• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یوریشیائی راہداری، شاہراہ ریشم کی تاریخ(2)۔۔اکرام سہگل

یوریشیائی راہداری، شاہراہ ریشم کی تاریخ(2)۔۔اکرام سہگل

دوسری صدی قبل مسیح سے 18 ویں صدی عیسوی تک تاریخی شاہراہ ریشم ایشیا اور یورپ کو ملانے والے زمینی تجارتی راستوں کا ایک نیٹ ورک تھا۔ یہ ان علاقوں کے درمیان معاشی، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی روابط کا مرکز تھا۔ صلیبی جنگوں کے علاوہ، یہ پرامن عالمگیریت کی ابتدائی مثال ہے۔ اس کے بعد یہ بدلے ہوئے سیاسی حالات کی وجہ سے غیر فعال ہو گیا۔
اس زمینی تجارت کو ’سلک روٹ‘ (شاہراہ ریشم) کا نام تو باقاعدہ طور پر بہت بعد میں دیا گیا ہے، تاہم کہا جاتا ہے کہ یہ پہلی بار مارکو پولو کے سفرنامے میں پایا گیا۔ مارکو پولو وینس کا تاجر تھا، وہ ایک کھوجی اور مصنف تھا، جس نے 1271 اور 1295 کے درمیان چین تک پہنچنے کے لیے ایشیا سے ہوتے ہوئے شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ سفر کیا تھا، جو دنیا کے چند زبردست ارضی مناظر کے ساتھ تقریباً 6،437 کلومیٹر (4 ہزار میل) تک پھیلی ہوئی ہے۔ شاہراہ ریشم میں گوبی اور تاکلامکان ریگستانوں کے ساتھ ساتھ پامیر پہاڑ بھی شامل تھے۔ اس نام نے چینی ریشم کو نمایاں کیا جو ایشیا اور یورپ بھر میں ان راستوں پر تجارت کی جانے والی ایک اہم پرتعیش چیز بن گئی۔ منگول خانہ بدوشوں، ہندوستانی راجاؤں، فارسی اور عثمانی سلاطین اور یورپی بادشاہوں اور رئیسوں کو ریشمی سوٹ اور کپڑے مہیا کرنے، اپنے ہلکے وزن، بیش قیمت اور منافع بخش ہونے کی وجہ سے یہ طویل فاصلے کی تجارت کے لیے ایک مثالی تجارتی جنس تھی۔ شاہراہ ریشم کی ترقی کے ابتدائی مرحلے میں چینیوں نے مغرب سے مہنگے گھوڑے، لوسرن اور انگور کے بیج حاصل کیے۔ قدیم دنیا سے انگور کی بیلوں کی کاشت ہوتی آ رہی تھی، اور زمانہ قدیم سے شراب تیار کی جا رہی تھی۔ لیکن دوسری تہذیبوں سے الگ رہتے ہوئے چینیوں کے لیے انگور ایک انوکھی چیز تھی۔ مزید برآں، چینی ایلچی بہت حیران ہوئے جب انہیں معلوم ہوا کہ نہ صرف چاول بلکہ بیریوں سے بھی شراب بنانا ممکن ہے، وہ بیریوں سے بالکل واقف نہ تھے۔ چینیوں نے بعد میں اپنے لیے دیگر زرعی فصلیں دریافت کیں، جیسا کہ سیم پھلیاں، پیاز، کھیرے، گاجر، انار، انجیر وغیرہ۔ مختلف اونی سامان، قالین، پردے، کمبل اور غالیچے بھی وسطی ایشیا اور مشرقی بحیرۂ روم سے چین آئے۔ ان چیزوں نے چینیوں پر بہت بڑا اثر مرتب کیا، جو اون اور سَن کی پروسیسنگ، قالین کی تیاری اور بنائی کے طریقوں سے ناواقف تھے۔ قدیم چین میں پارتھیا کے منقش پردوں اور قالین کی بہت تعریف کی گئی۔
چین میں وسطی ایشیا کی اونٹوں کی برآمد کو بہت سراہا گیا، جیسا کہ فوجی ساز و سامان، سونا اور چاندی، نیم قیمتی پتھر اور شیشے کی اشیا۔ سمرقند کا بنایا ہوا شیشہ خاص طور پر اس کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے قابل قدر تھا اور اسے پرتعیش سامان سمجھا جاتا تھا۔ دیگر سامان میں کھالیں، اون، سوتی کپڑے، سونے کی کڑھائی، غیر ملکی پھل، جیسا کہ تربوز، خربوزے اور آڑو شامل تھے۔ موٹی دم والی بھیڑیں، شکاری کتے، چیتے اور شیر بھی ان میں شامل تھے۔
ریشم سے ہٹ کر، چین کے قافلے پورسلین (چینی مٹی) کے نفیس ڈیزائنز میں برف جیسے سفید گلدان، پیالے، گلاس اور خوب صورت برتن لے کر گئے۔ چینی مٹی کے پتلے اور گونج دار برتن بنانے کا راز صرف چینیوں کے پاس تھا، اس لیے یورپی منڈیوں میں یہ بہت مہنگے تھے۔ اس دھات سے بنے کانسی کے زیورات اور دیگر مصنوعات، کانسی کے زینت آئینے، چھتریاں، معروف چینی وارنش سے بنی مصنوعات، ادویات اور پرفیومری بھی مشہور تھی۔ چینی تکنیکی ذہانت کی سب سے قابل ذکر ایجاد یعنی چینی کاغذ کو بھی بہت سراہا گیا۔ سونا، کھالیں اور بہت سے دیگر سامان بھی برآمد کیا گیا۔ تاجر چائے اور چاول، سن اور اونی کپڑے، مرجان، درختوں کا گوند اور آگ سے محفوظ رہنے والی ریشہ دار سلیکائی دھات بھی لے جاتے تھے۔ تاجروں کی بوریاں ہاتھی دانتوں، گینڈے کے سینگوں، کچھوے کے خول، مصالحوں، سرامک اور لوہے کی اشیا، روغن اور دار چینی، ادرک، کانسی کے ہتھیاروں اور آئینوں سے بھری ہوتی تھیں۔
جہاں ہندوستان اپنے کپڑوں، مصالحوں اور نیم قیمتی پتھروں، کپڑوں کے رنگوں، اور ہاتھی دانت کے لیے مشہور تھا، اور ایران اپنی چاندی کی مصنوعات کے لیے، وہاں روم نے مصالحے، خوشبو، زیورات، ہاتھی دانت اور چینی حاصل کی اور یورپی تصاویر اور لگژری سامان بھیجا۔ مشرقی یورپ نے وسطی ایشیا سے چاول، کپاس، اونی اور ریشم کے کپڑے درآمد کیے، اور بڑی تعداد میں کھالیں، پوستین، اور پوستین والے جانور، کھالوں کو سڑنے سے بچانے والی پوست، مویشی اور غلام خورسم (آج ازبکستان اور ترکمانستان کا حصہ) برآمد کیے۔ شمالی یورپ پوستین، کھالوں، شہد اور غلاموں کا ایک ذریعہ تھا۔
سامان اور تجارت ایک طرف، ریشم کی شاہراہوں نے مختلف لوگوں، ثقافتوں اور مذاہب کو ایک دوسرے سے جوڑا۔ لوگوں نے دور دراز علاقوں کے بارے میں جانا، وہاں سے آنے والے تاجروں اور مہم جو افراد سے ملے، ان کی کہانیاں اور تجربات سنے، ان کے بالکل الگ کپڑے اور مختلف شکلیں دیکھیں۔ ان تجارتی روابط نے عالمگیریت کے ابتدائی مرحلے اور علم، ثقافت اور نظریات کے تبادلے کو فروغ دیا۔ اس نے سائنس کی ترقی کی حمایت کی۔ تجارتی قافلوں کے ساتھ مختلف مذاہب کے مبلغین نے بھی سفر کیا اور پورے ایشیا میں عیسائیت، اسلام اور بدھ مت کو پھیلایا۔ سفرناموں نے لوگوں کو فاصلوں، مختلف ممالک اور مختلف خطوں کے جغرافیے سے روشناس کرایا؛ سفر کو آسان اور روابط کو زیادہ قابل اعتماد بنانے کے لیے ابتدائی نقشے بنائے گئے۔ ایک اور خصوصیت زبانوں کے درمیان الفاظ کا تبادلہ ہے۔ آج تک مغرب عربی نمبروں اور عربی سے گہرا تعلق رکھنے والے الفاظ کا استعمال کر رہا ہے، روز مرہ کے الفاظ جیسا کہ شوگر (سُکر)، کاٹن (قتن) یا میگزین (مَحَذین)۔ زیادہ پہچانے جانے والے الفاظ میں جیسا کہ الجبرا (الجبر)، الکحل (الکحُل)، الکیمی (الکیمیا) شامل ہیں۔ عرب فلسفے اور سائنس کے کاموں نے ’تاریک دور‘ کے بعد مغربی سائنس کی بحالی کو تحریک دی۔
پوری تاریخ میں جیسے جیسے جغرافیائی و سیاسی سیاق بدلتا رہا، ویسے ویسے تجارتی راستے بھی بنتے اور منتقل ہوتے رہے۔ مثال کے طور پر، رومی سلطنت کے تاجر روم کے دشمن پارتھیوں کے علاقے کو عبور کرنے سے بچنے کی کوشش کرتے تھے، اور اس وجہ سے اس کے بجائے شمال کی طرف، قفقاز کے علاقے اور بحیرہ کیسپین کے راستے اختیار کیے۔ اسی طرح، قرون وسطیٰ کے ابتدائی دور میں وسطی ایشیائی میدانوں کو عبور کرنے والے دریاؤں کے نیٹ ورک پر جہاں وسیع تجارت ہوئی، وہاں ان دریاؤں کے پانی کی سطح بھی گھٹتی بڑھتی رہی، اور بعض اوقات دریا مکمل طور پر خشک ہو گئے، جس کی وجہ سے تجارتی راستے منتقل کیے گئے۔
جزیرہ نما عرب، میسوپوٹیمیا اور وادی ٔ سندھ کی تہذیب کے درمیان رابطے جوڑنے والے سمندری راستوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ ابتدائی قرون وسطیٰ نے اس نیٹ ورک کی توسیع دیکھی، کیوں کہ جزیرہ نما عرب کے ملاحوں نے بحیرہ عرب اور بحر ہند میں نئے تجارتی راستے بنائے۔
درحقیقت، عرب اور چین کے درمیان بحری تجارتی روابط آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل ہی سے قائم تھے۔ جہاز رانی کی سائنس، فلکیات اور جہاز سازی کے طریقوں میں اور اس کی ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی ہوتی رہی، اور اس کے ساتھ ساتھ طویل فاصلے کا سمندری سفر قابل عمل ہو گیا تھا۔ ان راستوں کے ساتھ ساتھ جن بندرگاہوں پر بہت زیادہ آمد و رفت رہی، وہاں ساحلی شہر آباد ہو گئے، جیسا کہ زنجبار، اسکندریہ، مسقط اور گوا۔ اور یہ شہر بڑی مارکیٹوں اور مسلسل بدلتی تاجر و ملاح آبادی کے ساتھ ساتھ تجارتی اشیا، خیالات، زبانوں اور عقائد کے تبادلے کے متمول مراکز بن گئے۔
شاہراہ ریشم کے پرانے تجارتی راستوں کے ساتھ ساتھ آج بھی کئی تاریخی عمارات اور یادگار ایستادہ ہیں، جو کاروان سراؤں، بندرگاہوں اور شہروں سے گزرنے والی شاہراہ ریشم کی گزرگاہ کی نشان دہی کرتی ہیں۔ تاہم، اس قابل ذکر نیٹ ورک کے دیرینہ اور جاری ورثے کے خدوخال کئی بالکل الگ لیکن باہم متصل ثقافتوں، زبانوں، رسوم و رواج اور مذاہب میں دکھائی دیتے ہیں، جو ان تجارتی راستوں کے ساتھ ہزار سال میں تشکیل پائے ہیں۔ مختلف قومیتوں کے تاجروں اور مسافروں کے گزرنے کے نتیجے میں نہ صرف تجارتی تبادلہ ہوا بلکہ ثقافتی میل جول کا ایک مسلسل اور وسیع عمل بھی رونما ہوا۔ ابتدا (یعنی تحقیقی نقطہ ٔ آغاز) ہی سے سلک روڈز یوریشیا بھر میں اور اس سے کہیں زیادہ پرے علاقوں میں متنوع معاشروں کی تشکیل کے لیے ایک محرک قوت کے طور پر سامنے آئیں۔
شاہراہ ریشم کا سفر اور تجارت اس وقت بہت مشکل ہوگئی جب 1453 میں سلطنت عثمانیہ نے مغرب کے ساتھ تجارت بند کر دی۔ سولہویں صدی میں جدید نوآبادیات کے آنے کے ساتھ، سمندری تجارتی راستے نوآبادیاتی طاقتوں کے ہاتھوں میں چلے گئے، جن کے پاس بحری جہازوں کے بڑے بیڑے تھے، جنہوں نے اشیا اور لوگوں کے نقل و حرکت پر اجارہ قائم کر لیا۔ ریاستوں کے مابین ’’قومی‘‘ سرحدیں کھڑی کیے جانے سے زمینی راستے ہی غیر فعال ہو گئے جو آج بھی سامان، خیالات اور انسانوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ہیں۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جسارت

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply