جذباتی بندوق کا گھوڑا۔۔تنویر سجیل

بندوق کا پاس ہونا تحفظ کا احساس جگاتا ہے کہ آپ کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی مدد سے خطرے کی صورت میں آپ اپنی جان کی حفاظت با آسانی کر سکتے ہیں چاہے آپ کی جسمانی طاقت اتنی زیادہ طاقتور نہ ہو اور خطرہ چاہے جتنا بڑا ہو۔۔مگر ہتھیار کی موجودگی آپ کو نڈر اور بہادر بنا دیتی ہے کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ بنا طاقت لگائے آپ نے بندوق کا ٹریگر دبانا ہے اور بندوق نے خود کار نظام کے تحت میگزین سے گولی اٹھانی ہے، چیمبر میں لانی ہے اور ڈز کی آواز سے بندوق کی نالی سے نکلتی ہوئی سامنے کھڑے دشمن کا سینہ چیرتی ہوئی اس کو ڈھیر کر دے گی اور وہ خطرہ جو دشمن کی موجودگی کی وجہ سے آپ کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا جو آپ کی رگوں کو تناؤ میں جکڑے ہوئے تھا صرف ایک ٹریگر دبانے سے رفو چکر ہو گیا اور آپ پُرسکون ذہنی حالت میں آ گئے ہیں۔

یہ سارا عمل ایک میکانکی صورت رکھتا ہے جس میں آپ کا کردار صرف اتنا ہوتا ہے کہ اپنی عقل پر بھروسہ کرتے ہوئے، حالات کا لوجیکل جائزہ لیتے ہوئے انگلی کو زحمت دینی ہے اور ٹریگر دبا دینا ہے اور اس کے بعد کا کام آٹومیٹکلی انجام پانا ہے بندوق میں گولی چلانے اور دشمن کو ختم کرنے کے لیے مرکزی اہمیت ٹریگر کی ہی ہے اگر ٹریگر نہ ہو تو آپ جتنی مرضی قوت، زور اور دھینگا مشتی کر لیں مگر بندوق سے گولی کبھی منہ دکھائی نہیں کرائے گی اور تمام آٹومیٹک میکانکی عمل دھرے کا دھرا رہ جائے گا اور اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی بندوق کتنی جدت والی ہے یا دنیا کی بہترین کمپنی کی بنی ہوئی ہے اگر اس کا ٹریگر ہی بروقت کام نہ کرے، اس میں کوئی تکنیکی خرابی آجائے تو ایسی بندوق محض ایک کھلونا تو ہو سکتی ہے مگر اس سے آپ اپنے دشمن پر وار کر کے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

یوں سمجھ لیں بندوق کی تمام اوقات صرف ایک چھوٹے سے پُرزے کی محتاج ہے کہ اگر وہ درست کام کرے یا درست وقت پر کام کرے یا درست سمت میں کام کرے یا درست نشانے کا نشانہ لے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی بندوق ان تمام خوبیوں سے بھرپور ہے جن کے بھروسے پر آپ اس کو اٹھائے پھرتے ہیں۔

ٹریگر کی یہ خوبی کہ اس کو دبانے سے ہی گولی چلے گی اپنی جگہ پر ایک بہت ہی واضح وضاحت ہے اس جذباتی کھیل کی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی اپنا بدصورت رویہ دکھاتا ہے، ایسا کوئی عمل کرتا ہے یا کوئی ایسی بات کہتا ہے تو آپ کو ڈز کر کے گولی لگتی ہے اور آپ صرف کسی کی ایک بات، رویے یا عمل سے ہی اپنے دل و جگر کو چھلنی کر لیتے ہیں اور جذباتی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ نفسیاتی موت مرنے لگ جاتے ہیں۔

تو ایسا کیوں ہوتا ہے کو سمجھنے کے لیے ہم کو علم نفسیات کے ساتھ ساتھ، مائنڈ ورکنگ ڈیزائن، ایموشنل آٹمسفر، پرسنل کنٹرول کی اہلیت اور ان کے درمیان پائی جانے والی میکانکی تعلق داری کو سمجھنا ہو گا کہ کہ کیسے کسی کی بات، رویے یا عمل کو ہم اپنا ایموشنل ٹریگر بنا لیتے ہیں جو ان کی بات، رویے اور عمل سے دبتا ہے اور پھرسائیکالو جیکل فائرنگ شروع ہوتی ہے مگر یہ فائرنگ کسی باہر کے دشمن کو زخمی یا ختم نہیں کرتی بلکہ اس کا رخ ہماری اپنی ہی ذات کی جانب ہوتا ہے اور صاف ظاہر ہے ذہنی اور نفسیاتی نقصان بھی ہمارا ہی ہوتا ہے۔

علم نفسیات کی مدد سے یہ بتانا آسان ہے کہ ہماری اپنی ذات کی محرومیاں، تشنگیاں ہم کو جذباتی طور پر غیر متوازن شخصیت کا فرد بنانے میں کامیاب رہتی ہیں اور جب ہماری شخصیت کے خدو خال ایک بے ڈھنگے پن کا شکار ہوں گے تو بہت سے ایموشنل بٹن ہماری ذات کے اندر بن جائیں گے یہ ایموشنل بٹن ہی دراصل ہماری جذباتی بندوق کے ٹریگر ہوتے ہیں جن کو دوسروں اور خاص کر قریبی لوگوں کی بات، رویے اور عمل کا ہلکا سا دباؤ چاہیے اور پھر دھڑادھڑ فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔

چونکہ یہ فائرنگ جذباتی ہوتی ہے تو اس وقت ہمارے مائنڈ کا ورکنگ سٹائل بھی وقوفی قوت کو ترک کر کے جذباتی قوت کا استعمال زیادہ کرتا ہے اور اس جذباتی قوت کی وجہ سے ہم فہم، ادراک، سوچ سمجھ اور درست فیصلے کی قابلیت کو کھو دیتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ہم بے وقوف بن جاتے ہیں اور ہم تب تک ایسے ہی بے وقوف رہتے ہیں جب تک ہم اس آٹومیٹک سسٹم کے تحت اپنا جذباتی ردعمل پیش کرتے رہتے ہیں اور اپنے ایموشنل بٹنز کو مزید دوسروں کی پہنچ میں دیتے رہتے ہیں مگر جیسے ہی ہم اس سارے میکانکی انداز کو سمجھ لیتے ہیں اور ان پر وقوفی عمل حقیقت پسندی کے ساتھ کرتے ہیں تو پھر ہمارے ایموشن بٹنز بھی اس خودکار نظام کا حصہ نہیں رہتے اور وہ جو جذباتی بھونچال اس نظام کی وجہ سے آتا ہے تو اس سے محفوظ رہ کر ذہنی و نفسیاتی موت سے بچ جاتے ہیں۔

ٹریگرز کا بننا کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر ان ٹریگرز کی جذباتی قوت کا یرغمال بنے رہنا ایک بڑی اہم اور مسئلے والی بات ہے کیونکہ بطور انسان جب آپ کو تعلقات کی دنیا کو بھی چلانا ہوتا ہے اور نباہ کرنا ہوتا ہے تو دل و دماغ کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ آپ کے ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ٹریگرز کے بوجھ کو برداشت کر کے آپ کو خوش اور پرسکون رکھ سکے۔

ان ٹریگرز سے نپٹنے کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ اپنے ان ٹریگرز کی پہچان کی جائے، ان کو تلاش کیا جائے اور پھر اپنی جذباتی تندرستی کی بھی تلاشی لی جائے کہ یہ ٹریگرز کیسے اور کیوں ڈز ڈز شروع کر دیتے ہیں اگر آپ اپنی ذات کو صحیح مفہوم نہیں دے پا رہے اور یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ پہلا محفوظ دائرہ آپ کو اپنی ذات کے گرد کھینچنا ہے جو کہ آپ کی ذات کی حد اور دوسروں کی مداخلت کی سر حد کا تعین کرتا ہو اور آپ خود کو اس دائرے میں محفوظ محسوس کرتے ہوں تب تک آپ جذباتی بندوق کے ٹریگر ہی بنے رہیں گے۔

ان ٹریگرز سے دو ہاتھ کرنے کا دوسرا قدم اپنی جذباتی اہلیت پر کام کرنا ہے جس میں آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ آپ کے جذبات آپ کے ہاتھ میں ہی ہیں اور آپ جذبات کے ہاتھ میں نہیں ہیں جب آپ اپنا جذباتی کنٹرول اپنے قابو میں کر لیتے ہیں تو دنیا کی کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو آپ کو جذباتی یرغمال کر کے دکھ درد سے آپکی جھولی بھرتی رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹریگرز کے اس کھیل میں چمپئن انسان خودہے اس کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی بھی جذباتی کنٹرول اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply