ہن آرام اے؟۔۔۔۔سخاوت حسین

وہ پانچ بھائی تھے-ان کے گھر کا دستو ر تھا کہ ہر دو سال بعد ایک بھائی کو جوائنٹ فیملی سسٹم کا سربراہ بنایا جاتا تھا۔ جس کے فرائض میں گھر کے معاشی نظام سے لے کر معاشرتی نظام تک کو سنبھالنا تھا۔ اس سال تیسرے نمبر کا بھائی سربراہ بنا تھا۔ جب سے وہ سربراہ بنا تھا وہ مسلسل دونوں بڑے بھائیوں پر الزام لگا رہا تھا کہ انہوں نے اپنے دور میں قریبی ہمسایہ کی دکان بشیر جنرل سٹور سے اتنے قرضے لیے ہیں کہ اب ان کے لیے کافی مشکل ہوگیا ہے کہ وہ گھر کا خرچہ چلا سکیں۔اس کے علاوہ ان کے دور میں ان کے خاندان میں لڑائی جھگڑوں کی حالت بھی خاصی تشویشنا ک رہی۔ نفرتیں بھی عروج پر رہیں۔ انہیں یہ بھی علم ہوا کہ بشیر صاحب سے قرض سود پر لیا گیا تھا۔ قرض میں گھر کا راشن سمیت پیسے بھی شامل تھے جو بقول تیسرے بھائی کے دونوں بھائیوں نے سازش کرکے کھا لیے تھے اور گھر کا دیوالیہ نکال  دیا  تھا۔سب بہت خوش تھے کہ تیسرا بھائی شاید اب گھر کا نظام کسی حد تک ٹھیک کردے گا۔ ننھی  ایک کونے  میں بیٹھی ،یہ سوچ کر   خوش تھی کہ شاید وہ پہلے سے زیادہ کھلونے لے سکے گی۔ چھوٹا ندیم اس لیے خوش تھا کہ شاید اب ان کی سربراہی میں وہ جی بھر کر پاپڑ اور چپس کھا سکے گا۔ منجھلا بیٹا راشد اس لیے خوش تھا کہ اسے امید تھی کہ نئے گھر کے سربراہ کے  آنے کے بعد شاید گھر کا سسٹم ایسے ٹھیک ہوگا کہ اسے لیپ ٹاپ آرام سے مل جائے گا۔ غرض ہر کوئی امید کی کشتیوں میں سوار تھا۔
تیسرے بھائی نے ایک دن سب کو جمع کیا اور پُر اثر خطاب میں کہا کہ اب انہیں گھر کے خرچے کم کرنے ہوں گے۔ انہیں تین ٹائم کی بجائے دو ٹائم کا کھانا ملے گا۔ ہر کسی کو بچت کرنی ہوگی تاکہ گھر چل سکے۔سب نے بادل نخواستہ ان کی تقریر سے متاثر ہوکر ان کی رائے  پر لبیک بول دیا ۔
سب کا گماں تھا شاید وہ بشیر صاحب سے کبھی گھر کو چلانے کے لیے قرضہ نہیں لیں گے، جس کے بارے میں وہ خود بھی پہلے سب کو یقین دلا چکے تھے کہ وہ کبھی بھی بڑے بھائیوں کی طرح گھر کا خرچ چلانے کے لیے بشیر صاحب کے آگے نہیں جھکیں گے مگر ایک دن انہوں نے اعلان کیا کہ گھر کو چلانے کے لیے انہیں مجبوراً  بشیر صاحب سے قرضہ لینا ہوگا۔جب کہ ان کے فیصلے پر سب حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ اگلے دن انہوں نے دگنے سود پر بشیر صاحب سے دگنا قرضہ حاصل کیا اور کچھ عرصے میں ان کے لیے جانے والے قرضے ریکارڈ حد سے  بڑھ گئےجب کہ بشیر صاحب بہت خوش تھے کہ جو کل تک کہتا پھرتا تھا کہ وہ ان سے کبھی قرضہ نہیں لے گا وہ آج خود ان کے پاس جاکر قرضے کی دہائی دے رہا تھا۔
قرضہ لینے کے باوجود ان کی پالیسیوں کی وجہ سے اب گھر کے افراد ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ پورے گھر میں دس کمرے ہیں جب کہ صرف دو کمرے میں سب کو اکٹھا کرکے پنکھا چلایا جاتا ہے یوں بجلی کی بھی بچت کی جاتی ہے۔ اب اگلے سال تک وہ کپڑوں کے صرف ایک جوڑے میں  گزارا کریں گے۔وہ پکنک پر باہر نہیں جاسکیں گے۔ منجھلی کاکی نے گھر میں ایک چھوٹا سا سٹور کھول رکھا تھا جہاں سے گھر کے دیگر افراد چیزیں خریدتے تھے اور منجھلی کاکی کو بھی چار پیسے مل جاتے تھے۔ انہوں نے آتے ہی منجھلی کاکی کو کہا کہ آئندہ وہ ہر بکِنے والی چیز پر   بیس فی صد منافع انہیں ادا کریں گے۔ چھوٹے کاکے کے کھلونے پر بھی یہ کہہ کر ٹیکس لگادیے گئے کہ یہ نری عیاشی ہے اب چھوٹے کاکے کا کھلونا کچھ عرصہ پیسے ادا نہ کرنے کی وجہ سے، بِکنے کے لیے منجھلی کاکی کے پاس پہنچ جائے گا۔
جب کہ ننھا احمد جس کے دودھ کا حصہ بھی نصف کردیا گیا ہے، سمیت منجھلا راشد جسے روزانہ سکول جاتے وقت دو روپے دے کر واپسی پر پانچ روپے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ،سوچ رہے ہیں کہ کس کا دور بہتر تھا اور دونوں بڑے بھائی جنہیں گھر کے کونے تک محدود کردیا گیا ہے،کونوں میں بیٹھے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں” ہن آرام اے”۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply