بتان رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا

دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس سے پوری دنیا متاثر ہے ۔اگر لندن میں ایوان پارلیمان کے پاس دہشت گردی ہوتی ہے تو مسلم ممالک کے کسی حصے میں بھی دہشت گرد اپنا وار کرگذرتے ہیں ۔دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اس کے پیچھے کیا کچھ عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گا کہ کسی بھی مذہب میں اس طرح کی شدت پسندانہ تعلیمات نہیں ہیں ۔اسلام تو ہے ہی امن وسلامتی کا دین ، جس میں پانی جیسی نعمت کوبھی ضائع کرنے سے روکا گیا ہو وہ خون بہانے کی اجازت کس طرح سے دے سکتا ہے ۔یہ ایک عالمی پروپیگنڈہ ہے جس میں جان بوجھ کر اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے ۔اس وقت پوری دنیا میں مسلم امہ سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکارہے ۔
کہیں فرقہ واریت کو ہوا دے کر دہشت گردی کروائی جارہی ہے اور کہیں دہشت گردوں کو دشمن ممالک امداد فراہم کرکے مسلم امہ کا خون بہا رہے ہیں ۔یمن و شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ایسے میں مسلم ممالک کے اتحاد کی داغ بیل کو ڈالا جانا اور اس کے عملی اقدامات کی طرف بڑھنا یقیناًخوش آئند بات ہے ۔
پاکستانی افواج کے ریٹائرڈ آرمی چیف راحیل شریف کو اسلامی ممالک کے اتحاد کی سربراہی کے لئے این او سی جاری کردیاگیا ہے لیکن کچھ سیاسی گماشتے ، تجزیہ نگار اور معلومات سے نابلدعناصر اس بات کو فرقہ وارانہ عینک سے دیکھتے ہوئے اس پر بے سروپا اعتراضات کررہے ہیں ۔پاکستانی قیادت اس سلسلے میں وضاحت دے چکی ہے کہ یمن میں جاری کشمکش میں پاک فوج حصہ نہیں لے گی ہاں اگر سعودی عرب اور مقدس مقامات کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے توپاکستان مقدس ترین فریضہ سمجھ کر اس کا دفاع کرے گا۔اس وقت 39ممالک اس اتحاد میں شامل ہوچکے ہیں جن میں ایران کے قریبی سمجھا جانے والا ملک اومان بھی شامل ہے ۔پاکستان اور ایران کو لے کر کچھ لوگ خوامخواہ واویلا کررہے ہیں جبکہ ایران پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت کے ساتھ ماضی وحال میں معاہدے کرتارہا ہے اور بھارت کے ساتھ ایران کا رویہ خاصا دوستانہ ہے۔ جسے یہ لبرل وناہنجار لوگ ڈپلومیسی وناگزیر وجوہات کا نام دے کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔ہر ریاست کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے جس میں انہوں نے قومی سلامتی کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔
مسلم ممالک کی اکثریت سنی ہے اور چند ایک ممالک شیعہ ہیں لیکن او آئی سی میں سنی و شیعہ ممالک موجو د ہیں ۔بات یہاں صرف یہ ہے کہ سعودی قیادت میں بننے والا مسلم ممالک کا اتحاد ان کو قبول نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ اسے متنازعہ بنانے کی تگ ودو میں بڑی شدت سے لگے ہوئے ہیں ۔سعودی عرب میں حرمین شریفین کی موجودگی اس کو پوری دنیا سے ممتاز کرتی ہے جس کی وجہ سے عالم اسلام کی خاص توجہ سعودی عرب کے حالات وواقعات پر ہوتی ہے ۔مسلم ممالک کے ملٹری اتحاد سے پہلے مسلم امہ میں ایک اضطراب کی کیفیت تھی کہ ہمیں متحد ہونا چاہئے۔دہشت گردی کے عفریت کو مسلم ممالک سے باہر نکالنے اور اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لئے ہمیں پھر سے ایک ہونا چاہئے ۔ لیکن جیسے ہی اسلامی ملکوں کے اتحاد کی بنیاد ڈالی گئی کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوئے ۔سعودی قیادت اس بات کی وضاحت کرچکی ہے کہ اس اتحاد کا مقصد دہشت گردی کے خلاف ایک فورم پر اکٹھے ہونا اور اسلامی ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا خاتمہ کرنا ہے ۔اس اتحاد کا طریقہ کار وضع ہورہا ہے لیکن طے شدہ بات یہی ہے کہ فیصلہ سازی کونسل آف ڈیفنس منسٹرز کرے گی ناکہ حکمران۔معلومات کے مطابق ایرانی سفیر اس اتحاد کے متعلق پاکستانی حکام سے ڈسکس کرچکے ہیں اور اب تک کی پیش رفت سے وہ آگاہ بھی ہیں۔پاکستان ماضی میں بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالات کو نارمل کرچکا ہے ۔میرے خیال سے پاکستان کی وجہ سے ایران بھی مستقبل میں اس اتحادکا حصہ بن سکتا ہے۔پاکستان کو اس اتحاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی جانب گامزن ہونا ہے جس کی مستقبل قریب میں اشد ضرورت ہے ۔تاکہ خارجہ پالیسی کو بہتری کی جانب گامزن کیا جاسکے۔
ہم جب تک متحد رہے دنیا میں ہمارا رعب ودبدبہ قائم رہا ،توحیدجب تک ہمارے سینوں میں رہی ہم دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے رہے ، جہاد کی اصل روح جب تک قائم رہی اسلام کے خلاف سازشیں پنپ نہ سکیں اورباہمی اختلافات کے باوجود جب تک ہم ایک ہی صف میں کھڑے رہے دشمن ہمیں فرقوں میں نہ بانٹ سکا ۔ آج ہم قومیت ، لسانیت ،فرقو ں ،قبیلوں اور سرحدوں میں بٹے ہوئے مسلمان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم ملک کا مسئلہ دوسرے کا مسئلہ بالکل بھی نہیں ہے اور بعض اوقات تو مسئلے کی جڑ مسلم ملک سے جڑی ہوتی ہے ۔اسلام دشمن قوتیں اسلام کا اصل چہرہ دہشت گردی سے جوڑنے کی سرتوڑ کوشش میں مصروف ہیں، جہاد جسے امن کی ضمانت کہا جاتا ہے ،آج دہشت گردی کا ضامن بنا دیا گیا ہے ۔داعش وتحریک طالبان پاکستان جیسی اسلام دشمن تنظیمیں اسلام کا نام لے کر دہشت گردی کررہی ہیں ۔اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اللہ اکبر والوں کوچیتھڑوں میں بدلا جارہا ہے ۔بھارت، کشمیر، فلسطین ، برما ، یمن ، شام ، عراق، افغانستان سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف نت نئے ظلم کے طریقے آزمائے جارہے ہیں ۔
ایسے میں اگر کسی طرف سے مسلم ملکوں کو جوڑنے اور باہمی اتحاد کی بات ہورہی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ہمیں ملت واحد بننا ہوگا ،سبھی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اس کوشش میں ہمیں اپنا کردار اداکرنا ہوگااور دنیا کو باورکروانا ہوگا کہ ہم مسلمان ایک ہیں ۔ سعودی عرب ودیگر ممالک کا شکریہ کہ انہوں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کلمہ گو ممالک کو ایک لڑی میں پرونے کی عملی کوشش شروع کی ہے ۔اب اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے بغیر بیٹھنا کروڑوں مسلمانوں کی امیدیں ختم کرنے کے متراد ف ہوگا ۔

Facebook Comments

محمد عتیق
"سعودی عرب کے اردواخبار "اردونیوز" میں کالم لکھتے ہیں اور کالم نگاروں کی تنظیم پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری ہیں ۔فیصل آباد سے تعلق ہے ۔تعلیم ابھی جاری ہےویسے ایم ۔اے کی ڈگری پاس رہتی ہے اور مزید ڈگریوں پر کوشش جاری ہے ۔" فیس بک رابطہ https://www.facebook.com/AtiQFsd01 ؎ قلم اٹھتا ہے تو سوچیں بدل جاتی ہیں اک شخص کی محنت سے ملّتیں تشکیل پاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply