وفاؤں کا موسم۔۔۔۔عائشہ یاسین

الیکشن 2018 کے بعد ملکی آب و ہوا میں تبدیلی کا نعرہ تحلیل سا ہوگیا تھا۔ ہر طرف یہ ہی نعرہ تھا کہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔ عوام بھی اسی رو میں بہہ نکلی اور ایک ایک پل تبدیلی کی طرف متوجہ رہی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ سوئی ہوئی قوم جاگ تو گئی پر اپنی جگہ سے اٹھ نہ پائی۔ پہلے وعدہ وفاؤں پر یقین کرکے عمران خان کو قوم نے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ سے جتوایا اور پھر 90 دن کا وعدہ لے کر اس کے وفا ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

پورے ایک سال گزر جانے کے بعد کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ۔ ہاں ملکی خد و خال ضرور بدل گئے ہیں۔ جہاں گھر ، مکانات اور کالونی تھے وہاں اب ملبے نظر آتے ہیں ۔ ترقیاتی منصوبوں کی جگہ صرف عمارتوں کو ناجائز تجاوزات کے نام پر گرایا جاتا رہا۔ مہنگائی کو صرف عوام پر آزمایا گیا تاکہ نہ رہے عوام اور نہ ہوں ان کے مسائل۔
یہ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مفادات اور وفاوں کو منوانے کی خاطر ہم عوام کو ہمیشہ ہی استعمال کیا ہے۔ ہم عوام پہلے روٹی کپڑا مکان کو روتے رہے پر اب کپڑے اور مکان تو دور کی بات روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں۔

اب اکثر ہم عوام یہ ہی سوچتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کے لئے ہم نے عمران خان کو چنا تھا کیا غلط کیا تھا؟ کیا ہمارا حق نہیں تھا کہ ہم ایک ایسے دعوے دار کو موقع دیتے جو نظام کو بہتر بنانے کی بات کرتا تھا؟ میرا ماننا ہےکہ ہاں ہم عوام میں ہی غلطیاں ہیں جو ہر بار مہر کا غلط استعمال کرتی ہے لیکن جناب عوام کے پاس نہ تو کوئی چوائس تھی کہ تو وہ اپنا مہر کہاں لگاتی اس لئے ایک نئے لیڈر کو منتخب کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔

شاید عوام ایک بار پھر دھوکہ کھا چکی ہے۔ بجٹ اور خسارے کو دیکھتے ہوئے ملکی سالمیت خطرے سے باہر نہیں۔ ہر طرف بے چینی اور اضطراب پھیلا ہوا ہے۔ کون کس سمت جائے کوئی خبر نہیں۔ ان حالات میں بھی عوام کا حوصلہ دیدنی ہے۔ کوئی وفاؤں کے دھاروں میں بہتا ہوا اپنے قائد کا نعرہ لگا رہا تو کوئی کرکٹ ورلڈ کپ کے چلے جانے کے خوف میں مبتلا ہے اور اسی دوران بجٹ ہے جس پر عوام ہوش نہیں کر رہی اور ہوش کیوں کر کرے۔ بہتر ہے کہ یہ قوم سوتی رہے۔ جاگ جانے پر کون سا اس نے آٹھ کھڑے ہوجانا ہے۔

یہ ہی بہتر ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر بیٹھ کر تیر اندازی کی جائے۔ سوشل میڈیا پر ہی چاک و چوبند رہنے سے کیا پتہ ہماری جوان نسل کوئی کارنامہ برپا کر دے اور ملکی معیشت میں ترقی ہوجائے ۔ کیونکہ عملی طور پر کوئی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ سب نے اپنے وفا کی خاطر غلط کو صحیح ہی ثابت کرنا ہے چاہے سب سے زیادہ نقصان خود کو ہی نہ اٹھانا پڑے۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے  تھا کہ ساری توجہ ملک پاکستان کی ترقی اور سلامتی پر ہوتی ۔ ملک و قوم اپنے عوام کی وجہ سے پنپتے ہیں اور یہ حکمران وقت کا فرض ہے کہ وہ قوم کو آسانیاں دیں ان کے معاشی ترقی کا ضامن بنے۔ اس کی اولین ترجیح عوام کی خدمت ہو ناکہ پرانی دشمنیاں نبھانا۔ اگر اس ملک کی بقا درکار ہے تو سب کو ایک پیچ پر آنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاست اپنی جگہ اور ملکی مفاد اپنی جگہ کے اصول اپنانے ہوں۔ کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پر افسوس جب بھی میڈیا پر نظر جاتی ہے تو لگتا ہے یہاں اپنی بقا کی جنگ جاری ہے۔ سب خود کو بچانے میں لگے ہیں اور عوام آنکھیں پھاڑ کر ٹکر ٹکر دیکھے جارہی ہے۔ شاید عوام کے پاس یہ سوچنے کے سوا کچھ نہیں بچا کہ ان کا ہر فیصلہ ہر دفعہ غلط ہوتا ہے اور عوام فیصلہ کرنے کی اہل نہیں۔ عوام تماشبین بنی دیکھ رہی ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہو اور ان کے نان نطفے کا انتظام ہوجائے ٹھیک اسی طرح جس طرح کرکٹ اسٹیڈیم میں بیٹھی عوام بارش ہونے کی دعا میں مصروف رہتی ہے کہ بارش کے ہونے پر ایک پوائنٹ مل جائے پر محنت اور قابلیت سے میچ نہ جیتا جائے۔
اللہ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو۔آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply