کچھ تاریخ کے پنّوں سے۔۔۔علی عمر عمیر

ماں جی بتا رہی تھیں کہ بھٹو صاحب جب جیل میں تھے، تب بچے نعرے لگایا کرتے تھے۔۔۔”مُلّا ڈَھٹھا(گرا) تیل وچ۔۔۔ بھٹو مریا جیل وچ”
اگلا نعرہ جو انہوں نے بتایا اس کی خالی جگہ خود پُر کیجیے گا۔
“ملّا ڈھٹھا ہَٹّی وچ۔۔۔۔ بھٹو مریا۔۔۔۔۔۔ وچ”

تب پیپلز پارٹی والوں کو گلی محلوں میں “پیپلے” کہا جاتا تھا۔۔
بچوں نے گالیاں دینا بند کر دی تھیں(سدھر گئے تھے؟؟)۔۔ بس کھیل کود کے دوران ایک دوسرے سے ہتھوں ہتھ ہو جاتے تھے۔۔ جو مار رہا ہوتا تھا، وہ مار کھانے والے کو ہر تھپڑ کے ساتھ ایک عدد لفظ “پیپلا” بھی عنائیت کرتا تھا اور اس لفظ ” پیپلے” کا درد تھپڑ سے زیادہ ہوتا تھا۔
گویا “پیپلے” ایک گالی بن چکی تھی۔

اس زمانے میں پنچائت کا نظام بڑا پختہ تھا۔ چھوٹی موٹی لڑائیوں کا حساب کتاب چھوٹی موٹی پنچائت میں چکا دیا جاتا تھا۔ عموماً کسی مدعا علیہ سے مرغی لے کر مدعی کو ہرجانے کے طور پر دے دی جاتی۔ مثلاً کسی نے چبّل، کھوتا، نامراد جیسی گالی دی ہوتی اور مدعی پنچائت میں بات لے جاتا تو اسے مدعا علیہ یعنی گالی دینے والے سے چھوٹی موٹی “دیسی مرغی” مل جاتی تھی۔ اسی طرح بے غیرت ، نمرود، یہودی جیسی گالی پر مصری یا اصیل مرغی دینی پڑتی تھی۔ جبکہ کسی نے ماں بہن کی گالی دینی ہوتی تھی تو وہ کسی اچھے خاصے “گَرّے کُکڑ” کا انتظام پہلے سے کر کے رکھتا تھا۔ بلکہ یہ صورتحال ہوتی تھی کہ لوگ اپنی محدود آمدنیوں میں سے ایک حصہ “گالی فنڈ” کے طور پر محفوظ رکھتے تھے۔ جس کے پاس مرغی نہ ہوتی، وہ تازہ کھجوروں کے بوہارے، آم کی پیٹی، کپاس کی بوری یا گنوں کے گٹھے سے محروم ہوتا تھا۔ اگر ان میں سے بھی کچھ نہ ہو تو گندم یا جو کے دانے  سات آٹھ سیر۔ اگر وہ بھی نہ ہوئے تو آٹا آخری کیل ہوتا تھا۔۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ پنچائت کے رنگ بدل گئے۔۔

بھٹو دور کے بعد اگر کسی نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا اور “متھپوڑ” شخص نے پنچائت میں شکایت لگادی تو تھپڑ مارنے والے کو بھری پنچائت میں مجبور کیا جاتا کہ وہ خود کو “پیپلا” کہے۔۔ اور یوں تھپڑ کھانے والے کا انصاف ہو جاتا تھا۔۔ خود کو پیپلا کہنے والا کئی کئی دن منہ چھپائے پھرتا رہتا۔ بچے شوخیاں کرتے، کھجیوں کے بوہارے زمین پر مار مار کر دھول اڑاتے، ہر  راہ  گزرتے کو اونچی اونچی آواز میں پیپلا پیپلا کہتے اور نعرے لگایا کرتے۔۔۔”ڈنگر بُھردا ویندا ہے۔۔۔۔ پیپلا ٹُردا ویندا ہے”
“پیپلا بھئی پیپلا۔۔۔ دئی دی مئی پیپلا”

Advertisements
julia rana solicitors london

بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلوں کی تعداد بھی کم ہو گئی اور ان کی  بے حرمتی بھی۔۔ بچوں کی اُس کے بعد والی نسل کو گلیوں میں گِلی ڈنڈا، ماٹے کنچے اور چھوڈے، جبکہ گھروں میں کوکڑا چھپاکی، وانجو، لکّن چھپی، انڈا پٹاس، ٹپ ٹاپ، گجرا اور باندر کِلّا کھیلتے ہوئے “زندہ ہے بھٹو۔۔۔ زندہ ہے” کے نعرے لگاتے ہوئے بھی سنا گیا۔۔ اُس وقت کے بچوں کے بچے بھی اِس وقت بچے دار ہیں۔۔ یہ 2019 ہے۔۔

Facebook Comments

علی عمر عمیر
اردو شاعر، نثر نگار، تجزیہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply