• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا مودی کی کامیابی بھارت کا تشخص بدل دے گی؟۔۔۔۔۔۔۔ابھے کمار

کیا مودی کی کامیابی بھارت کا تشخص بدل دے گی؟۔۔۔۔۔۔۔ابھے کمار

نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی دوبارہ سرکار بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس بار تو بھگوا سیاسی جماعت کا مظاہرہ پہلے سے کافی بہتر رہا ہے۔ حزب اختلاف کی کون کہے، خود حکمران بی جے پی کو اتنی بڑی جیت کی اُمید شاید نہیں تھی۔ ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ مودی کا جادو ختم ہو رہا ہے اور بی جے پی 2014 کے مقابلے میں کم سیٹیں حاصل کرنے جا رہی ہے، مگر سیٹیں گھٹنے کے بجائے کافی بڑھ گئی ہیں۔

مودی کی اس بڑی جیت کی  کیا وجوہات ہیں؟ کیا مودی کی اس بڑی کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کا تشخص بدلا جا رہا ہے؟ اس مضمون میں انہی دو سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش راقم الحروف نے کی ہے۔

سب سے پہلے بات ووٹنگ مشین سے  شروع ہونی چاہیے۔ کیا حکمران جماعت نے دوبارہ اقتدار میں لوٹنے کے لیے مشین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی  ہے اور اپنے ہارنے والے امیدواروں کو فتح یاب بنوایا ہے؟۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکٹرونک مشین کے ساتھ ٹیمپرنگ کرنے کے امکانات کو خارج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کئی مواقع پر ووٹنگ مشین کے غلط کام کرنے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔ایسا الزام بھی لگایا گیا ہے کہ رائے دہندگان نے جس پارٹی کو ووٹ دیا اُسے ووٹ نہیں درج ہوا ،اور اس کا فائدہ ایک خاص سیاسی جماعت کو ملا۔یہی وجہ ہے کہ محروم طبقات کی ایک بڑی جماعت کے دلوں میں ووٹنگ مشین کو لے کر بہت سارے خدشات ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ اُن کا ووٹ بی جے  پی کے اکاؤنٹ میں چلا گیا، جس کو انہوں نے ووٹ نہیں دیا۔ “انتخابات جلد ہی دوبارہ ہوں گے”۔یہ بات 60 سالہ باگڑ میاں نے عید کے تین روز  بعد ایک افطار پارٹی کے دوران مجھے بتلائی۔باگڑ میاں میرے گاؤں کے شیخ مسلمان ہیں جو اپنی جوانی کے د نوں میں سائیکل پر گھوم  پھر کر کپڑا بیچا کرے تھے۔۔ باگڑ میاں کو اس بات کی حیرانی ہے کہ جب اُن کے محلے کے سیکڑوں لوگوں نے سیکولر جماعت کو ووٹ کیا تھا تو بھگوا سیاسی جماعت کے امیدوار کیسے جیت گئے؟

یہ تو یقین کے ساتھ   نہیں کہا  جا سکتا  کہ ووٹنگ مشین کے ساتھ واقعی ٹیمپرنگ کی گئی۔مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جمہوریت میں تمام فریقین کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔طاقت اور تعداد کے زور سے کسی بھی کمزور آواز کو دبانا ایک بڑے خطرے کو پالنے کے برابر ہوتا ہے۔

کیا سیاسی جماعتیں ووٹنگ مشین کی جگہ دوبارہ بیلٹ پر انتخابات کرنے کو لیکر سنجیدہ ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف جماعت  بھی اس مسئلہ پر سنجیدہ نظر نہیں آ رہی۔

کیا اس بات کو فراموش کیا جا سکتا ہے کہ سال 2009 میں انتخابات ہارنے والی  بی جے پی نے دوبارہ بیلٹ پر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا؟ مگر اس وقت کی حکمران جماعت کانگریس نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اب کچھ ایسا ہی مطالبہ اپوزیشن کر رہی  ہے اور حکمران  جماعت  بی  جے پی اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حکمران جماعت کی چالاکی دیکھیے کہ بیلٹ پر دوبارہ انتخابات  کرانے کے واجب مطالبے کو وہ ملک کے ادارے پر عدم اعتماد سے جوڑ کر پیش کر رہی ہے، وہیں اپوزیشن اپنی سہولیات کے مطابق اس مسئلے کو اٹھاتی اور دبا دیتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسے کس علاقے سے کتنے ووٹ ملے۔ اگر اپوزیشن پارٹی کو اس بات  کا  یقین ہے کہ  اُن  کے ساتھ نا انصافی کی گئی تو اُنہیں اس سوال پر تحریک شروع کرنی  چاہیے، کیونکہ جمہوریت کا دفاع تمام پارٹیوں کے ذاتی مفادات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

ووٹنگ مشین کی بات اپنی جگہ ہے، مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اپوزیشن اپنی تیاری میں بری طرح ناکام رہی  ہے۔اُن کی  اتحادی سیاسی جماعتوں کے مابین آپسی تال میل کا بڑا فقدان رہا۔ ذاتی مفادات اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کے سروں پر چھائے رہے ۔ انہوں نے بعض اوقات ٹکٹ کی تقسیمِ میں پیسے وصول کیے  اور اپنے چمچوں کو ٹکٹ دیا اور برسوں سے کام کر رہے پارٹی کے وفادار اور محنتی لیڈروں کو نظر انداز کیا۔مگر ان سے زیادہ اُن کے مابین لیڈرشپ کے لیے اٹھا پٹخ  اور کھینچا تانی اُن کی ہار کی وجہ بنی۔کون بنےگا وزیر اعظم کے نام پر ایک لیڈردوسرے لیڈر کا پیر کھینچتے رہے،کمپین کے دوران فنڈ کی بھی کمی دیکھی گئی۔ انتخابی تشہیر کے دوران جوش کی کمی دیکھی گئی۔ پوری  انتخابی تشہیر کے دوران اپوزیشن کی طرف سے کوئی  خواب نہیں دکھایا گیا۔ خواب دکھانا ہمیشہ منفی نہیں ہوتا ہے۔ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے نعرے اور منزل کا ہونابہت ضروری ہوتا ہے۔

اپوزیشن پارٹی کے مقابلے  میں مودی کی قیادت میں حکمران جماعت نے جیت کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے۔ اُن کے پاس مودی جیسا لیڈر تھا جو ہر وقت انتخابی موڈ میں رہتا  ہے ۔ مودی کے اندر یہ بڑی قابلیت ہے کہ وہ گیم کوکسی بھی وقت اپنے حق میں موڑ دیتے ہیں۔پوری  انتخابی تشہیر کے دوران مودی نے وہ سب کچھ کیا جسے کرنے میں سابق وزرااعظم جھجھکتے رہے، مودی نے ہندوتو کے نام پر ووٹ مانگا، ہندو اور مسلمان کے نام پر راۓ دہندگان کو بانٹا، پاکستان اور سرحد پر سے لانچ کیے جا رہے دہشت گردوں کا خوف دکھا  کر ووٹ مانگا، سینا اور شہیدوں کی چتاؤں اور مزاروں کے نام پر ووٹ مانگا۔ وکاس کی جگہ جذباتی اور مذہبی سوالوں کو بار بار اٹھایا گیا۔میڈیا کی مدد بی جے  پی کی تعریف اور اپوزیشن کی دن رات برائی دکھائی گئی۔ سرمایہ داروں کے چندوں کو پانی کی طرح بہایا گیا۔سرکاری مشنری کا استعمال بڑی چالاکی سے این ڈی اے کے حق میں کیا گیا۔ مودی اور امت شاہ کے سامنے پورا بی جے  پی چپ رہا۔

مودی اور امت شاہ کے علاوہ کریڈٹ آر ایس ایس کو بھی جاتا ہے۔ مجھے مودی کی جیت سے اُتنا  ڈر نہیں لگ رہا ہے، جتنا آر ایس ایس کے نظریہ کے پھیلاؤ سے لگ رہا ہے۔آر ایس ایس کا شدت پسند نظریہ دھیرے دھیرے لوگوں کی نسلوں میں زہر کی طرح پھیل رہا ہے۔ مسلمانوں کی کون کہے، اب غیر مسلمان، جو بی جے  پی کے نظریہ کو قبول نہیں کرتے،  کو پاکستانی کہا جا رہا ہے۔ مودی اور بی جے پی کی کسی بھی تنقید کے جواب میں یہ کہا جا رہا ہے کہ “آپ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے؟”.

اعلیٰ ذات کے ہندو، بنیا اور تجیر ہندو ایک لمبے وقت سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے حمایتی رہے  ہیں۔ اس بار انہوں نے پہلے سے کہیں زیادہ جوش کے ساتھ بی جے  پی کو ووٹ ڈالا۔ ایک بار میں نے اپنے ایک رشتےدار سے یوں ہی پوچھ ڈالا کہ آپ مودی کو کیوں ووٹ دے رہے ہیں؟ کیا بجلی، پانی، تعلیم اور صحت کی حالت آپ کے علاقے میں بہتر ہونے جا رہی ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں کہا گیا کہ “مودی ہی مسلمان کو درست کر سکتے ہیں”۔

یہ جواب سن کر میرا دل دہل گیا۔ مودی کی اس بڑی لہر کے اندرکرنٹ میں مسلم مخالف جذبات کم کر رہا تھا۔یہی وجہ ہے کہ سماجی، تعلیمی اور اقتصادی محاذ پر ناکام ہونے کے بعد بھی مودی کو اتنی بڑی کامیابی ملی۔

اسی ہندوتو اور مسلم مخالف  جذبات  کی وجہ سے بی جے  پی کا سوشل بیس کافی بڑھ گیا ہے۔ محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے رائے  دہندگان نے اسی پروپیگنڈا  کی زد میں آکر بی جے پی کو ووٹ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج اپوزیشن کے لیے مودی کو سیاسی ٹکّر دینا بہت مشکل ہے۔ مودی کے پاس پیسہ ہے، میڈیا ہے، کارکنان ہیں، رضاکار ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ہندوتو کا ایجنڈا ہے جس کے جھنڈے میں ایک بڑی تعداد میں محروم طبقات کے لوگ پھنستے جا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یادو سماج کا ایک بڑا حصہ، جو کبھی لالو اور ملائم کا حمایتی ہوتا تھا، وہ آج “جے شری رام” کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اسی طرح دلت سماج کا ایک بڑا حصہ مایاوتی سے چھٹک کر مودی اور یوگی بھگت بن گیا ہے۔

ان تمام حقائق کے مدد نظر سیکولر اور جمہوری طاقتوں کے لیے راہ بڑی مشکل ہے۔اگر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب، بھائی چارگی اور ہم آہنگی کو بچانا ہے تو سب کو مل کر لڑنا ہوگا۔ اس اُداس موسم کے خلاف لڑنے کے لیے ہم سب کو ساتھ آنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں)

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply