لائحہ عمل کہاں ہے؟/حسان عالمگیر عباسی

تبدیلی تبدیلی کی رَٹ تو سب لگاتے ہیں لیکن تبدیلی کے لیے لائحہ عمل کوئی نہیں دے رہا۔ یہ سیاست سے بالاتر بات ہو رہی ہے۔ سیاسی و مذہبی قیادت اور ان کی جماعتیں اور ان کے منشور بہت چھوٹی، جھوٹی، نامعقول اور ناقابلِ عمل چیزیں ہیں۔ یہ ہماری اپنی بات ہو رہی ہے۔ جڑوں میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ کوئی عالی شان کوٹھڑی سے آ کر کیوں مسائل حل کرے گا؟

معاشرہ مکمل نفی میں جا رہا ہے۔ منفی پہلوؤں کی شدید بہتات ہے۔ یہاں تک کہی گئی سیاہ لکیریں بھی منفی اثرات سے بھری ہیں کیونکہ یہ مایوسیوں سے بھرے الفاظ ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ مایوسی کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ سامنے کھائی نظر آرہی ہو تو کسی سے جھوٹ کیسے بولا جائے کہ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے؟

لیکن مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ حل صرف یہ ہے کہ تسلط نہ جمایا جائے۔ کوئی کسی کے نظریے یا شبدوں کا غلام نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنی حیثیت، مزاج، قوانین، سیاسی وابستگی، اور سیاسی و سماجی نظریات کا غلام ہے۔ کوئی اوپر سے کچھ لے کے نہیں آتا اور معاشرے ہی بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ ایسی کشمکش میں یہ کتنا غیر منطقی اور فطرت سے کوسوں دور خیال ہے کہ کوئی کسے تبدیلی کی راہ پہ ڈالے گا یا راہ ہدایت بتلائے گا۔

معاشرے میں مایوسیوں کا علاج کیا ہے؟

کھیل، تماشے، حرکت، مصروفیت، موسیقی، اور جمالیات کو محضوظ کرنے والے نظارے اور سرگرمیاں! ایمان سے بتائیں یہاں ایسا کچھ ہے؟

یہاں مسلکی لڑائی، سیاسی کشمکش، جبر، زبردستی، مذہبی بلیک میلنگ، خوامخواہ کی توقعات وابستہ کرلینا اور فرقہ واریت سے ہٹ کر کچھ اچھا بھی نظر آتا ہے؟

اس کا حل صرف یہ ہے کہ سپیس دیں۔ پروفیشنلی بڑھنے کی کوشش کریں۔ معاشرے میں ڈی موٹیویشن کیوں ہے؟ آپ کا سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا مسلسل ڈی موٹیویٹ کر رہا ہے۔ ٹی وی سیریلز میں ایسا کچھ نہیں ہے جو اندر ہی اندر کچھ کر گزرنے کا سبق دے سکے۔ ہیجانی کیفیات میں ڈال دیتا ہے۔ گانے، نغمے، کوٹیشنز سب ردی ہے۔

حل صرف یہ ہے کہ اپنے آگے سے کھانا اٹھائیں، دوسرے کو اپنی طرح کا بننے پہ مجبور نہ کریں اور کسی کے اخلاص کو اس کی مجبوری مت سمجھیں۔ اور خدارا اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدوں کو اپنے تک محدود رکھیں۔ مسلکی اختلافات کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی۔ رجحانات بدل گئے ہیں آپ بھی رحم کھائیں۔ کسی کو اپنا غلام مت سمجھیں۔ اس دور میں کسی کو دے سکتے ہیں تو صرف امید، حوصلہ، پیار دیں لیکن ابھی پڑھ کر آرہا ہوں کہ کسی بابے نے کہا ہے کہ انسان کے مطالبات میں سب سے بےوقوفانہ مطالبہ یہ ہے کہ وہ کہے کہ اس سے پیار کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر یہ سیاسی و معاشرتی و مذہبی دکانداروں سے بچ کر رہیں۔ یہ الو کے پٹھے ‘جیو اور جینے دو’ جیسی مقدس سرخیوں سے کوسوں دور ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ موت کا ذائقہ تو سب چکھتے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو زندگی کا ذائقہ بھی چکھ لے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply