پرانے کالم شریف سے ایک اقتباس شریف۔۔۔آصف محمود

روز صبح دفتر جاتے دل لہو سے بھر جاتا ہے۔سیدنا عمر یاد آتے ہیں: ’لوگوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا ہے تم نے انہیں غلام کیسے بنا لیا‘۔

مری روڈ پر بنے فلائی اوورسے گزرتے وقت انکشاف ہوتا ہے کہ اس کا نام ’ شہباز شریف فلائی اوور‘ہے۔اس سے اتریں تو بائیں ہاتھ پر ایک پارک ہے اس پر نگاہ پڑتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اسے ’ نواز شریف پارک‘ کہتے ہیں۔نواز شریف پارک سے میں الٹے ہاتھ ٹرن لیتا ہوں تو دائیں جانب ایک سپورٹس کمپلیکس ہے اس کا نیا نام ہے ’ شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس‘۔اس کمپلیکس سے چند قدم آ گے پنڈی کی فوڈ سٹریٹ ہے جس میں سری پائے تو نہیں ملتے لیکن اس کا نام ’ نواز شریف فوڈسٹریٹ‘ہے۔آج شام اس فوڈ سٹریٹ ، معاف کیجیے گا ، نواز شریف فوڈ سٹریٹ پر گجرات یونیورسٹی کی ایک گاڑی کھڑی نظر آئی ،قریب سے دیکھا تو اس پر لکھا تھا’’ نوا زشریف میڈیکل کالج‘‘۔واقعی بدلنے والوں نے سارا پنجاب بدل دیا ہے اور اب عزم یہ ہے کہ بدلیں گے پاکستان۔خدا خیر ہی کرے۔اب ایک راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم بچا ہوا ہے ،میرے دوست حنیف عباسی مناسب سمجھیں تو اس کا نام ایفی ڈرین کرکٹ سٹیڈیم رکھا جا سکتا ہے۔اچانک یاد آتا ہے میرے آبائی شہر سرگودھا میں بھی نواز شریف انٹر کالج اور نواز شریف ڈگری کالج قائم ہو چکے ہیں۔آج تو مجھے گلاب دیوی اور گنگا رام جیسے لوگوں پر باقاعدہ ترس آ رہا ہے۔اپنے پلے سے پیسے خرچ کر کے انہوں نے ادارے بنائے حالانکہ خواجہ آصف صاحب کی طرح سرکاری اداروں کا نام بھی باپ کے نام پر رکھا جا سکتا تھا۔جتنے پیسے گنگا رام اور گلاب دیوی نے ہسپتال بنانے پر لگائے اتنے پیسے خرچ کر کے کسی شاہ کے مصاحب بن گئے ہوتے تو ایسے درجنوں ہسپتال ان کے اور ان کے اباحضور کے نام پر وجود میں آ چکے ہوتے۔ روزصبح جب دل لہو سے بھر جاتا ہے، سوالات ہجوم کرتے ہیں اور من کا بے چین برہما مجسم سوال بن جاتا ہے: نون غنوں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ سماج کے گلے میں ’ خاندانِ شریفاں‘ کی غلامی کا طوق ڈال دیں؟

میرے ’لیپ ٹاپ شریف ‘کی بیٹری ختم ہو رہی ہے اور میں ’موٹر وے شریف‘ پر’ سرگودھا شریف ‘جا رہا ہوں۔’کلر کہار شریف ‘ریسٹ ایریا میں اس وقت’ لود شیڈنگ شریف‘ کا غلبہ ہے اس لیے میں’ کالم شریف‘ کو یہاں تمام کرتا ہوں۔کل انشاء اللہ واپس آ کر’ فوڈ سٹریٹ شریف‘ میں’ کھانا شریف‘ کھائیں گے۔

شرافت کی سیاست زندہ باد۔

شرافت کی صحافت پائندہ باد۔

(14اپریل،2013 کو شایع ہونے والے کالم کا ایک اقتباس.

Advertisements
julia rana solicitors

وہی احمد فراز کی بات نہ نہ ہمارے حالات بدلتے ہیں نہ ہماری نظمیں پرانی ہوتی ہیں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply