عوام کی رزالت کے اسباب۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سوال کیا جاتا ہے کہ قوم وقت آنے پر “دشمن” کے خلاف متحد ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے تو قوم کا بیشتر حصہ ہمہ وقت کیوں عسرت، نابرابری، عدم تحفظ، ناانصافی اور معاشی و معاشرتی پسماندگی سے دوچار ہے؟ ان کے اس کرب و اندوہ کا ذمہ دار کون ہے؟ اور یہ کہ کیا کوئی ایسا ہوگا جو ان کے آنسو پونچھ پائے گا، ان کے آلام رفع کر سکے گا؟

بیرونی دشمن کے خلاف لوگوں کے متحد ہو جانے کا سبب زیست کو خطرہ ہوتا ہے مگر قوم کو زیست کا خطرہ متحد نہیں کیا کرتا وہ ازلی طور پر اور یکسر متحد ہوتی ہے تبھی قوم کہلاتی ہے۔ عارضی خوف سے تو جنگل کے بھینسے بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور مل کر شیر کو سینگوں پر ترازو کر لیتے ہیں، جن میں شعور نہیں ہوتا محض تحفظ وجود کی جبلت ہوتی ہے۔ انسان جو بے حد باشعور مخلوق ہے جسے اس کے بالیدہ شعور نے مل جل کر معاشرتی گروہ ترتیب دیے جانے کی راہ دکھائی ہے، عہد جدید میں گروہی مفادات بھی رکھتا ہے۔ جب گروہی مفادات تک رسائی نہ ہونے دی جائے، اعراض برتا جائے یا جائز مفادات کے حصول کی تگ و دو میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں تو متنوع اور متضاد گروہ مل کر کے قوم تشکیل نہیں دے سکا کرتے۔

رہنماؤں اور رہنما جماعتوں سے امید اور توقع ضروری نہیں کہ مستقل ہوتی ہو، ایک وقت کی جذباتی وابستگی مایوسی کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے پہلے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں بسنے والوں نے مسلم لیگ کو یکسر مسترد کر دیا تھا جبکہ مسلم لیگ کی بنیاد ڈالنے والے بنگالی زعماء تھے اور مسلم لیگ بنگال میں ہی پروان چڑھی تھی۔ 1936 میں مسلم لیگ کی واحد اور اکثریت کی حامل حکومت بھی بنگال میں ہی قائم ہوئی تھی۔

انسانی دماغ مقلد اور مقتدی کی سوچ رکھتا ہے۔ انسانوں کو قائدین اور رہنما جماعتوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ جنگلوں میں بھی گروہی زندگی بتانے والے جانور اپنے میں سے کسی قوی اور جارح جانور کی قیادت کو قبول لیتے ہیں۔ مگر چونکہ انسان جانور نہیں ہے یعنی باشعور جاندار ہے چنانچہ وہ قوی اور جارح کی بجائے سنجیدہ اور بردبار اشخاص کو اپنا رہنما منتخب کرنا پسند کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بظاہر سنجیدہ اور بردبار رہنما قوی اور جارح افراد یا اداروں کی قیادت کے سامنے بچھ جائیں۔

پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1954 میں ہوئے تھے۔ بڑی مشکل سے 1956 میں پہلا آئین منظور ہو پایا تھا جس پر اگرچہ یکسر اتفاق ناپید تھا کیونکہ اس میں پاکستان کو بانی پاکستان کی 11 اگست 1947 کی تقریر میں بیان کردہ اصولوں کے برعکس ایک اسلامی ریاست قرار دیا گیا تھا جس کا صدر یا وزیر اعظم کوئی غیر مسلم شہری نہیں ہو سکتا۔ یہ قوی اور جارح افسر شاہی کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ملک میں بنیادی انسانی حق یعنی برابری کی پہلی نفی تھی۔

امتیاز کی کوئی بھی شکل اگر قانونی طور پر راسخ کر دی جائے تو امتیاز کے دوسرے منابع چاہے وہ مذہبی گروہوں کے درمیان افتراق پر مبنی ہوں یا گروہی یعنی قومیتی تفریق کا بیج بویا جانا ہو، کو زائل کیا جانا ممکن نہیں رہتا۔

ملک پاکستان بننے سے پہلے نوآبادکاروں نے تفرقے کی بنیاد پر حکومت کی تھی جس کے لیے “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ملک بننے کے بعد چونکہ سیاستدان خود کو رہنما بنا پانے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے چنانچہ انگریز کی پروردہ افسر شاہی نے اسی اصول کو کسی اور رنگ میں اپنائے رکھا اور لوگوں کو مختلف بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا رہا۔ اس افتراق کو تمام کرنے کا دعویٰ لے کر 1958 میں فوج نے ملک چلانے کی گاڑی پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور نہ ہی اتنا زیادہ عرصہ بیتا ہے کہ سب قصہ پارینہ بن کر کے رہ جاتا۔

لوگ کج فکر اور خام سیاستدانوں کی باتوں کے جھانسے میں آتے تو انہیں منتخب کر لیتے، جب ان کے کیے گئے زبانی وعدے پورے نہ ہوتے تو وہ فوج کی جانب دیکھتے، جب فوج برسر اقتدار آتی تو اسے نہ صرف خوش آمدید کہتے بلکہ خوشی کے شادیانے بجاتے۔ جب فوج سے بھی کچھ نہ مل پاتا تو اس کے خلاف اور سیاستدانوں کے ساتھ مل کر سراپا احتجاج بن جاتے۔

اسطرح 69 برس کے دورانیے میں عوام کے لیے سہولتوں کا کوئی در وا نہ ہو پایا۔ انفراسٹرکچر کا فقدان، حکام کی عدم توجہی، سیاسی حکومتوں کو گاہے بگاہے پامال کیے جانے سے عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ نہ ہوسکا یوں سماجی شعور بھی بالیدہ نہ ہو پایا۔

اب تو معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ تعلیم اور صحت جو کسی بھی قوم کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے لازمی جزو ہیں، تک عام لوگوں کی رسائی بہت مشکل ہو چکی ہے۔ جب علم ہی دستیاب نہ ہو تو انسانی ضرورتوں کی تکمیل سے متعلق انسان کیا سوچ پائے گا۔ ایک طرح کی آپا دھاپی ہے کہ جسے جو سہولت جس طرح ہاتھ لگ جائے وہ اسے اسی طرح حاصل کر لے، باقی لوگ جائیں بھاڑ میں۔

نجی تعلیمی ادارے ہوں یا نجی طبی لیبارٹریاں، ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہو یا کوئی اور سب کے سب کاروباری کارٹل بن چکے ہیں، سب کو کمانے سے غرض ہے۔ معیار صرف وہاں تک محدود ہے جہاں معاوضہ بھاری ہو۔ کل ہی ایک بڑی لیبارٹری کے مالک ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ایسی مشینوں سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے جن کی قیمت دو گنا کم ہو اور جنہیں چلانے کے لیے آٹھ آدمیوں کو روزگار بھی مل سکے مگر طبی مشینری بیچنے والے ہمیں بدنام کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس تو جدید مشینیں ہی نہیں ہیں، یہ بھلا کیا درست ٹیسٹ کریں گے، یوں ان کے مطابق جو کام لوگوں کے لیے پانچ سو روپے میں ہو سکتا ہے وہ پانچ ہزار روپوں میں ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قانون اول تو ناقص ہیں دوسرے قانون کی بالا دستی نہیں، تیسرے عوام کو دال روٹی کے فکر سے نجات نہیں مل پاتی۔ یوں وہ پھر کسی اور کو ملجٰی و ماؤٰی سمجھنے کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔ جب اس سے مایوس ہونگے تو ایک بار پھر قوی اور جارح کی جانب دیکھیں گے جو انہیں شیر سے بچا سکے۔ اس گھن چکر سے عوام کو خود نکلنا ہوگا۔ مسلسل انتخابی عمل نہ صرف عوام کے شعور کو صیقل کرے گا بلکہ حکام کو بھی مائل کرے گا کہ وہ اپنے ووٹروں کو جانور کی بجائے انسان سمجھ کر ان کے باڑوں کو ہاؤسنگ کالونیوں کی شکل دیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply