کون الیاس گھمن؟ میں تو مولوی کو جانتا ہوں ۔۔۔ عمیر اقبال

گزشتہ کئی روز سے مختلف سائٹس پر مولوی الیاس گهمن کا قضیہ رونما ہے، اس میں کتنی حقیقت کتنا افسانہ ہے وللہ اعلم..!!! پر آئے روز کی طرح یہ معاملہ انتہائ سنگین اور گھمبیر صورتحال کی طرف چلتا جارہا ہے۔

ایک طرف مشہور و معروف مولوی الیاس گهمن صاحب جیسی شخصیت ہے تو دوسری طرف مفتی زین العابدین رحمہ اللہ جوکہ دنیا کے مشہور و معروف خاندان حسنی سید سے تعلق رکھتے ہے، پھر یہ جس خاتون کا معاملہ ہے وہ انہیں کی لائق اور چہتی بیٹی ہے، بلکہ فیصل آباد کی تبلیغی جماعت کی امیر بھی ہے-

یہ معاملہ شاید تین چار سال پرانا ہے جس میں مولوی الیاس گهمن صاحب کو برا بھلا کہا جارہا ہے، اور معاملے کی خبر مجھے گزشتہ دو روز پہلے ایک سائٹ پر آنے والی تحریر سے ہوئ –

غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ تم نے صرف مولوی اور مولویوں سے اپنی نفرت نکالنے لیے ایک بچی، ایک خاندان اور تین نسلیں تباہ کر دیں، میں انسانی شرافت ہونے کے ناطے ایسی گھٹیا تحریر پڑھنے کی اجازت ہی نہیں دیتا اور لکھنے والے نے پتہ نہیں کیسے لکھ دیا، جناب رشتوں کا بھی کوئی تقدس ہوتا ہے –

کیا تم مشرکین مکہ سے بڑے ظالم ہو وہ تو صرف زندہ درگور کر دیتے تھے تم نے تو اسے پل پل درگور کر دیا، تمہیں بس لفظوں کی کمائی کها کر اپنی تعریف میں دو چار واہ واہ کے جملے گھڑنے ہیں، بھلے اس سے کسی کی پگڑی اچھلے یا عزت خاک میں مل جائے، تمہیں تو بس اپنے منہ بولے ” آقاؤں ” سے تعریفی نمبروں کی خواہش ہے، بھلے تم نے اس گندی سازش سے مولوی گهمن صاحب اور مفتی زین العابدین رحمہ اللہ اور اس معصوم حوا کو اپنے مکروہ ترین اسلام دشمن ذہنیت اور نفرت کا نشانہ بنایا ہو، مگر میں تو بس مولوی کو جانتا ہوں بس مولوی کو ۔

ہاں اس مولوی کو جو گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے عوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک، اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا، اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی ۔

اس مولوی ملّا نے ہی اس کی راکھ کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا، دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک مولوی کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھا ہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتا ہے ۔

یہ مولوی ملا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں۔ برِّصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً مولوی ملا کے اس احسانِ عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ نکاح اور جنازے کا مسئلہ ہو تو تمسخر اڑانے والوں کے لہجوں کا سارا جھاگ بیٹھ جاتا ہے، انگلیاں ٹیڑھی کر کر کے مذاق اڑانے والے منہ جھکا کر مولوی صاب مولوی صاب کر رہے ہوتے ہیں اور یہ اسی مولوی ملا کا ظرف ہے کہ اس نے معاشرے کے ان نابالغوں کی نادانیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں، وہ انمول ہے۔ یہ وہ کارنامے ھیں جسکا تعلق ہر عام و خاص سے ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply