• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ جانے والے اقوالِ زریں اور ان پہ تبصرہ ۔۔۔۔۔کاشف حسین سندھو

پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ جانے والے اقوالِ زریں اور ان پہ تبصرہ ۔۔۔۔۔کاشف حسین سندھو

“ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی ” (سکیورٹی اداروں کو یہ سمجھانے  کی شدید ضرورت ہے کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ باقاعدہ زمینی سرحدوں کی حفاظت بهی بہت ضروری ہے میرا خیال ہے کہ چونکہ انہیں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی اس لیے وہ بھولے بادشاہ نظریاتی سرحدوں کی ہی حفاظت کیے جا رہے ہیں اور زمینی سرحدیں خدا کے آسرے پہ چوپٹ کهلی چهوڑ رکهی ہیں کوئی آئے کوئی جائے اللہ کے ان ولیوں کو اسکی کوئی خبر ہی نہیں حالانکہ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، کوئی بهی شخص ان اداروں کے چیف جو دارالحکومت کے آس پاس کہیں رہتے ہیں انکے کان میں صرف یہ کانا پهوسی کر دیں  کہ جناب ملکی سرحدوں پر کوئی موجود نہیں تو وه یقیناً توجہ  کریں گے بے خبری کے باعث انکا بهی کیا قصور ؟

بے خبری کے باعث ہمہ قسم مال اسمگلنگ دہشت گرد جنہوں نے ابهی تک صرف ستر ہزار جانیں ہی لی ہیں اندر گهس آتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں امید ہے کہ ان سرحدوں کو بهی جلد ہی دیکھ لیا جائے گا یا انہیں سرے سے ہی مٹا کر یہ رنڈی رونا ختم کر دیا جائے گا ،نہ  رہے گا بانس ،نہ  بجے گی بانسری۔

ویسے بهی چاروں اطراف مسلم ممالک یا انکی کثرت ہے ، مسلمان مسلمان کا بهائی ہوتا ہے اور یہ ملک قائم بهی چند نامعتبر اشخاص کے بقول اسلام کے نام پہ ہوا ہے  تو ایسے میں انکے بیچ سرحدیں قائم کرنا تو بہت غیر اخلاقی لگتا ہے۔

“بهارت کی کنٹرول لائن پہ بلا اشتعال فائرنگ،
جوابی فائرنگ میں کئی بهارتی مورچے تباه،
دشمن کی گنیں خاموش کرا دی گئیں “۔۔۔۔
اس خبر پہ تبصرہ کرنا گویا “آ بیل مجهے مار ” والی بات ہے اور مجهے اسکے سچے ہونے میں ویسے بهی کوئی شبہ  نہیں ہے ،ایسے ہی منہ کا ذائقہ بدلنے کو کہہ رہا تھا کہ مدت سے یہی تین لائنیں سن سن کر کان پک گئے ہیں، ایڈیٹر سے درخواست ہے خبر بهلے وہی رہنے دے  مگر الفاظ بدل دے تاکہ بوریت نہ ہو ۔۔۔۔نمونے کے لیے ملاحظہ ہو۔
“بهارت کی کنٹرول لائن پہ اشتعال میں آ کر فائرنگ
چند کشمیری مر مرا گئے ہیں فکر کی کوئی بات نہیں اللہ کا مال تها وه لے گیا آپ اور میں اس میں کیا کر سکتے ہیں۔۔۔بهارتی فائرنگ سے کچھ نقصان ہمارا بهی ہوا ہے  مگر ظاہر ہے  کہ جنگ میں یہ ہوتا ہی ہے  جو لڑنے کو گئے ہیں انہیں اسی کام کے لیے بهرتی کیا گیا تھا انہوں نے کون سا وہاں دو دونی چار کا پہاڑه یاد کرنا تها
باقی سب خیر ہے ۔

“قانون سے ماورا کوئی نہیں ”
یہ فقره کہنے والے کو خود بهی اس پہ یقین نہیں ہوتا یہ بات پکی ہے۔
بات اسکے منہ سے ادا ہوتے ہی سننے والا سمجھ جاتا ہے  کہ لو جی بونگی وج گئی جے۔۔
جب بهی یہ فقره کسی حکومتی عامل کے منہ سے پریس کانفرنس میں ادا ہوتا ہے  جو کہ عموماً وزیر داخلہ ہوتا ہے، کئی بدتمیز صحافی منہ پهاڑ کر ہونقوں کی طرح ہنسنے لگتے ہیں کئی تو ہنسی پہ قابو پانے کے لئے واش روم کا رخ بهی کرتے دیکھے  گئے ہیں ،پوچھنے پر یہ بتاتے ہیں کہ یہ وه  لطیفہ  ہے  جس کی تازگی ہمیشہ برقرار رہتی ہے  اور ہمیں جب شدید قسم کے ڈپریشن کا سامنا ہو تو ہم اس بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ سن کر اسے بهگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

“قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی ”
خدا کی پناه۔۔۔
جس قدر یہ فقره گهس چکا ہے، کیا کسی کی نیکر بنیان بهی گهسی ہو گی۔۔۔
کچھ شوخ مشٹنڈے جو حکومتی وزراء کے قریب رہتے ہیں رازداری سے یہ بتاتے ہیں کہ “قانون “اور جسے “ہاتھ میں لینا ہے  ” سے مراد حکومت کے نزدیک ہرگز وه نہیں جو آپ سمجھ لیتے ہیں یہ کچھ ایسی چیزیں اور عمل ہیں جن کا بیان فحاشی کے زمرے میں آتا ہے  اور ناقابلِ تذکره ہے، ویسے آپس کی بات ہے  جس نے “قانون ہاتھ میں لینا ہے” اس کمینے نے کبهی اجازت کی ضرورت نہیں  سمجھی  اور بلا اجازت یہ کام کرتا رہا ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت کے ممکنہ انتباه کے بعد وه ضرور اجازت کی زحمت گوارا کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

“را کی سازش ناکام بنا دی گئی ”
را کا عمل دخل بذریعہ سازش اس ملک میں اتنا ہے  کہ اب اپنی اپنی سی لگنے لگی ہے۔
ہر وه نکمی حرکت جس کی کوئی معقول وجہ  سمجھ  نہ  آ رہی ہو یاد رکهیے گا کہ یقیناً  را کی سازش ہی ہو گی۔
اس بیان کا فائدہ یہ ہے  کہ یہ کہنے کے بعد حکومتی اعمال کے  تمام فرائض سے جان چهوٹ جاتی ہے ۔ اب را پیا جانے تے وا پیا جانے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply