• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان کے طلبا تعلیم کے حق سے کمتر کیا مانگیں؟۔۔۔۔۔ظریف رند

بلوچستان کے طلبا تعلیم کے حق سے کمتر کیا مانگیں؟۔۔۔۔۔ظریف رند

بلوچ طلبا حسبِ معمول اپنے اپنے کیمپسز میں علم کے زیور سے آراستہ ہونے کی بجائے سڑکوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں اور محکمہ تعلیم و ذمہ دار دفاتر پر دستک دے دے کر مایوسی کے بعد پچھلے ایک ہفتے سے کوئٹہ پریس کلب کے باہر علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں تاکہ حکمرانوں کے پرآسائش ایوانوں تک اپنی صدا پہنچا سکیں مگر، ہائے رے بلوچستان واسیوں کی تیسرے درجے کی شہریت! کہ ان کی فریاد سننے والا بھی کوئی نہیں۔ مذکورہ بالا مظاہرین میڈیکل کالجز کے وہ سٹوڈنٹس ہیں جو اس سال کے ابتدائی مہینے میں داخلہ ٹیسٹ کلیئر کر چکے ہیں اور اپنی کلاسز کے باقاعدہ آغاز کے منتظر در بہ در ٹھوکر کھا رہے ہیں۔

عام انتخابات 2013 کے بعد بننے والی حکومت بلوچستان نے تین نئے میڈیکل کالجز کی منظوری دی جس میں مکران میڈیکل کالج تربت، جھالاوان میڈیکل کالج خضدار اور لورالائی میڈیکل کالج شامل ہیں جن کی باقاعدہ کلاسز کا آغاز پچھلے سال سے کر دیا گیا ہے۔ سال 2019 کے batch کے لیے فروری 2019 کو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ کی زیرنگرانی داخلہ ٹیسٹ منعقد کرائے گئے جس میں بڑی تعداد میں میڈیکل کے خواہش مند سٹوڈنٹس نے ٹیسٹ دیے اور اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

محکمہ تعلیم کی جانب سے کئی تاخیری حربے استعمال کرنے باوجود کامیاب طلبا منتظر رہے کہ ان کی کلاسز شروع کی جائیں گی مگر تاحال فائنل میرٹ لسٹ کا اجرا بھی نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ اب اگلے Batch کے لیے داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان بھی کیا جا چکا مگر یہ batch ابھی تک اپنی کلاسز کے آغاز کے انتظار میں حیران و پریشان بیٹھا ہے۔ میرٹ لسٹ کے عدم اجرا کا یہ عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ تین نئے میڈیکل کالجز ابھی تک پی ایم ڈی سی سے رجسٹرڈ نہیں ہیں، اس لیے ان میں تعلیمی سلسلے کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔

نئے میڈیکل کالجز کے کامیاب امیدواروں کا اس ردعمل میں کہنا ہے کہ اگر یہ ادارے رجسٹرڈ نہیں تھے تو ان میں پچھلے سال سے کلاسز کا آغاز کیوں کیا گیا اور اس سال نئے طلبا کو انٹری ٹیسٹ کا دھوکہ کیوں کر دیا گیا۔ اب جب میڈیکل کالجز پچھلے سال سے فنکشنل کیے جا چکے ہیں تو ان میں باقاعدہ ریگولر کلاسز شروع کی جائیں اور طلبا کا وقت ضائع کیے بغیر ان کے تعلیمی سال کا آغاز یقینی بنایا جائے۔ انھی مطالبات کے پیشِ نظر سٹوڈنٹس نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر پچھلے ایک ہفتے سے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے اور بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز سمیت محکمہ تعلیم کے ناروا سلوک کو بے نقاب کرتے ہوئے حکومت سے داد رسی کی اپیل کر رہے ہیں۔ مگر تاحال حکومت کی جانب سے کوئی خاطرخواہ رسپانس دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

بدقسمتی سے بلوچستان کے سٹوڈنٹس کو تعلیم جیسا بنیادی حق بھی آسانی سے میّسر نہیں۔ پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک قدم بہ قدم لڑ لڑ کر یہ حق چھیننا پڑتا ہے۔ کہیں بنیادی تعلیمی مراکز سرے سے وجود نہیں رکھتے تو کہیں ان مراکز میں تعلیم دینے والے اساتذہ دستیاب نہیں۔ کہیں تعلیمی نشستوں پر ڈاکے پڑ رہے ہیں تو کہیں بدانتظامی و بے ضابطگی کے حربے استعمال کر کے بنیادی حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ ہر نئے سال پر نئے چیلنجز اور دیواریں طلبا کے آگے کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ کبھی سکالرشپس ختم کی جاتی ہیں تو کبھی فیسوں میں بے دریغ اضافے کر کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ جب کہ ان بنیادی مسائل پر زبان درازی کرنے پر سٹوڈنٹس کو دہشت گردی کے الزامات میں پابند سلاسل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔

پچھلے سال بولان میڈیکل کالج کے منعقد کردہ انٹری ٹیسٹ میں کھلے عام بے ضابطگی کے شواہد سامنے آئے جس کے خلاف طلبا نے ایک مہینے سے زائد تک کوئٹہ پریس کلب کے باہر کیمپ لگا کر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پولیس سے ڈنڈے کھائے اور عدالتوں میں چکر کاٹے مگر کہیں سے بھی انصاف نہیں ملا۔ اب کی بار ٹیسٹ کی بے ضابطگیوں اور اقربا پروری کو نظرانداز کر کے کامیاب امیدواران اپنی کلاسز کے آغاز کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر پھر بھی حسبِ روایت تاخیری حربے استعمال کر کے طلبا کو مایوسی کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے۔ آخر اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ بلوچستان کے بچے تعلیم کے مواقع پانے کے لیے بھی سراپا احتجاج ہیں مگر حکمران اس بنیادی حق کو بھی تسلیم کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کرتے۔

سوشل میڈیا پر چلنے والی موجودہ حکومت بلوچستان تمام این جی اوٹک ایشوز پر پھرتی دکھاتے ہوئے نظر آتی ہے مگر مجال ہے کہ ایسے حقیقی مسائل پر کوئی نوٹس لے۔ اپوزیشن کی بھی حالت زار کچھ بہتر نہیں ہے، وہ بھی پارلیمان میں کھڑے ہو کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے لیے کلپ ہی ریکارڈ کرواتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے گلی کوچے اور سڑکیں ہزاروں لاکھوں مسائل کی منظرکشی کرتے ہیں اور بلوچستان کے باسی سڑکوں پر پڑے دُہائیاں دے رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلوچستان کی غم خواری کی دعوے دار جماعتیں مستقبل کے ان معماروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مسائل حل کراتیں۔ مگر ایسی نیّت انہیں کہاں؟ آخر، ہم تعلیم کے حق سے کمتر کیا مانگیں؟۔

حکومت کی جانب سے کیمپسز میں سیاسی سرگرمیوں پر باقاعدہ پابندی عائد کر کے طلبا کے سیاسی شعور پر قدغن لگائی جا چکی ہے۔ مگر اس نظام میں بے شمار غفلتوں کے نتیجے میں طلبا کو مجبوراً سیاسی راہ اختیار کرنا پڑتی ہے۔ طلبا کے لیے تعلیمی اداروں میں تنظیم سازی اور سیاسی ایکٹیوٹیز پر تو پابندی عائد کی جا چکی ہے مگر ان احتجاجی کیمپوں میں بیٹھے یہ نوجوان تیز ترین سیاسی شعور پا لیں گے۔ جتنا انہیں مایوس کرنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کیے جائیں گے، یہ اتنا ہی زیادہ پختہ اور فولادی قوت بنیں گے۔ مستقبل کے طبعی مسیحاؤں کے لیے ناگزیر بنا دیا گیا ہے کہ وہ سماجی مسیحائی کا درس سڑکوں سے لے آئیں۔ سیاسی سرکلز سے اپنے شعور کی مضبوط آبیاری کریں کیونکہ آج کی نوجوان نسل کو تعلیمی سفر میں ایک نہیں متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب بنیادی حقوق غصب ہوں تو آخر اور کون سے طریقہ کار بچتے ہیں، سوائے سیاسی مزاحمت کے۔ اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد طلبا کا جمہوری حق ہے اور اس جمہوری حق پر ڈاکہ زن حکمرانوں کی ناجائز پابندیوں کو طلبا ماننے سے منکر ہیں۔ عہد کا تقاضا ہے کہ طلبا اپنے جمہوری حقوق کی خاطر کیمپسز میں سٹوڈنٹس یونین کی بحالی اور تنظیم سازی کی آزادی کا بھرپور مطالبہ پیش کریں تاکہ یونین کی بحالی کی صورت میں ایسی بے ضابطگیوں و نا انصافیوں کا راستہ روکا جا سکے۔ طلبا اتحاد اور منظم فکری جدوجہد ہی ان تمام جنجالوں سے نجات کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ آئیے، مل کر اپنے حقوق کی حصول کا آخری معرکہ لڑیں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply