اک چُپ سو دُکھ از آدم شیر۔۔۔تبصرہ :شازیہ مفتی

کتاب کا سرورق دیکھا، نام پڑھا اور کتاب پڑھتے قلم ہاتھ میں رکھتی ہوں، املا کی اغلاط اور محاورات وغیرہ عادتاً درست کرتی جاتی ہوں، یہاں بھی ”اک چپ سو سُکھ“ لکھ دیا ۔
فہرست میں اٹھارہ افسانے شامل تھے اور چونکہ صاحب کتاب سے دو افسانے حلقہ ارباب ذوق میں سننے کا شرف حاصل ہے، اس لیے ناموں سے ہی اندازہ ہوگیا کہ کیا بیتے گی ناچیز پر پڑھنے کے بعد، چشمے کے ساتھ دل بھی تھام لیا۔ کتاب پڑھنی شروع کی اور پھر تو جیسے طلسم ہزار داستان کھل گئے۔ ایسا سحر طاری ہوا کہ گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک چلتی رہیں۔ رات بھیگتی گئی اور ایک کے بعد ایک کردار مجسم ہوکر اماوس شب میں ٹمٹماتے تاروں تلے اپنی چُپ اور اپنے دکھ سناتے گئے۔

کہیں بڈاوے کے سر والا چھوٹا بچہ آدھی رات کا سکوت اپنی بے بس چیخوں سے پاش پاش کررہا تھا، کبھی خون کی چھپڑی سے چھینٹے اڑتے اور چاروں طرف لال غبار چھاجاتا۔ پھر اچانک بانو آجاتی اپنے فلسفے بگھارتی اور اپنی خودغرضی کو عقل کے جامے پہناتی۔
پھر ایک بے نام اپنے رنگ اور برش لے کر چاروں طرف علامتیں بکھیر ڈالتا اور خود بھی انہی  کا حصہ بن جاتا۔

کتاب کے مصنف:آدم شیر

کہیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے کا ظالموں کے ہاتھوں نچا کھسا لاشہ تھا اور چپ کے دکھ کی دہائی اور کہیں دس سالہ بچے کے آنسو جو بے سبب کمینے لوگوں کی کمینگی کا شکار ہوا۔

پھر چمکتی آنکھوں والے رفیق نے آکر دل کو ڈھارس دی۔ انسان نماﺅں کو راستہ دکھانے والے بھی ہیں اسی دنیا میں ہمارے آس پاس ہی ۔۔ لیکن وہیں اندھیرے کی اوٹ سے خرادیا اور اس کی بیوی ہاتھوں پر خوابوں کی ننھّی سی میت لیے اور آنکھوں میں سوال لیے نکل آئے ،پوچھتے ،”کب تک خواب بے حسی کی نظر ہوکر ٹوٹتے بکھرتے جائیں گے؟ “

چٹھی رساں دونوں بانہوں میں کبڑے بچے سمیٹے چند پیسوں کا مطالبہ کررہا تھا۔ کوئی ساحل سمندر پر گھروندوں کے خیالی پلاﺅ میں گم تھا ۔اور پھر ٹی ہاوس کے دروازے کی درز سے آتی ٹھنڈی ہوا میں سویا بچہ ، آدھے ننگے دھڑ کے ساتھ کوڑا چن کر کھاتا بچہ، شرابی کے سامنے نہ ناچنے والی ماں کے پیٹ میں دل پر گولی کھانے والا بچہ ، سات سالہ بربریت کا شکار بنتِ حوا اور بے شمار تابوت قطار در قطار۔۔۔گندی گالیاں بکتی بلو ،ظفر کی محبوبائیں اور گزری بے رس زندگی ، وہ بابو جو بھکاری بن کر کہانی بن گیا ، صحرا میں تل تل مرتا شمس ، نسرین اور ناصر جو شاید ہر تیسرے بند دروازے کے پیچھے رہنے والے باسی ہیں، اور وہ سیانا جو خانوں میں بٹ کر دیوانہ ہوگیا۔ ایم اے پاس ڈاکو ،کرپٹ صلاح الدین اور جانو ملنگ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ظلمت اور تاریکی اور چُپ اور پھر اس چپ کا دکھ۔ بے بسی اور ایمان کا کمزور ترین درجہ۔ ۔۔ یہ سب چاروں طرف بکھری عریاں حقیقتیں جو رنگین شیشوں سے شاید دِکھتی نہیں اور جو دیکھنے والے سوچنے والے ہیں وہ آدم شیر کے جیسے اسی دکھ میں بول نہیں پاتے تو لکھ ڈالتے ہیں۔
یہ افسانے نہیں تازیانے ہیں جو حساس دلوں پر گہرا اثر چھوڑ جائیں گے۔
اسی طرح سوچتے رہیے، اور لکھتے رہیے، آدم شیر۔
اور ہاں سرورق پراپنی جہالت کو علمیت سمجھ کر درست کیا ”سکھ “ دوبارہ ”دُکھ “ کردیا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply