بے نظیر بھٹو کی دو بار جلاوطنی(1)-عامر حسینی

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کے جلاوطنی کے دونوں ادوار بہت اہم تھے۔
1984ء میں بی بی اپنے علاج کے لیے لندن روانہ ہوئیں, یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق پی پی پی کو ختم کرنے کے لیے جبر، دباؤ، پروپیگنڈے کی ہر ایک تدبیر آزما چکا تھا۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی والدہ کے ساتھ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی پی اور اس کے جمہوری آدرشوں کو بچانے کے لیے سرگرم عمل ہوئی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق نے ریاستی جبر کے سہارے اور افغانستان کی جنگ سے پیدا ہونے والے مواقع کو پی پی پی کی  سیاست کا باب ختم کرنے کا بہترین وقت خیال کیا تھا۔ خود پی پی پی کی تنظیمی حالت اور بھٹو صاحب کے اکثر ساتھیوں کی منتشر خیالی، کئی ایک انکلز کی موقع  پرستی، پی پی پی کے خلاف پاکستان کے روایتی حکمران طبقات کے گٹھ جوڑ نے اُسے اس زعم میں مبتلا کردیا تھا کہ اب پی پی پی کے سیاسی ڈسکورس کو سیاست کے مین سٹریم دھارے سے باہر کرنے کا عمل نہایت آسان ہوگا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے جلاوطن صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواَز بھٹو نے جنرل ضیاء کی طرف سے بھٹو کی پھانسی اور دیگر اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف مسلح جدوجہد اور دہشت و تشدد کے استعمال کا راستہ  اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس سے خود پی پی پی کے کئی ایک نوجوان بھی متاثر ہوئے تھے اور اس نے میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ایک گویلا جنگ کرنے کے راستے پہ چلادیا تھا۔ گوریلا جنگ کا یہ طریقہ کار اُن دنوں عرب ممالک سمیت کئی اورممالک میں طاقتور سیاسی رجحانات میں سے ایک رجحان کے طور پہ موجود تھا۔

لیکن شہید بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے معروضی حالات اور بین الاقوامی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اُس راستے پہ نہ چلنے کا فیصلہ کیا اور اُن کے اس فیصلے کو پی پی پی کی سی ای سی اور دیگر پارٹی اداروں کے اکثر وابستگان کی تائید حاصل تھی ۔ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضیاء آمریت کے خلاف پُرامن، عدم تشدد پہ مبنی جمہوری جدوجہد کے راستے کو اختیار کیا ۔ اور ان کے اس راستے کو عوام میں بھرپور پذیرائی ملنا شروع ہوگئی ۔ جنرل ضیاء الحق نے اس دوران ایسے مواقع کی تلاش شروع کردی تھی جس سے اُسے پی پی پی کے خلاف ننگی جارحیت اور ننگے تشدد کا جواز ملے ۔ اب الذوالفقار کا حصہ رہنے والے میر مرتضٰی بھٹو کے قریبی ساتھی بھی یہ بات مانتے ہیں کہ ضیاء الحق آمریت الذوالفقار کے نیٹ ورک میں اپنے گماشتے، جاسوس، آلہ کار داخل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی جنھوں نے کئی مرتبہ الذوالفقار کو غیر مناسب موقع  پہ غلط اقدام اٹھانے پہ اکسایا۔ جیسے جسٹس مولوی مشتاق پہ قاتلانہ حملہ جس میں چوہدری ظہور الٰہی کا قتل ہوا۔ نام نہاد لیبیا سازش کیس جس میں کرنل عثمانی، کنیز فاطمہ اور دیگر مشکوک کرداروں کو آصف جاوید بٹ اور فرخندہ بخاری نے اپنی یادداشتوں میں بطور ریکارڈ کے درج کردیا ہے ۔ اور اُس کے بعد مارچ 1981ء میں طیارہ ہائی جیکنگ کیس جس نے جنرل ضیاء الحق کو نہ صرف پی پی پی بلکہ ہر جمہوریت پسند سیاسی گروپ کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن، سیاسی سرگرمیوں کو جبر سے روکنے اور بدترین سنسرشپ کے نفاذ کو ممکن بنادیا تھا۔ اس کے باوجود بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں نہ صرف پی پی پی کے وجود کو باقی رکھنے میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ انھوں نے فروری 1983ء میں بحالی جمہوریت کا ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی ۔

یہ درست ہے کہ الذولفقار کے قیام نے اور دو تین واقعات کو بنیاد بناکر ضیاء الحق رجیم نے جبر کی مشین کو تیز تر کر ڈالا تھا لیکن جس طرح سے پاکستان میں اُس وقت کے پرنٹ میڈیا میں اور سرکاری ذرایع ابلاغ نے الذوالفقار پہ اس کی ساری ذمہ داری ڈالی وہ انتہائی بدنیتی پہ مبنی حرکت تھی ۔ ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں بشمول پی پی پی کے اندر ضیاء الحق کے ایجنٹ موجود تھے جو پی پی پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی بحالی جمہوریت کی تحریک کے خلاف فوجی جبر و تشدد کو محض الذوالفقار کے اقدامات کا شاخسانہ قرار دینے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے تھے ۔

جنرل ضیاء الحق اور اس کے حواری اس بات سے اچھے سے واقف ہوچکے تھے کہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جب تک پاکستان کے عوام کے ساتھ رابطے کی سہولت رہے گی اُن کی حکومت خطرے میں رہے گی۔اس لیے دونوں کو بار بار جیل اور ہاؤس اریسٹ کیا جاتا رہا۔ بے نظیر کی ہمت کو توڑنے کے لیے ہر جتن آزمایا گیا اور اُن کو سکھر جیل میں ہی ختم کرنے کی کوشش ہوئی۔اُن کے کان اور دانت میں تکلیف کو کینسر کے مرض میں بدلنے کی کوشش ہوئی جو ناکام ہوئی ۔ اور ضیاء الحق پہ بے پناہ دباؤ پڑا تو وہ بے نظیر بھٹو کو علاج کی غرض سے لندن جانے کی اجازت دینے پہ مجبور ہوئے۔

اپنی ناکامی اور شکست کو چھپانے کے لیے اٌن دنوں اخبارات میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ بے نظیر بھٹو نے ضیاء الحق سے “ڈیل” کرلی ہے اور وہ اب وطن واپس نہیں آئیں گی۔

بے نظیر بھٹو کی شخصیت، اُن کے سیاسی قد کاٹھ کو گرانے کے لیے ضیاء رجیم نے “ڈیل” کا جو پروپیگنڈا کیا، یہ لفظ “ڈیل” بعد ازاں پاکستان میں اینٹی پی پی پی اور اینٹی بھٹوز پروپیگنڈے کا اہم ترین حصہ بن گیا اور اسے ضیاء الحق کے بعد اُس کی باقیات نے بھی بار بار استعمال کیا ۔

لیکن شہید بی بی اس پروپیگنڈے سے ذرا نہ گھبرائیں اور اس دوران ملے وقت کو انہوں نے غنیمت جانا اور انہوں نے یورپ اور امریکہ میں جنرل ضیاءالحق کی آمریت، اُس کے سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، زندہ ضمیر وکلاء، شاعر، ادیبوں اور صحافیوں پہ مظالم بارے مغربی پریس، عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی رائے عامہ میں آمریت کے خلاف رائے بیدار کرنے کے لیے انتھک محنت کی ۔

یہ سب آسان کام نہیں تھا اور نہ ہی مغربی رائے عامہ کے دباؤ کو بنانا کوئی سہولت رسا کام تھا۔

افغانستان میں چل رہی سوویت بلاک اور امریکی بلاک کی سرد جنگ نے ضیاء الحق کو اس کی خدمات کے پیش نظر “ڈارلنگ” بناکر رکھا ہوا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر اور ریگن کی حکمران حکومتیں جنرل ضیاء الحق کا مکمل ساتھ دے رہی تھیں ۔

ضیاء حکومت جیلوں میں سنگین الزامات کے تحت بند کیے گئے سیاسی قیدیوں کو اخلاقی مجرم، دہشت گرد بناکر پیش کررہی تھی ۔ اور وہ مغرب میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی پریس میں پورے ریاستی اور غیر ریاستی چینل استعمال کرکے پی پی پی سمیت اے آر ڈی کے اسیر قیدیوں، پاکستان میں شہری آزادیوں، انسانی حقوق کی پامالی، پریس کی آزادی کے نہ ہونے کے مقدمے کو مرکزی ایشو بننے سے روکنے کی کوشش کررہی تھی ۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحقی  ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے انتھک جدوجہد کی ۔

انہوں نے پی پی پی کے یورپی ممالک اور امریکہ میں جلاوطن ہوکر آنے والے کارکنوں کو پی پی پی کی تنظیم سازی کرنے کی طرف مائل کیا۔اُن کو احتجاجی جلسے اور ریلیاں نکالنے کو کہا۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور یورپ و امریکہ میں جمہوریت پسند سیاسی حلقوں اور مغربی پریس سے روابط کی طرف قدم بڑھایا ۔

مغربی اور امریکی عوام کے اندر پی پی پی کے عدم تشدد پہ مبنی بحالی جمہوریت کی جدوجہد کے مدعے کو اٹھانے کے لیے دن رات ایک کیے اور اس طرح سے مغربی رائے عامہ کا دباؤ اُن کی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی پر بڑھایا جس سے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو بہت سے سیاسی اسیروں کو پھانسی دینے جیسے گھٹیا اقدام سے رکنا پڑا، اُسے دکھاوے کے لیے ہی سہی بہت سے ایسے قدم اٹھانا پڑے جس سے پاکستان میں جبر اور گھٹن کی فضا میں کافی کمی آئی ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں اپنے قیام کے قریب قریب دو سالوں میں ہزاروں جلاوطن سیاسی کارکنوں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی سیاسی پناہ کو ممکن بنایا اور انہوں نے ان کارکنوں کو وہاں کی سیاسی ۔ سماجی زندگی میں فعال ترین کردار ادا کرنے کی طرف مائل کیا۔ بشیر ریاض جو لندن میں مغربی پریس تک پی پی پی کے مقدمے کے ڈرافٹ پریس کانفرنسوں اور پریس ریلیز کے زریعے بین الاقوامی میڈیا تک پہنچایا کرتے تھے اور بی بی شہید کے مغرب میں پریس سیکرٹری رہے انھوں نے اپنی تحریروں میں شہید بی بی کے جلاوطنی کے دور میں کی جانے والی کوشششوں پہ روشنی ڈالی ہے۔ فرخندہ بخاری مرحومہ نے اپنی یادداشتوں میں بتایا ہے کہ بی بی شہید نے فرخندہ بخاری سمیت کئی پی پی پی کی خواتین اور مردوں کو انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ لابنگ کرنے اور اُن کا حصہ بن جانے میں کتنی مدد کی ۔

بے نظیر بھٹو کی ان کوششوں سے ملک میں ایم آر ڈی کی تحریک میں پھر سے جان پڑگئی ۔ بین الاقوامی پریس اور حکومتوں کے رویوں میں بھی کافی بدلاؤ دیکھنے کو ملا۔ اور جنرل ضیاء الحق پہ بیرونی اور اندرونی دباؤ اتنا شدید ہوا کہ اُسے رسمی مارشل لاء اٹھانا پڑا اور ملک میں عام انتخابات کرانے پڑے۔

اس موقع  پہ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں ایک ڈمی سیاسی نظام لانے کی کوشش کی ۔ اُس نے غیر جماعتی بنیادوں پہ الیکشن کا انعقاد کرانے کا فیصلہ کیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے اکثر سیاسی رفقاء کی رائے یہ تھی کہ پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے سیاسی حالات ایسے نہ تھے کہ جن میں الیکشن سے دور رہا جائے۔ بے نظیر بھٹو ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں کو مشورہ دے رہی تھیں کہ انھیں غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے اُن میں حصہ لینا چاہیے اور اس فیصلے سے جنرل ضیاء الحق کے سامنے تین راستے بچتے تھے یا تو وہ الیکشن کے انعقاد سے بھاگ جاتا یا پھر اپنی بنائی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھاری تعداد میں ایم آر ڈی کے نمائندوں کو براجمان دیکھنے پہ مجبور ہوتا یا پھر کھلی دھاندلی کراتا ۔ یہ تینوں راستے ضیاء الحق کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتے۔ لیکن ایم آر ڈی میں شامل دیگر جماعتوں نے اس رائے سے اتفاق نہ کیا۔ اصل میں ان جماعتوں کو انتخابات میں اپنی کامیابی کا یقین نہیں تھا ۔ اور کہا جاتا ہے کہ جیسے ہی ایم آر ڈی نے بے نظیر کی غیر موجودگی میں انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو اس پہ جنرل ضیاء الحق سجدے میں گرگیا اور خوب خوشی منائی ۔

غیر جماعتی الیکشن کے بائیکاٹ نے پاکستان میں سیاست دانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جس کا جمہوریت اور سماجی مساوات پہ سرے سے یقین ہی نہیں تھا اور وہ بس اقتدار، طاقت و قوت کو پیسہ بنانے اور ریاست کے اندر نقب لگانے اور اسٹبلشمنٹ کے طاقتور ٹولے کے ساتھ اتحاد بناکر رکھنے کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے (اس قسم کی سیاست کی مثالی تجسیم بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ نواز کی شکل میں سامنے آگئی جو اسٹبلشمنٹ کے اندر بذات خود ایک اسٹبلشمنٹ بنی)

اس دوران بی بی شہید کو ایک اور بڑا جھٹکا لگا جب اُن کے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو پیرس کے ایک ہوٹل میں ضیاءالحق کے شکاری کتوں نے زھر دے کر شہید کردیا ۔ بی بی شہید اپنے بھائی کا جنازہ لیکر سکھر ائرپورٹ اتریں تو پی پی پی کے جیالوں، جیالیوں کا ایک ٹھاٹھے مارتا سمندر انھیں پُرسہ دینے پہنچا ہوا تھا۔

ضیاء آمریت بین الاقوامی اور قومی سطح پہ شدید دباؤ کا شکار تھی اور وہ بی بی شہید کو پاکستان آنے سے نہ روک سکی ۔ بی بی شہید دکھ اور تکلیف کی اس انتہائی شدید گھڑی میں بھی اپنے کارکنوں کو نہیں بھولیں وہ واپَس لندن گئیں اور ایک بار پھر سے وہ مغرب میں پی پی پی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے راہ کو ہموار کرنے میں جرات اور بے باکی سے کام شروع کردیا۔

بی بی شہید اپنی جلاوطنی کے دور میں جہاں بین الاقوامی سطح پہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف جدوجہد کررہی تھیں، وہیں پہ وہ پاکستان کے اندر بدلتے سیاسی حالات اور علاقائی سطح پہ رونما ہونے والی تبدیلیوں پہ بھی پوری نظر رکھے ہوئے تھیں ۔

اس دوران پاکستان میں ضیاء الحق نے جس غیر جماعتی سیاسی سیٹ اپ کو قائم کیا تھا وہ پہلے دن سے ہی ضیاء کے لیے بھی نیک شگون نہ بنا۔ ضیاء الحق قومی اسمبلی کا اسپیکر خواجہ صفدر کو لانا چاہتا تھا اور وہ ایک طرح سے ٹریڈر کلاس کے آدمی کو اس منصب پہ لانے کا خواہش مند تھا لیکن اس کوشش کو خاص طور پہ پنجاب کی زمیندار سیاسی اشرافیہ نے ناکام بنادیا ۔ اور اس کو دیکھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے پیر پگاڑا سے مدد طلب کی اور سندھ سے ایک سابق مرنج جان سویلین بابو محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا گیا۔ اس دوران جنرل ضیاء الحق نے پنجاب میں جب چیف منسٹر پیر پگاڑا کے رشتے دار اور پنجاب کی زمنیدار اشرافیہ کے فیورٹ سابق ریاست بہاول پور کے سابق وزیراعظم مخدوم زادہ حسن محمود کو بنانے کی بجائے لاہور کے ایک کاروباری گھرانے کے نوجوان میاں نواز شریف کو بنایا تو اس سے ضیاء الحق کے بنائے سیاسی سیٹ اپ میں اور تقسیم پیدا ہوگئی ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضیاء الحق کے حامی سیاسی کیمپ میں اس تقسیم سے ضیاء الحق رجیم کو مزید کمزور کرنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ جونیجو کی طرف اُن کا رویہ نرم ہوگیا ۔ اور انہوں نے پارٹی کی پاکستان میں موجود قیادت کو ایسے غیر جماعتی اراکین اسمبلی سے روابط بڑھانے کو کہا جو جنرل ضیاء سے اندرون خانہ ناراض تھے ۔ شاید یہی وقت جب یوسف رضا گیلانی کے شہید بی بی سے روابط ہوئے ۔ کیونکہ یوسف رضا گیلانی گروپ کو پہلے تو جنرل ضیاء الحق نے فخر امام کے گروپ کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا ۔ فخرامام گروپ نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ملتان کے قریشی گروپ اور ضلع ملتان سے منتخب رکن قومی اسمبلی جاوید ہاشمی کے گروپ اور گیلانی گروپ کے اتحادی لودھراں میں موجود کانجو گروپ اور شجاع آباد میں نون گروپ کو ساتھ ملایا لیکن پھر بھی مات کھاگئے ۔ جنرل ضیاء الحق نے فخر امام گروپ کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے اس کے بڑے اتحادی گروپ قریشی گروپ، جاوید ہاشمی گروپ کو توڑ لیا، قریشی گروپ سے گورنر اور نوجوان شاہ محمود قریشی کو پنجاب کا فنانس منسٹر بنادیا ۔

پنجاب کی سیاست میں تاجر وصنعتکار طبقات کے اہم عہدوں پہ فائز کرنے سے اس کےزمیندار اشرافیہ طبقاتی حریف سے مخالفت تیز ہوئی ہوئی ۔ ضیاء الحق اور اس کے حواری سیاست میں نووارد بلدیاتی سیاست سے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں وارد ہونے والے دکاندار، ٹھیکے دار، تاجر، صنعتکار شہری و قصباتی طبقے کو ضیاء الحق اور اس کے ملٹری کے اتحادی افسران کی حمایت حاصل تھی ۔ اور ضیاء الحق رجیم پنجاب کے زمیندار سیاسی اشرافیہ کو اس شہری تاجر و صنعتکار اشرافیہ کا جونئر پارٹنر بننے پہ مجبور کرنے لگا۔ بے نظیر بھٹو نے اس تضاد کا فائدہ بھی اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

اس دوران سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان جنیوا میں افغانستان پہ بات چیت نے جنرل ضیاء اور امریکی بلال کے درمیان رومانس کو بالکل ختم تو نہیں کیا تھا لیکن اس میں اب پہلے والی شدت نہیں رہی تھی ۔

بلاشبہ شہید بی بی کی جدوجہد نے بھی ضیاء الحق کو کافی کمزور کردیا تھا۔ انہوں نے جونیجو حکومت کے ضیاء الحق اور اس کے فوجی ساتھیوں سے پیدا ہونے والے اختلافات کا فائدہ اٹھایا۔ جونیجو سے بیک ڈور چینل رابطے کے دوران جونیجو کو بے نظیر بھٹو نے جینوا مسئلے پہ حمایت کا یقین دلایا۔ اور پھر بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا۔ اور یوں بے نظیر بھٹو اپریل 1979ء لاہور اترنے کا فیصلہ کیا ۔ اس واپسی کا احوال سب کو معلوم ہے ۔

وطن واپسی کے بعد بے نظیر بھٹو نے غیر جماعتی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور اُن سے غیر جماعتی اسمبلی سے مستعفی ہونے کو بھی کہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکی کوششوں سے ضیاء کا بنایا اپنا وزیراعظم جونیجو امریکی آشیر  باد اور کوئی شک نہیں ہے کہ وردی بے وردی بابو شاہی میں موجود امریکی اثر کی حمایت سے جنیوا مذاکرات کا حامی ہوگیا۔
بے نظیر بھٹو اس دوران جنیوا مذاکرات کے حوالے سے جونیجو کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت پہ رضامندی ضیاء کی عدم شرکت کی شرط پہ ظاہر کی جسے جونیجو نے منظور کرلیا۔ (جاری)

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply