اچھا مگر مقروض پڑوسی کیا کرے۔۔امر جلیل

ایک عام سی حکایت، ایک عام سی کہانی، ایک عام سی بات سمجھنے کیلئے آپ کا پی ایچ ڈی ہونا ضروری نہیں ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایک عام سی بات سمجھنے کے لیے آپ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا لازمی نہیں ہے۔ مثلاً، بغیر پانی کے آپ انڈا ابال نہیں سکتے۔ یہ بات سمجھنے کیلئے آپ کو کسی یونیورسٹی میں چھ برس پڑھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بغیر بیج بوئے آپ فصل نہیں کاٹ سکتے۔ یہ بات سمجھنے کیلئے کسی اَن پڑھ کسان کو ایک ایگریکلچرل یعنی زرعی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک چھوٹا سا بچہ بھی جانتا ہے کہ بغیر ڈور کے آپ پتنگ نہیں اُڑا سکتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سوئی گیس بند ہو جانے کے بعد جب کنستر بھی دستیاب نہیں ہوں گے تب ہم لکڑیاں اور اوپلے جلا کر کھانا پکائیں گے۔ مگر کوئی نہیں جانتا کہ پکانے کے لیے جب ایک دانہ میسر نہیں ہوگا تب ہم کیا پکائیں گے۔ پتھر اُبالنے سے آلو نہیں بنتے۔ گردشِ ایام میں ہم ابالے بغیر پیٹ پر پتھر باندھتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ڈیزل اور پیٹرول کے بغیر ہم گاڑی نہیں چلا سکتے۔ یہ بات خواندہ ٹرک ڈرائیور جانتے ہیں اور ہوائی جہاز چلانے والے پائلٹ بھی جانتے ہیں۔ جب کسی بات کو مستحکم سمجھا جاتا ہو، تب اس بات سے سوچ سمجھ کر چھیڑ چھاڑ کرنی چاہئے۔ سبق آموز حکایت میں ہم سب کے لیے تنبیہ پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ، مستحکم روایتوں سے انحراف کے نتائج ڈراؤنے ہوتے ہیں۔ آپ ہوتے ہوئے نہیں ہوتے۔ دِکھنے کے باوجود آپ دکھائی نہیں دیتے۔
پڑوسیوں کے بارے میں آپ نے اچھے لوگوں کی اچھی ہدایتیں یعنی ہدایات سنی ہوں گی۔ مثلاً، اپنے میوزک ڈیک پر رات گئے دیر تک اونچی آواز میں موسیقی سے لطف اندوز ہونے سے گریز کریں۔ ہوسکتا ہے کہ پڑوس میں کوئی شخص بیمار ہو! ہوسکتا ہے کہ آپ کے پڑوس میں طالب علم امتحان کی تیاری کر رہے ہوں! ہوسکتا کہ بچے ہوم ورک کر رہے ہوں!ٖ عین ممکن ہے کہ آپ کی پسندیدہ موسیقی آپ کی ہمسائیگی میں کسی کو اچھی نہیں لگتی ہو! ہمارے چھوٹے پن کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم اپنی پسند کو معرکتہ الارا سمجھتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ایک صاحب خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ استاد بڑے غلام علی خان کے آواگون یعنی Reincarnation ہیں۔ کہتے پھرتے تھے کہ وہ استاد بڑے غلام علی خان کا دوسرا جنم ہیں۔ بہت برا گاتے تھے۔ وہ الاپ لگاتے تو لوگ بھاگ کھڑے ہوتے ایک مرتبہ ایک بدبخت بوڑھا گویے کے ہتھے چڑھ گیا۔ گویے نے بوڑھے کو کرسی پر بٹھا کر رسی سے کس کر باندھ دیا اور رات بھر ٹھمری، دادرا اور راگ درباری بوڑھے ناتواں کو سناتا رہا۔ پُوپھٹنے کے قرب گویے نے بوڑھے ناتواں کی رسیاں کھول دیں۔ بوڑھے نے کرسی سے اٹھتے ہوئے جمائی لی اور پھر کان پر ہاتھ رکھ کر الاپ لگائی، میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کہاں جارہا ہوں۔ میں آیا نہیں، میں لایا گیا ہوں۔ میں کہاں جارہا ہوں۔ بدبخت بوڑھا آج تک پوچھتا پھر رہا ہے، میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کہاں جارہا ہوں۔ گویے کا رویہ مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔ اگر آپ خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ آپ بہت اچھا گا سکتے ہیں، تو پھر پڑوسیوں کو عذاب میں مبتلا کرنے کی بجائے آپ باتھ روم میں گایا کریں۔ خود کو اچھا پڑوسی ثابت کریں۔ اس کے علاوہ اچھے پڑوسی کی کئی نشانیاں ہیں۔ ایک اچھا پڑوسی تب تک چین کی نیند نہیں سو سکتا جب تک اسے یقین نہیں ہوجائے کہ ہمسائے کا چولہا جلا تھا، کھانا کھایا تھا۔ تب جاکر ایک اچھے پڑوسی کو نیند آتی ہے۔ پڑوسی کو خوش دیکھ کر ایک اچھا پڑوسی خوش ہوتا ہے۔ پڑوسی کا دکھ دیکھ کر اچھا پڑوسی غم سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہمسائے کی مدد کرنے کے لیے ایک اچھا پڑوسی ہر وقت تیار رہتا ہے۔ وہ سازوسامان لے کر ہمسائے کے دروازے کے باہر کھڑا رہتا ہے۔ بلند بانگ اپنے ہمسائے سے کہتا رہتا ہے کہ بھائی میں تمہارا پڑوسی، مصیبت کی اس گھڑی میں تمہاری مدد کرنے آیا ہوں۔اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ایک خوشحال پڑوسی اپنے مفلس اور آشفتہ حال ہمسائے کی مدد کرنے کیلئے کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔ وہ بڑھ چڑھ کر اپنے تباہ حال ہمسائے کی مدد کرتا ہے۔ اب آپ ایک ایسے اچھے پڑوسی کے بارے میں سوچئے جو مصیبتوں میں گھرے ہوئے اپنے تباہ حال ہمسائے کی دل و جان سے مدد کرنا چاہتا ہے، مگر وہ خود دنیا بھر کے مالی اداروں اور دولتمند ممالک کا مقروض ہے۔ اتنی سی بات سمجھنے کیلئے ایک مقروض اور مصیبتوں میں گھرا ہوا رحمدل پڑوسی اپنے خستہ حال ہمسائے کی کیوں کر مدد کرسکتا ہے؟ اس کیلئے کسی کو یونیورسٹی سے اقتصادیات Economics میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سادہ سی بات ہے، سمجھ میں آتی ہے۔ رحمدل مقروض پڑوسی اپنے لیے دنیا بھر سے قرض اور امداد مانگنے میں ماہر ہوچکا ہے۔ اب وہ اپنے ساتھ اپنے خستہ حال ہمسائے کیلئے بھی دنیا بھر سے قرض اور امداد مانگتا پھرے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply