سفرنامہ روس /اوکھے پینڈے(حصّہ ہشتم)۔۔سیّد مہدی بخاری

بادل کے اک ٹکرے نے سورج کو ڈھانپ لیا تھا۔ میرے سامنے کھڑے دیو ہیکل سٹیل کے ڈھانچے سے تانبا اتر چکا تھا۔ جہاں میں کھڑا تھا میرے بالکل ساتھ “ٹرمینل A1” کا سائن بورڈ لگا تھا۔ سورج گہنایا گیا تو تیز ہوا کے جھکڑ چلنے لگے۔ ماسکو میں شام اترنے لگی۔ گھڑی رات کے ساڑھے دس بجا رہی تھی۔ روس میں یہ موسم گرما ہے۔ سفید راتیں ہیں۔ سورج محض جھپکی لینے یا آرام کرنے کو ڈھائی گھنٹوں کے لئے افق پر ڈوبتا ہے۔ آسمان پھر بھی روشن رہتا ہے۔ افق پر سرخی باقی رہتی ہے۔اہلیان روس گرما کی راتوں کو سفید راتیں پکارتے ہیں۔
ٹیکسی والا مسافر کو دیکھ کر آگے بڑھا۔ یہ درمیانی عمر کا شخص تھا۔ اس نے ہاتھ آگے باندھتے ہوئے انتہائی مودبانہ انداز میں کہا تھا “ویلکم تو ماسکوا”۔ میں نے مسکرا کے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اپنا موبائل نکالا۔ ماسکو میں اپنے ہوسٹل کا ایڈریس نکال کر اس کے سامنے سکرین کرتے پوچھا “کتنے پیسے ؟ “۔ اس نے کچھ دیر ایڈریس پر توجہ دی۔ آنکھیں گھمائیں، گہری سوچ میں پڑا، سر کھجایا اور فیصلہ کر کے بولا “1800 روبلز”۔
“نہیں، یہ بہت زیادہ ہیں۔”۔ میں نے موبائل واپس تھاما۔ ینڈیکس ٹیکسی کی ایپلیکیشن کھولی۔ اس میں ہوٹل کا پتہ درج کیا۔ نیچے قیمت آ رہی تھی “1190 روبلز”۔ ہمارے ہاں جیسے ابر و کریم کی ٹیکسی سروسز ہیں بالکل ویسے ہی روس میں ینڈیکس ٹیکسی کی سروس ہے۔ سامنے کھڑا شخص سمجھ چکا تھا کہ اس کا واسطہ ایسے شخص سے پڑا ہے جو یہاں کا نظام جانتا ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر میرے سفری بیگ کے ہینڈل کو تھاما۔
“اوکے۔ 1500 روبلز”۔ یہ کہتے میرے بیگ کو گھسیٹنے لگا۔
“نہیں۔ 1200 روبلز۔ وگرنہ آپ جا سکتے ہو۔ میں ینڈیکس ٹیکسی بلا لیتا ہوں”۔ میں نے اپنا سفری بیگ اس سے واپس اپنے قبضے میں لیا۔ اس نے یہ سن کر بیزار سی شکل بنائی۔ دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پر ٹکائے۔ دائیں بائیں دیکھا۔ کچھ قدم پیچھے کو ہٹا۔ اس کی یہ حرکات دیکھ کر میں تجسس میں پڑ گیا کہ یہ آخر کرنا کیا چاہتا ہے ؟
“اوکے۔ کم “۔ بلآخر اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔
“1200 روبلز ناں ؟ میں اس سے زیادہ نہیں دوں گا”۔
“یس۔ کم”۔
ٹیکسی نے ائیرپورٹ کو چھوڑا۔ تھکاوٹ کے سبب حالت خراب تھی۔ میں نے اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے آنکھیں موند لیں یوں بھی ڈرائیور سے گفتگو ممکن نہیں تھی۔ نہ اس کو انگریزی آتی تھی نہ مجھے روسی زبان۔ گاڑی چلتی رہی۔ شہر ابھی دور تھا۔ آنکھ کھلی تو ڈرائیور بار بار گردن موڑ کے مجھے دیکھتا ، پھر دونوں ہاتھ اسٹئیرنگ پر رکھتا، پھر تعجب سے مجھے گھورتا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کہہ نہیں پاتا تھا۔ بلآخر اس کا تجسس جب اس کے بس سے باہر ہوا تو اس نے میرے لباس کی جانب اشارہ کرتے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہا۔ “یو کم وئیر ؟ ”
میں نے اپنی حالت پر غور کیا۔ تین دنوں سے کپڑے نہیں بدلے تھے۔ زمین پر راتیں بسر ہوئی تھیں۔ میری کالی شرٹ اور جینز کی پینٹ انتہائی گندی ہو چکی تھی۔ سیاہ رنگ پر دھول مٹی بہت نمایاں تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے مزدور دن بھر مشقت کرتا رہا ہے اور اب گھر جاتے وقت اس کا لباس اینٹوں کے برادے سے سر تا پا گندا ہے۔ داڑھی بڑھ چکی تھی۔ آنکھیں نیند کی کمی کے سبب سرخ ہو رہی تھیں۔ ڈرائیور شاید میری حالت دیکھ کر تذبذب میں مبتلا تھا کہ یہ شخص کہاں سے آ رہا ہے۔ میں نے خود پر غور کیا۔ ہاتھ میں تھاما موبائل کھولا۔ ٹرانسلیشن ایپ کھولی اور اس کے ذریعہ ڈرائیور کو کہا
“ہاں، میری حالت اس لئے خراب ہے کہ مجھے اپنے وطن پاکستان سے چلے آج پانچواں دن ڈھلا ہے۔ روسی امیگریشن نے مجھے تین دن اپنے ہاں مہمان رکھا تھا۔ آج ہی رہا ہوا ہوں”۔ یہ لکھ کر میں نے ٹرانسلیشن کا بٹن دبا دیا۔ اپلیکشن نے اسے روسی زبان میں وائس میسج میں ٹرانسلیٹ کر دیا۔ ڈرائیور نے سنا تو اس کی آنکھیں پہلے سے زیادہ پھیل گئیں۔
“سنو، یہاں قریب کوئی موبائل سم کی شاپ ہو گی ؟ مجھے موبائل سم خریدنا ہے۔ مجھے وہاں لے چلو۔ اور ہاں، مجھے یہاں کسی انڈین ریسٹورنٹ میں بھی لے چلو، میں نے کئی دنوں سے کھانا نہیں کھایا جس کے سبب میری حالت ٹھیک نہیں۔ میں تم کو ویٹنگ کے چارجز ادا کروں گا”۔ ہمارے بیچ موبائل اپلیکیشن ترجمان بنی ہوئی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی۔
” رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔اس وقت موبائل سم صرف ائیرپورٹ سے مل سکتی ہے۔ ہاں کھانے کے لئے انڈین ریسٹورنٹ مل جائے گا۔ ابھی ریسٹورنٹ چلتے ہیں۔ تم کھانا کھا لو۔ سم کل صبح خرید لینا”۔ اس نے روسی زبان میں کہا اور موبائل نے اسے انگریزی میں منتقل کر دیا۔
“نہیں، مجھے ہر صورت ابھی موبائل سم چاہیئے۔ میرا رابطہ اپنے دوستوں اور اپنی فیملی سے منقطع ہے۔ وہ سب پریشان ہو رہے ہوں گے۔ تم واپس ائیرپورٹ کی جانب موڑ لو۔ وہاں ریسٹورنٹس بھی ہوں گے۔ میں اضافی پیسے ادا کر دوں گا”۔
یہ سن کر اس نے گاڑی سڑک کنارے سائیڈ پر لگا دی۔ اسٹیرنگ پر اس کی ہاتھوں کی انگلیاں بے چینی میں حرکت کرنے لگیں۔ کچھ دیر اس نے سوچا۔
“اوکے۔ یہاں کچھ فاصلے پر ایک سپر مارکیٹ ہے جو چوبیس گھنٹے کھلی ہوتی ہے۔ وہاں شاید ایک موبائل سم کا کاونٹر بھی ہے۔ مجھے سو فیصد کنفرم نہیں مگر کہو تو چل کر دیکھ لیتے ہیں ؟ اگر وہاں سے نہ ملی تو پھر واپس ائیرپورٹ چلے جائیں گے۔ ائیرپورٹ بہت پیچھے رہ گیا ہے اگر یہاں سے مڑے تو تم کو کافی کرایہ دینا ہو گا۔” اس نے بے چینی کے عالم میں کہا۔
“ٹھیک ہے۔ سپر مارکیٹ کی جانب لے لو”۔
گاڑی چلی۔ میں نے اب اس کی جانب بغور دیکھا۔ یہ درمیانی عمر کا شخص تھا۔ آنکھیں نیلی، جسم دبلا پتلا، سر کے بال سنہرے جو سائیڈز سے گرے ہو چلے تھے۔ اس کا چہرہ سنجیدہ تھا۔ شاید وہ میرے سبب پریشان تھا۔ اسٹیرنگ پر اس کی انگلیاں مسلسل حرکت کر رہی تھیں۔ کچھ دیر قبل تک گاڑی میں روسی گانے گونج رہے تھے۔ وہ ان کو سننے میں مگن رہا تھا اور ان کی دھن پر اپنا سر ہلاتا ڈرائیو کرتا رہا تھا۔ اب اس نے گاڑی کا ملٹی میڈیا بند کر دیا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے ایسے واضح تاثرات تھے جو صاف محسوس کیئے جا سکتے تھے۔ وہ بار بار میری جانب دیکھتا۔ کچھ کہنا چاہتا مگر پھر گردن موڑ لیتا اور دھیان سڑک کی جانب کر لیتا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب اس نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی تھی۔ آس پاس کی ٹریفک کو تیزی سے بائی پاس کرنے لگا تھا۔ایک بڑی سی عمارت آئی۔ اس کی پارکنگ میں گاڑی لگی۔
“آ جاو۔ یہ سپرمارکیٹ ہے۔ اندر چلیں۔”
ہم دونوں اندر داخل ہوئے۔ اندر موجود لوگ مجھے گھور کے دیکھنے لگے۔ مارکیٹ مقامی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ ابھی سورج مکمل غروب نہیں ہوا تھا۔ کافی ہجوم تھا۔ کئی پھٹی پھٹی نیلی سبز آنکھیں میرا طواف کرنے لگیں۔ شاید انہوں نے یہاں “انڈین” پہلی بار دیکھا تھا یا اس حالت میں پہلی بار دیکھا تھا۔ میرے قریب سے گزرتے ہوئے لوگ میرے پاس آتے ہی مجھ سے اپنا فاصلہ بڑھا کر یوں گزرتے جیسے میں بجلی کا شارٹ دیتا کھمبا ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے ندامت محسوس ہو رہی تھی۔ میرا حلیہ اس قابل نہیں تھا کہ اس میں باہر پھرا جا سکے۔ بکھرے بال، بڑھی ہوئی بے ڈھنگی داڑھی، میلا کچیلا لباس جس پر مٹی جم چکی تھی، گندے جوتے، سرخ آنکھیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں بستے لوگوں کو یہ حلیہ ڈرانے کے لئے کافی تھا۔
میں اک جگہ بت بنا چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ ڈرائیور کہیں گم ہو گیا تھا۔ لوگوں کی توجہ کا مرکز میں بن چکا تھا۔ ریسپشنسٹس مجھے گھور گھور کر دیکھتیں۔ پھر لوگوں کے بلز پر توجہ دیتیں اور پھر مجھے دیکھنے لگتیں۔ اس صورتحال میں میرے اندر ایک آواز مسلسل گونج رہی تھی “یہاں سے فوری باہر نکل جاو اور گاڑی میں جا کر بیٹھو”۔ ایک ننھی سی نیلی آنکھوں والی بچی میرے بالکل سامنے آن کھڑی ہوئی اور مجھے ٹک ٹک دیکھنے لگی۔ اس کی ماں نے پلٹ کر دیکھا۔ بھاگی بھاگی بچی کے پاس آئی اور اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا۔ پھر اس نے مجھے گھور کے دیکھا۔ کچھ آگے بڑھی۔ پھر پلٹی۔ پھر گھورا اور پھر چل دی۔ آگے جا کر اس نے اپنے شوہر کو مطلع کیا۔ کچھ ثانیوں میں ایک ہینڈسم مرد میرے پاس آیا
“پریویت” (روسی زبان میں ہیلو) ۔ اس کے بعد اس نے جو کچھ کہا وہ مجھے سمجھ نہ آیا۔ میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا “اونلی انگلش”۔ اس نے سر کو جھٹکا دیا۔ چپ ہوا۔ کچھ سوچا۔ پھر انگریزی میں بمشکل اتنا بولا
“یو ہیلپ ؟ ” ۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ تمہیں کسی مدد کی ضرورت ہے۔ میں نے اسے اتنا ہی کہا “یس” ۔ پھر اپنا موبائل نکالا اور اسے ترجمان بناتے ہوئے لکھا “مجھے موبائل سم چاہیئے۔ میں آج ہی کچھ دیر قبل ماسکو لینڈ ہوا ہوں”۔ اس نے سن کر سر کو جھٹکا دیا
“یس۔ سم۔ کم”۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔ میں اس کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچا۔ اسے روسی زبان میں کچھ کہا۔ اس کی بیوی نے مجھے پھر حیرت سے دیکھا۔ وہ دونوں وہیں رہ گئے اور مرد مجھے لے کر چلا۔ برقی سیڑھیوں سے پہلی منزل پر پہنچے۔ ایک کارنر میں موبائل اسیسریز لگی تھیں۔ مرد نے وہاں موجود ریسپشنسٹ کو کچھ کہا۔ وہ لڑکی آگے بڑھی۔ اس نے مجھے گھورا۔ مرد نے مجھے مخاطب کیا
“سم۔ ہیئر۔ اوکے ؟ “۔ یہ کہتے اب کے اس نے مصافحہ کرنے کو ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ وہ رخصت ہوا چاہتا تھا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہ رخصت ہوا۔ جہاں میں کھڑا تھا وہیں غور کیا تو میرا ڈرائیور بھی موجود تھا۔ وہ آگے بڑھا اور اس نے روسی زبان میں ریسپشنسٹ کو کچھ کہا۔ لڑکی نے مجھے سر تا پا گھورا۔ اس کی نیلی آنکھیں سکڑیں۔ چہرے پر ماتھے کی شکنیں نمودار ہوئیں۔
“پاسپورت؟ “۔
“یس پاسپورٹ “۔ میں نے اپنا پاسپورٹ کمر سے بندھے سفری بیگ سے نکالتے ہوئے اسے تھمایا۔ اس نے پاسپورٹ دیکھا۔ کمپیوٹر پر ڈیٹا درج کرنے میں مشغول ہوئی۔ کچھ دیر بعد بولی۔
“یو ، ان لمیتد انترنیت سم ؟ ”
“یس یس۔ ان لیمٹڈ انٹرنیٹ سم”۔
“900 روبلز”۔ اس نے کیلکولیٹر پر فگر لکھ کر آگے بڑھا دیا۔ میرے پاس امریکی ڈالرز تھے۔ کرنسی ایکسچینج کرانے کا وقت ہی نہیں ملا تھا۔ میں نے سو امریکی ڈالر کا نوٹ نکالا۔
“نو۔ روبلز روبلز”۔ اس نے ڈالر کو دیکھ کر سر انکار میں ہلاتے کہا۔ میں سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔ ابھی یہ کہنا ہی چاہتا تھا کہ یہاں کرنسی ایکسچینج کوئی موجود ہے ؟ کہ اس لڑکی نے مجھے کہا “کریدت کارد ؟ “۔ یکایک میرے ذہن میں آیا کہ میرے پاس تو تین کریڈٹ کارڈز موجود ہیں۔ میں نے فوری ایک نکالا اور اسے تھما دیا۔ اس نے پہلی بار مجھے مسکرا کے دیکھا۔ کریڈٹ کارڈ سے بل ادا ہوا۔ سم نکلی۔ اس نے مجھ سے موبائل لیا۔ سم داخل کی اور مجھے واپس تھماتے بولی۔۔
“ویلکم۔ انترنیت یو یوز”۔ سم پر فور جی آن ہو چکا تھا۔ موبائل پر ٹن ٹن ہونے لگی۔ دھرا دھر پیغامات آ رہے تھے۔ اتنے زیادہ پیغامات کہ اس لڑکی نے ہنس کر کہا
“یو آل گد ؟ ”
“یس آل گڈ”
ڈرائیور نے مجھے چلنے کا اشارہ کیا۔ ہم دونوں برقی سیڑھیوں سے گراونڈ فلور پر اترے۔ یکایک پیچھے سے وہ لڑکی بھاگتی ہوئی نمودار ہوئی اور میرے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ پھولتی سانسوں سے اس نے مجھے میرا پاسپورٹ دکھایا۔
“یور پاسپورت۔ سوری۔ ویری سوری”۔ اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے اس نے کوئی جرم کر دیا ہے۔ پاسپورٹ میں اس سے واپس لینا بھول چکا تھا۔ میں نے فوری اپنا پاسپورٹ اس سے لیا اور اس کا مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔
“یو آل گد ؟ ” اس نے ہانپتی سانسوں سے پھر کہا۔
“یس۔ آل گڈ ” میں نے مسکراتے ہوئے اسے کہا۔ اس نے اپنا ہاتھ مصافحہ کرنے کو آگے بڑھا دیا۔ ہینڈ شیک کر کے وہ رخصت ہوئی۔پارکنگ میں پہنچے۔ڈرائیور نے گاڑی نکالی۔ ماسکو کی سڑکوں پر گاڑی دوڑنے لگی۔
“اب کھانا کھایا جائے ؟ “۔ میں نے موبائل ایپ کا استعمال کرتے ڈرائیور کو کہا۔
“ہاں۔ کھانا کھایا جائے”۔ ڈرائیور نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اب وہ نارمل ہو چکا تھا۔ خوش لگ رہا تھا۔ گاڑی میں روسی گانے گونجنے لگے۔ میں نے موبائل پر آنے والے پیغامات کو پڑھنا شروع کر دیا۔ دوست احباب کے پیغامات تھے جو میری بابت پریشان ہو رہے تھے۔ سب کو جواب دینے میں مشغول ہو گیا۔ بیگم سے بات کی۔ وہ سخت پریشان تھی۔جب وہ مطمئن ہوئی تو بقیہ پیغامات دیکھے۔وہیں ان پیغامات میں ٹاٹانیا کے ان گنت میسجز تھے۔
ٹھہریئے ٹھہریئے، ٹاٹانیا کے ذکر بنا کہانی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ ٹاٹانیا کون تھی ؟۔
جس دن میں نے اپنے سوشل میڈیا پیج پر روس کی سیاحت کا اعلان کیا مجھے ایک انباکس میسج وصول ہوا۔” مجھے فوٹوگرافی کا شوق ہے۔ کیمرا بھی ہے مگر اس طرح کی سمجھ بوجھ نہیں جیسا تمہارا کام ہے۔ میں تم کو ہوسٹ کرنا چاہتی ہوں تا کہ میں بھی ساتھ ساتھ چل کر کچھ فوٹوگرافی کر لوں مگر میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہوں۔ ماں کو بتایا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کسی پاکستانی کو میرے گھر میں آنے کی اجازت نہیں۔ اس کی وجہ کہ میرا باپ ایک پاکستانی تھا جو ہمیں تب چھوڑ کر چلا گیا جب میری عمر صرف 6 سال تھی۔ اس نے ایک جاپانی عورت سے شادی کر لی اور جاپان منتقل ہو گیا۔ اب وہ جاپان سٹاک ایکسچینج کا ایک اعلی عہدیدار ہے مگر ہمارے لئے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔
میں پاکستان سے فطری طور پر شاید اپنے والد کے سبب لگاو رکھتی ہوں لہذا میں تمہارے ملک اور تمہارے لوگوں کے بارے بہت کچھ جاننا چاہتی ہوں۔ میرے بہت سے سوالات ہیں مگر ماں سخت مزاج ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ تم کہیں اور اپنے ٹھہرنے کا بندوبست کر لو تو باقی میں تم کو دو دن اپنی جاب سے چھٹی لے کر شہر گھما دوں گی”۔
میں نے یہ پڑھ کر اسے لکھا کہ مجھے رہائش نہیں چاہیئے۔ اس کا بندوبست میں خود کر سکتا ہوں۔ مجھے وہاں زبان کا مسئلہ درپیش ہو گا۔ اب یوں ہے کہ وہاں ملاقات ہو گی۔ ماسکو میں جب اترا اور قید کر دیا گیا تو یہ ٹاٹانیا تھی جو اتنا پریشان ہوئی کہ وہ ماسکو میں ہماری ایمبیسی پہنچی۔ سفیر صاحب کے کمرے میں گئی اور ان پر برس پڑی۔
“تمہارا ایک شخص یہاں بند کر دیا گیا ہے اور آپ یہاں آفس میں بیٹھے ہیں ؟ کیسے ؟ آپ کا شہری ہے۔ آپ کے ملک کا فنکار ہے۔ وغیرہ وغیرہ”۔ نجانے اس نے کیا کیا کہہ دیا تھا جس کا اظہار سفیر صاحب نے مجھ سے ملاقات میں کیا۔ یہی نہیں، وہ سفارت خانے سے نکلی اور اپنے ایک وکیل دوست کے دفتر پہنچ کر بیٹھ گئی۔ وہ وکیل اس کے کہنے پر ائیرپورٹ آیا۔ امیگریشن حکام سے ملا اور میری رہائی کے سلسلے میں انہیں متنبہ کیا کہ اگر میرے کلائنٹ کو رہا نہ کیا گیا تو ہمارا قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ ہے۔
ٹاٹانیا نے بنا مجھے جانے، بنا ملے، بنا کسی ذاتی شناسائی کے جو بھاگ دوڑ میرے واسطے کی تھی میں اس کا مقروض تھا۔ اس بھاری قرض کو چکانا مجھ پر فرض ہو چکا تھا۔ پیغامات سے اس کی پریشانی جھلک رہی تھی۔ میں نے اسے کال ملا دی۔ دوسری جانب سے ایک نسوانی آواز ابھری۔
“تاتانیا۔ میں رہا ہو چکا ہوں۔ ماسکو شہر میں داخل ہو رہا ہوں۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ چونکہ انٹرنیٹ نہیں تھا اس لئے بروقت جواب نہ دے سکا”۔ اس نے فون اٹھاتے ہی میں نے ایک ہی جملے میں یہ سب کہہ دیا۔
” اوہ۔ شکر ہے تم رہا ہو گئے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی۔ ابھی تم کہاں ہو ؟ تم ایسا کرو میں تمہیں پن لوکیشن بھیج رہی ہوں۔ فوری ٹیکسی لو اور میری جانب آ جاو۔ “۔ اس نے فر فر انگریزی میں جواب دیا۔ وہ اتنا تیز بولتی تھی کہ کچھ الفاظ سمجھ نہ آتے تھے۔
“شکریہ، مگر سنو، سنو، میں ٹیکسی میں ہوں۔ ابھی میرا ارادہ ہے کہ اپنے ہوسٹل جاوں۔ میرا حلیہ بھی ایسا نہیں کہ تمہارے گھر آ سکوں۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ میری کیا حالت ہو گی ؟ مجھے نیند پوری کرنی ہے۔ بارہ گھنٹے نیند پوری کروں گا تو صبح تک شاید طبیعت بحال ہو جائے گی۔ کل ملتے ہیں”۔ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ وہ فر فر بولتی جاتی تھی۔
“اوہ۔ ہاں، اچھا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ تم کو آرام کی ضرورت ہے اور میرے فلیٹ میں ایک تو ماں ہے جو بہت بولتی ہے دوسرا میری پالتو کتیا ہے جو مہمان کے اردگرد گھومتی اسے سونگھتی رہتی ہے۔ تم آج ہوسٹل جا کر آرام کرو۔ کل صبح جب اٹھ جاو تو مجھے میسج کرنا۔”۔ اس نے حسب معمول تیز رفتاری میں جواب دیا۔
“ہاں۔ ٹھیک ہے۔ شکریہ تاتانیا۔ اور یہ تمہاری ماں کیا مان گئی مجھے ملنے کو ؟ گھر میں دعوت دے رہی ہو ماں کو کیسے منایا ؟ “۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
“ہاہاہاہا۔ ہاں، یہ ایک سٹوری ہے اور ابھی تم وہ نہیں سننا چاہو گے۔ فی الحال ماں مان گئی ہے۔ وہ پاکستانی سے ملنا چاہتی ہے۔ کل آو گے تو ماں کو دیکھنا۔ اور ہاں اس کی کسی بات کا برا نہ منانا۔ تم جانتے ہو وہ بوڑھی ہو رہی ہے، بوڑھے لوگ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ “۔ اس نے قہقہہ لگاتے کہا۔۔
“ہاں۔ فکر نہ کرو۔ سمجھتا ہوں۔ ایک تو ان کے اندر کا غصہ ہو گا۔ وہ ظاہر تو ہو گا کسی صورت۔ دوسرا میں بزرگوں کا برا نہیں مناتا۔”۔ میں نے اسے ہنستے ہنستے جواب دیا اور کال کا اختتام ہوا۔
ڈرائیور نے ایک ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روکتے انگلی کے اشارے سے کہا۔
“انڈین فوڈ”۔
“اوکے۔ چلو آو۔ کھانا کھائیں۔ بہت بھوک لگی ہے”۔ میں نے موبائل کو ترجمان بناتے کہا۔ اس نے پہلے تو انکار میں سر ہلایا پھر میرے دوبارہ کہنے پر وہ اترا۔ ہم دونوں ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔
“تم کو بتاوں۔ مجھے انڈین فوڈ پسند ہے۔ ہاہاہاہاہا۔ تم انڈین ہو ؟ “۔ ڈرائیور نے بذریعہ موبائل روسی زبان میں کہا۔
“نہیں۔ میں پاکستانی ہوں۔ دو الگ ملک ہیں مگر تم انڈین کہہ سکتے ہو کیونکہ خطہ ایک ہے”۔ میں نے اسے جواب دیا تو وہ مسکرا دیا۔
ریسپشن پر ایک بھارتی کھڑا تھا۔ میں نے اس سے استفسار کیا کہ فوری کھانے کو کیا مل سکتا ہے ؟ اس نے اردو میں جواب دیا کہ بریانی تیار ہے۔ دو پلیٹ بریانی آرڈر کر کے واپس ڈرائیور کے پاس اپنی ٹیبل پر آ بیٹھا۔ کھانا آیا۔ بل ادا ہوا۔ ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے ڈرائیور نے کہا کہ کھانا بہت مزیدار تھا۔ ساتھ اس نے قہقہہ لگا دیا۔ گاڑی پھر سے چلی۔ پیٹ بھر چکا تھا۔ اب طبیعت بہل چلی تھی۔ ماسکو شہر کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ سورج ڈھل چکا تھا۔ آسمان ہلکا نیلگوں تھا۔ ماسکو کی سڑکوں پر گاڑیوں کی لائٹس جل رہی تھیں۔ عمارات جگمگ کرنے لگی تھیں۔ بلند و بالا عمارات ، دلکش اور چوڑی شاہراہیں، منظم ٹریفک، فٹ پاتھوں پر چلتے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے روسی جوڑے۔ ماسکو کی پہلی رات۔ مسافر کا پہلا ٹھکانہ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہوسٹل آ گیا۔
ڈرائیور نے آگے بڑھ کر سامان نکالا۔ ہوسٹل کے مرکزی دروازے پر سامان رکھتے بولا ” گڈ بائے”۔ میں نے ہنس کر شکریہ کہا اور اس سے پوچھا کہ تمہارا ٹوٹل بل کتنا بنا ؟
“1000 روبلز”۔اس نے چہرے پر مسکان سجائے کہا
“1000 کیسے ؟ 1200 روبلز تو طے ہوا تھا۔ پھر روٹ سے ہٹ کر سپرمارکیٹ گئے۔ کھانا کھایا۔ کافی وقت لگا۔ ” میں نے سوچا شاید وہ بھول رہا ہے۔
“ہاں، 1000 دے دو۔ کھانا میں نے بھی کھایا تھا جس کا بل تم نے دیا۔”۔ اس نے حسب معمول مسکان سجائے کہا۔ یہ جان کر میں حیران ہوا۔
“ارے نہیں نہیں، کھانا میرے ذمے تھا۔ میں لے کر گیا تھا۔ اس کا بل تمہارے ذمے نہیں ہو سکتا۔ مجھے اپنا بل ٹھیک ٹھیک بتاو۔” میں نے اسے زور دے کر کہا۔
“نہیں۔ تم کریڈٹ کارڈ سے میری ٹیکسی ایپ پر 1000 منتقل کر دو۔ جا کر آرام کرو۔ تم حلیئے سے جنگلی انڈین لگ رہے ہو”۔ اس نے قہقہہ لگایا
“نہیں ایسے کیسے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ اگر تم نہیں بتا رہے تو میں 1500 روبلز خود سے منتقل کر رہا ہوں۔” میں حیرت میں گم تھا کہ کیسے ایک پیشہ ور ٹیکسی ڈرائیور جو ائیرپورٹ پر مجھے انجان سمجھتے اضافی چارج کرنا چاہ رہا تھا وہ اب مقرر کردہ پیسوں سے بھی 200 روبلز کم بتا رہا تھا۔ اس نے یہ سن کر دونوں ہاتھوں سے انکار کا اشارہ کیا اور مسکان سجائے کھڑا رہا۔
“دیکھو، ایک تو موبائل ایپ کے ذریعہ ٹرانسلیشن کر کے میں تھک چکا ہوں۔ پتا نہیں تم کو ایپ ٹھیک طرح سمجھا بھی پا رہی ہے یا ٹرانسلیشن میں غلطی کر رہی ہے۔ جلدی بتاو بل۔ اور تمہارا بہت شکریہ۔ تم بہت اچھے انسان ہو مگر اپنی مزدوری لینا تمہارا حق ہے”۔
اس نے موبائل مجھ سے لیا۔ اس پر بولا اور ٹرانسلیشن کا بٹن دبا دیا۔
“اگر تم مجھے زیادہ پیسے دینا چاہتے ہو تو یہ میرے لئے شرمندگی کا باعث ہو گا۔ صرف 1000 روبلز منتقل کر دو اور بے فکر ہو کر ہوسٹل میں داخل ہو۔ آرام کرو۔ اور بس تم میرا وقت ضائع کر رہے ہو ہاہاہاہاہاہاہا۔ مجھے ابھی دوسری سواری کی جانب چلنا ہے”۔ مجھے موبائل واپس تھماتے اس نے ہینڈ شیک کو ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ یہ رخصتی کا اشارہ تھا۔ میں نے کھڑے کھڑے ایپ سے 1200 روبلز اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر دے کر منتقل کیئے۔
“میرے دوست۔ تم خوش رہو۔ تم اچھے انسان ہو مگر کم سے کم مقرر کردہ کرایہ تمہیں منتقل کر دیا ہے۔ اگر زندگی رہی تو پھر ملنا ہو گا۔ میرے پاس تمہارا موبائل نمبر آ چکا ہے۔ چلو اب جاو۔ پھر ملتے ہیں ماسکو میں۔ اس شہر میں مجھے ابھی بہت وقت گزارنا ہے”۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے کہا۔ اس نے پھر سے ہینڈ شیک کیا اور گاڑی میں بیٹھتے بولا
“گڈ نائٹ فرینڈ”۔
گاڑی آگے بڑھ گئی۔ میں ہوسٹل کے دروازے پر کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔ یہ روس سے میرا پہلا تعارف تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جو ہوا سو ہوا مگر روسی لوگ کیسے کشادہ دل لوگ ہیں۔ یہ شخص کتنا مہربان انسان تھا۔ سفر میں گزرا وقت کیسے انسانوں کو یکسر بدل دیتا ہے اور ان کا وہ روپ سامنے لے آتا ہے جو اصل روپ ہوتا ہے۔
ہوسٹل کا دروازہ کھلا۔ سامان کے ہمراہ اندر داخل ہوا۔ سامنے ریسپشن پر ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چونک کر اٹھی۔ جلدی جلدی ریسپشن ڈیسک سے باہر نکلی۔ تیز قدموں سے آگے بڑھ کر قریب آئی۔
“پریویت۔ ویلکم”۔ اس نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔
“تھینک یو۔ میری یہاں بکنگ ہے۔ سید مہدی بخاری”۔
“اوہ۔ ہاں۔ ویلکم۔ ” اس نے پھر سے ویلکم کہا۔ مجھے غور سے دیکھا۔
“تم کسی سیاحتی مہم سے آ رہے ہو ؟ اپنے جوتے یہیں اتار دو۔ ہوسٹل کے اندر جوتوں میں گھومنے کی اجازت نہیں۔ یہاں شو ریک ہے۔ یہاں سے ہوسٹل کی جوتی پہن لو”۔ اس نے میرا حلیہ دیکھتے ہنستے ہوئے کہا۔
“ہاں، میں ایک ایسی مہم سے آ رہا ہوں جس میں انسان مکمل ٹوٹ جاتا ہے۔ تمہارا شکریہ۔ مجھے فوری میرے بیڈ کا بتا دو۔ مجھے لمبا سونا ہے۔ میں بہت تھک چکا ہوں۔ اور ہاں، پہلے واش روم کا بتاو۔ سونے سے قبل مجھے اپنا حلیہ انسانوں والا بنانا ہے” میں نے جوتے اتارتے اسے کہا۔
“ہاں۔ تم پاسپورٹ دو۔ میں فوری تمہارا اندراج کر لوں۔ ویسے تم یہاں کس مہم سے آ رہے ہو ؟ ماسکو میں تو ایسی کوئی جگہ نہیں جو کپڑوں کا ایسا حال بنا دے”۔ اس نے اب قہقہہ لگایا تو اس کی نیلی آنکھیں پھیل گئیں۔
“میں ایسی مہم سے آ رہا ہوں جہاں مجھے پانی ملا نہ کھانا، نہ سونے کو بستر ملا نہ ہی نیند آئی۔ میں اتنا لمبا سونا چاہتا ہوں کہ کئی دن نیند میں بیت جائیں۔”
“اوہ۔ مگر یہ کونسی ایسی مہم تھی تم بتانا پسند کرو گے ؟ یہ مجھے بہت دلچسپ لگ رہی ہے۔ مائنڈ نہ کرنا میں تمہارا وقت لے رہی ہوں مگر مجھے تجسس ہو رہا ہے کہ یہاں ماسکو میں ایسی کونسی جگہ ہے جہاں پانی نہ ہو، بستر نہ ملے اور نیند نہ آ سکے ؟ “۔ یہ سوال اس نے ریسپشن ڈیسک پر پہنچ کر کیا اور پاسپورٹ دیکھنے لگی۔
“میں فوٹوگرافر ہوں۔ ابھی میرا دماغ ماوف ہو چکا ہے۔ مجھے اپنا حلیہ بدلنا ہے۔ بس جلدی سے مجھے میرا بیڈ اور واش روم دکھا دو۔ صبح تم کو مہم کے بارے تفصیل سے بتاوں گا۔ اور ہاں، شاید تمہاری تصویر بھی لوں۔ تم مجھے مکمل ماڈل نما لگ رہی ہو۔ یقین مانو تمہاری تصویر بہت اچھی آئے گی”۔ میں نے ہنستے ہوئے اسے کہا۔ مقصد بس یہ تھا کہ جلد از جلد یہ چیک ان کی کاروائی کرے اور مہم کی بات چھوڑ دے۔ یہ سن کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ چہرہ انتہائی سنجیدہ ہوا جسے دیکھ کر میں ٹھٹھک گیا کہ کہیں میری اس برائے مزاق بات کا برا تو نہیں منایا گیا۔
“سید، مجھے کہنا تو نہیں چاہیئے مگر تمہیں دیکھتے میں کچھ کہنا چاہوں گی۔ اگر تم کو برا نہ لگے ؟ “۔ اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں الرٹ ہو گیا۔
“ہاں۔ کہو۔”
“تم بہت تھکے لگ رہے ہو۔ تم کو آرام کرنا ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہاں ہوسٹل میں تم کو شاید مکمل آرام نہ مل سکے۔ تم جانتے ہو ہوسٹل میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ آدھی رات تک باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہاں بنک بیڈز ہیں۔ ایک کمرے میں آٹھ بیڈز ہیں۔ بقیہ لوگوں کے شور سے تمہارے آرام میں خلل پڑ سکتا ہے۔ یوں تو مجھے یہ سب نہیں کہنا چاہییے کیونکہ یہ میرا ہوسٹل ہے مگر تم بہت تھکے ہوئے ہو۔ اگر مناسب سمجھو تو میں تمہیں برابر میں ایک ہوٹل میں لے جاوں۔ وہاں تم پرائیویٹ کمرہ لے کر مکمل آرام کر سکتے ہو۔ کرایہ اس کا ظاہر ہے زیادہ ہو گا۔ اگر یہیں رکنا چاہتے ہو تو بتا دو ابھی تک میں نے تمہاری انٹری نہیں کی۔ یہ بکنگ ابھی بھی کینسل ہو سکتی ہے”۔
“ہاں۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔ چلو مجھے ہوٹل کا رستہ دکھا دو۔ میں وہیں رکوں گا۔ یہاں روم میٹس کے سبب نیند میں خلل پڑتا رہے گا”۔ وہ یہ سن کر مسکرائی۔
“آ جاو میرے پیچھے”۔ اس نے مسکان سجائے کہا۔
میں سامان لئے اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ ہوسٹل سے باہر نکلے۔
“اور ہاں، وہ تصویر کا کیا ؟ “۔ میں نے اسے ہنسانے کو کہا۔ وہ جب ہنستی تھی زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔
“ہاں ہاں، صبح آ جانا۔ یہاں ماسکو میں مجھ سے بھی پیاری لڑکیاں ہیں۔ ” اس نے پلٹ کر ہنستے ہوئے کہا۔
“ہاں، میں تو ہنسا رہا تھا”۔
“ہاں، مجھے پتا ہے۔ تم تھکے ہوئے ہو اور تمہارا دماغ گھوم چکا ہے” یہ کہتے اس نے انگلی اپنی کنپٹی پر دھرتے انگلی گھماتے اور زبان باہر نکالتے بچوں کے سے انداز میں کہا۔
چند قدموں پر ہوٹل واقع تھا۔ یہ ایک فور سٹار ہوٹل تھا۔ عالیشان عمارت تھی۔ اندر داخل ہوا تو اس کا انٹیرئیر دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ مہنگا ہوٹل ہو گا۔
“اب میں واپس جاتی ہوں۔ گڈ نائٹ سید۔ ہوسٹل رکنا ہوا تو کل چیک ان کر لینا۔ آج تم نیند پوری کرو”۔
وہ حسب معمول چہرے پر مسکان سجائے پلٹ گئی۔ بیرا آگے بڑھا۔ اس نے سامان لیا۔ ریسپشن پر پہنچا۔ دو لڑکیاں یونیفارم میں ملبوس کھڑی تھیں۔ دونوں مجھے دیکھ کر ٹھٹھکیں۔ ایک عالیشان ہوٹل کی ریسپشن پر ایک بدحال “انڈین” کھڑا تھا۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ نیلی آنکھیں پھر مجھے گھورنے لگی تھیں۔ رہائی کی پہلی رات نازل ہو چکی تھی۔ میں آگے بڑھا۔
“ایک روم ملے گا ؟ چارجز ؟ ”
“ہاں سر، 5000 روبلز”۔ لڑکی نے ہلکا مسکراتے جواب دیا مگر اس کے چہرے کے آثار بتا رہے تھے کہ وہ میرے حلیہ کے سبب پریشان ہے۔ میں نے پاسپورٹ اور کریڈٹ کارڈ نکال کر اس کے سامنے ڈیسک کر رکھے۔ اس نے دونوں کو تھاما اور کمپیوٹر سکرین میں غرق ہو گئی
“تم کسی مہم سے واپس آ رہے ہو ؟ “۔ لڑکی کی آواز گونجی
“ہاہاہاہاہاہاہاہا۔ نہیں میں جیل سے رہا ہو کر آ رہا ہوں اور مجھے ابھی سونا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply