مہنگائی کا رونا/عبدالرؤف

ہم پاکستانی اس وقت بہت سے مسائل سے دو چار ہیں جس میں سر ِفہرست مہنگائی کا نہ تھمنے والا  طوفان ہے۔ جس نے پوری قوم کو اک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پوری قوم مہنگائی کے اس آسیب سے ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہے۔ جو شخص مہینے کے  15000 سے 20000 روپے کما کر اپنے پورے ٹبر کو کھلاتا تھا۔ اب اس کے لیے یہ اک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
جو آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کر کے سکون سے گھر لوٹ کر اپنے بچوں کو وقت دے پاتا تھا اب وہی شخص کوشش کرتا ہے کہ مزید کام کر کے پیسے کماؤں تاکہ گزر بسر ممکن ہوسکے۔
اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جو خواتین گھروں سے بِلا ضرورت نہیں نکلتی یا وہ باہر کسی فیکٹری ،کارخانے ،ادارے ،مِل میں کام نہیں کرنا چاہتی تو ایسی خواتین نے گھر میں ہی لوگوں کی اشیائے ضرورت کی چیزیں رکھ دیں ، اور محلے کے بچے اور خواتین نے وہاں سے خریداری شروع کردی۔

اور بہت سی خواتین جو کچھ پڑھی لکھی ہیں انھوں نے گھر سے باہر فیکٹری کارخانوں میں جاب حاصل کرلی تاکہ گھر کا گزر بسر چل سکے۔آسائش کے اس دور میں بھی جہاں ہر چیز کی فراوانی ہے اور ہر چیز ہر وقت دستیاب ہے ۔ اب وہ غریب طبقے کے لیے ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔
اب لوگوں نے خود کو محدود کرنا شروع کردیا ہے، کیونکہ مہنگائی کے اس ہوشربا طوفان نے لوگوں کو بہت ساری چیزوں سے کنارہ کر نے پر مجبور کردیا ہے۔مثلاً   بچوں کے پیمپرز ، خواتین کے    پیڈز اور بہت ساری اشیاء جو بآسانی خریدی جاسکتی تھیں ، اب اسے خریدنا مشکل ہوگیا ہے۔

اس مہنگائی کی وجہ سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہوکر خود کشیوں  کی کوشش کر رہے ہیں ۔ گھروں میں خاندان اک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں ۔ ہر دوسرا شخص ڈبل جاب کرنے پر مجبور ہے۔اک وقت تھا کہ بھکاریوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی اور وہ بھی عادی بھکاری، لیکن اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جس طرف   بھی دیکھو بھکاریوں کی اک فوج  ظفر موج نظر آتی ہے ۔ جس میں عادی ، نشئی ، اور مجبور سب  شامل  ہوتے ہیں ۔ بندہ سوچتا ہے کہ اصل حقدار ہے کون؟

مہنگائی کا گراف جس تیزی سے اوپر کی طرف گیا ہے اگر اس حساب سے مزدور کی مزدوری بھی بڑھتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ یہاں سرمایہ دار تو دن بدن اپنے پیسوں میں بے پناہ اضافہ کررہا    ہے،لیکن مزدور کی فکر بالکل نہیں کرتا۔

ہمارے معاشرے کا اک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارا سرمایہ دار ، جاگیردار، چودھری، سیٹھ سب اپنے مذہبی فرائض بڑے خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں۔ مثلا ً  حج، عمرہ، زکوٰۃ ، خیرات ان سب میں آگے آگے پیش ہونگے ۔ لیکن ان کے پاس کام کرنے والے مزدور ہمیشہ اپنے مالکان سے گِلہ کرتے نظر آئیں گے۔ بہت سارے ایسے بھی ہونگے جو اپنے پاس کام کرنے والوں کا خیال رکھتے ہونگے، لیکن اکثریت زیادتی کرنے والوں کی ہے۔

اس وقت ملک کے جو حالات ہیں وہ تو یہی بتاتے ہیں کہ ملک معاشی لحاظ سے صحیح  سمت کی طرف نہیں جارہا، بلکہ اک لولی پاپ ہے جو قوم کو دیا جارہا ہے۔
عمران خان کی حکومت سے لیکر اور اب تک کی پی ڈی ایم نے جو بھی کارکردگی دکھائی ہے وہ سوائے اک دوسرے کو ننگا کرنے کے کچھ بھی نہیں۔ ان کی سیاسی لڑائیوں نے ملک اور قوم دونوں کو بدحال کر کے رکھ دیا۔

ان سیاسی جماعتوں سے حاصل تو کچھ بھی نہیں لیکن عذاب ضرور دے جاتے ہیں ۔ عمران خان کے دور کا کرونا اور پی ڈی ایم حکومت کا بارشوں سے بننے والا سیلاب۔ حکمران بھی شاید خوش ہی ہوتے ہیں ان تباہ کاریوں سے ، اور کچھ نہیں  تو بیرون دنیا سے چندے کی مد میں اچھا خاصا پیسہ اپنے لیے اکٹھا کر لیتے ہیں۔ جس میں سے کچھ رقم تباہ حال  غریبوں پر لگا دیتے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرہ   کے برابر بھی نہیں ہوتے۔ باقی رقم اپنے اکاؤنٹ میں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کبھی کبھار تو خوف آتا ہے مہنگائی کا یہ نہ تھمنے والا طوفان دیکھ کر، اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ڈکیتی کی   وارداتوں  کی خبریں  میڈیا پر گردش کر رہی ہیں وہ عوام کے لیے بہت ہی تشویشناک ہے۔ آئے روز کراچی کی سڑکوں پر نوجوانوں کو لوٹا جارہا ہے اگر کوئی مزاحمت کرتا ہے تو اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
ان تمام معاملات کی ذمہ دار حکومت ہے ،   ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قوم کو ریلیف دیا جاتا  مگر یہاں حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں ۔
اب بھی وقت ہے حکمرانوں کو اپنا  قبلہ  درست کر لیناچاہیے۔  ایسا نہ ہو کہ انہیں بھی سری لنکا والی صورت حال سے واسطہ پڑ جاجائے۔

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply