میاں صاحب اور عدالت

میاں صاحب اور عدالت
عامر ہزاروی
ساٹھ دنوں کے بعد کیا ہو گا قطع نظر قانونی معاملات کے تین باتیں پیش نظر رہیں
کل تک کچھ لوگ کہتے تھے کہ ماضی میں میاں صاحب کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آیا مستقبل میں بھی کوئی فیصلہ نہیں آئے گا ۔۔۔۔
آج کے فیصلے کے بعد وہ جان لیں کہ وقت بدل چکا ہے۔۔۔۔
ماضی میں میاں صاحب کے خلاف فیصلہ نہ آنے کی تین بڑی وجوہات تھیں جو اب ختم ہو چکی ہیں۔۔۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت میاں صاحب کے سر پہ عسکری اداروں کا ہاتھ تھا میاں صاحب عسکریوں کے چہیتے تھے سب جانتے ہیں کہ عدلیہ ماضی میں ملٹری کے دباؤ تلے ہوتی تھی، عدلیہ اور عسکری مل کے فیصلہ کیا کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ عدلیہ اور عسکریوں سے نقصان اٹھاتی رہی اور میاں صاحب محفوظ تھے۔ اب ایسا نہیں رہا اب میاں صاحب اس جگہ کھڑے ہیں جہاں کبھی پیپلزپارٹی کھڑی تھی۔اب میاں صاحب کے سر سے عسکریوں نے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کافی حد تک آزاد ہو چکی ہے اب جج نہ سیاسی دباؤ میں آتے ہیں اور نہ عسکریوں کے دباؤ میں۔ ہماری عدلیہ نے افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد جو آزادی حاصل کی اسے برقرار رکھنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کا علم ججز کے علاوہ کسی کو نہیں تھا سرکاری ادارے اور انکے نمائندہ اینکر اور نمائندہ سیاستدان بھی بے خبر رہے۔ سبھی تکے لگاتے رہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ماضی میں صرف پی ٹی وی ہی ہوتا تھا،صحافیوں کو آزادی بھی میسر نہیں تھی۔ججز پہ حملے کا خطرہ ہوتا تھا۔ اب صبح شام ہمارا میڈیا آزادی کا لطف اٹھاتا ہے یہ میاں صاحب کے لتے لیتا ہے اب ججز پہ حملہ بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ پہ حملہ ہو جائے اور کسی کو خبر نہ ہو۔
آج اگر دو ججوں نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے میاں صاحب کو نااہل کہا ہے تو ججز نے ماضی کی روایات کو توڑا ہے
ساٹھ دنوں کے بعد جو کچھ ہو گا وہ نوشتہ دیوار ہے۔ عزت اسی میں ہے کہ میاں صاحب چپ کر کے گھر چلے جائیں اور وزارت عظمٰی مریم نواز کے حوالے کر دیں۔ ورنہ آثار بتا رہے ہیں کہ
بات دور تلک جائے گی اور لوگ بھی رسوائی کا سبب پوچھیں گے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply