• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پارلیمان سے قوانین کی منظوی اور ہمارے معاشرتی رویے!۔۔اداریہ

پارلیمان سے قوانین کی منظوی اور ہمارے معاشرتی رویے!۔۔اداریہ

طا ہریاسین طاہر کے قلم سے؛

پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل اور ریپ سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کرلیے ہیں۔ یہ دونوں بل پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیے تھے۔اس بل کے تحت غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات کو ناقابل تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور بل کے تحت مجرم قرار دیے جانے والے شخص کو عمر قید سے کم سزا نہیں دی جاسکے گی۔ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی جاسکے گی۔ ریپ کے مقدمات کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ نوے روز میں ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ دونوں بل گذشتہ ڈھائی سال سے التوا کا شکار تھے اور حکمران اتحاد میں شامل کچھ جماعتوں کے تحفظات کی وجہ سے یہ دونوں بل تاخیر کا شکار ہوئے۔اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریپ کے واقعات اگر تھانے کی حدود میں ہوں گے تو اس پر مجرم کو دوہری سزا دی جائے گی۔

حزب مخالف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اس بل میں دی گئی سزائوں پر تحفظات کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ جو بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا اس میں ان جرائم کی سزائے موت تجویز کی گئی تھی جس پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ مجرم کو 25 سال سے کم سزا نہیں ہوسکے گی۔واضح رہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل سے متعلق قانون کا اطلاق سوشل میڈیا کی سلیبرٹی قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں کیا گیا ہے جس کے تحت مدعی مقدمہ چاہے بھی تومجرموں کو معاف نہیں کرسکتا۔خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے دونوں بلوں کی منظوری کےپر اطمنان کا اظہار کیا ہے۔

یہ امر واقعی ہے کہ ہمارا معاشرہ نیم قبائلی،نیم خواندہ اور روایات کا پیرو ہے۔ ہماری بیشتر خانگی ،شادی بیاہ و موت فوت کی روایات بر صغیر کے سماجی رویوں سے جڑی ہوئی ہیں۔جہاں معاشرہ وڈیروں اور قبائلی و خاندانی روایات کا امیں وہاں غیرت بھی بات بے بات جاگتی رہے گی۔بے شک غیرت کے نام پہ قتل ایک سنگین جرم ہے بلکہ کسی بھی بے گناہ انسان کا قتل ایک جرم ہے جسے اسلام نے بھی پورے معاشرے کا قتل قرار دیا ہے۔اسی طرح جس معاشرے میں ہیجان اور عدم برداشت ہوگی وہاں تشدد کی نئی نئی قسمیں رواج پاتی رہیں گی اور ریپ بھی اسی متشدد اور ہیجان انگیز معاشرتی رویے کا ایک تکلیف دہ پہلو ہے۔ایسی کئی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں کہ کسی دوشیزہ کو اس کے بھائی،باپ،چچا کسی کزن،حتیٰ کہ ماں تک نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا اور انھیں معاف کر دیا گیا۔اس سے ایسے قتل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بسا اوقات لڑکی کومحض شک کی بنا پر ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح ریپ کے قریب قریب سارے ملزمان ہی عدم ’’ثبوت‘‘ اور گوہوں کی عدم دلچسپی کے باعث با عزت بری ہو جاتے ہیں۔اس حوالے سے چار گواہوں کی شرط اور دیگر پیچیدگیوں نے بھی ریپ کے واقعات کی حوصلہ افزائی کی۔جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی بھی نا ممکن ہے اور جرائم کی بیخ کنی بھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریپ کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا جانا ایک اہم اور ترقی پسندانہ پیش رفت ہے۔اہم سوال مگر مگر یہ ہے کہ کیا اان قوانین پہ عمل در آمد بھی ہو سکے گا؟قوانین تو پہلے بھی موجود ہیں مگر خواتین سمیت معاشرے کا ہر کمزور فرد عدمتحفظ کا شکار ہے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ملازم پیشہ خواتین جنسی طور پر ہراساں کی جاتی ہیں ۔ اس حوالے سے قانون موجود ہے۔ مگر بسا اوقات شکایات کے باوجود ملزم بچ نکلتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پارلیمان کی طرف سے اس قانون کی منظوری خوش آئند بات ہے مگر پارلیمان کو معاشرے سے ہیجان،اور متشدد رویوں کے خاتمے کے لیے دیگر اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے جن میں سب سے اہم تعلیم کا فروغ ہے ۔ ایسی تعلیم جو ہماری رویوں میں مثبت تبدیلی لائے اور ہمیں مخالفت اور مناظرہ کرنے کے بجائے مکالمہ کرنے کا سلیقہ سکھائے۔ایک مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرہ ہی غیرت اور ریپ جیسے اندوہناک اعمال سے دانستہ خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ ترقی یافتہ اور مہذب کہلائے جانے ممالک میں بھی ریپ کے واقعات ہوتے ہیں،اور قتل و غارت گری بھی مگر ہم اپنے سماج اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی لا کر ایسے واقعات میں کمی ضرور لا سکتے ہیں۔اس سچ کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ انسان جب تک زندہ رہے گا جرم بھی ہوتے رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply