم پر ہماری راہنمائی کرتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply