نعمتوں کا جب شمار کرنا ۔۔۔۔ احمد رضوان

اگر انسان کو اپنی زندگی میں میسر اسباب اور آسائشات کا ادراک نہ ہو تو اپنے سے کمتر اور ابتر پر نظر ڈالنا کافی چشم کشا ہوتا ہے۔ انسان غریب ہو تو ہو غریب الدیار کبھی نہ ہو ، نہ گھر بار اپنا، نہ دوست یار اپنا ، کوئی اجنبیت سی اجنبیت ہے والی کیفیت ہوتی ہے مگر جب آپ اپنے وطن میں ہی غریب الدیار کی کیفیت میں رہیں تو یہ کیفیت ایک ایسی بے بسی کی صورت اختیار کر لیتی ہے کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔

آزادی کی قدر و قیمت کیا ہے اسکےصحیح ادراک کیلئے محکوم و مجبور قوموں کے شب و روز کا مطالعہ آپ کی نیم وا آنکھوں کے پٹ مکمل کھول کر آپ کو وہ سبق پڑھا اور سکھا سکتا ہے جس کو کئی نسلیں اس اپنے جسم و جان اور روح کی غلامی سے تحریر کر رہی ہوتی ہیں . جن مظالم کا شکار اس وقت مقبوضہ کشمیر کے عوام ہیں، اس طرح کے جبر و استبداد کی مثال اس خطہ میں ملنا مشکل ہے . حالیہ جاری تحریک سے جو نئی لہر ابھری ہے وہ خالصتاً کشمیر کے اپنے لوگوں کی شروع کردہ ہے جسے عامۃ الناس کی عمومی حمایت حاصل ہے۔

پاکستان کشمیر کو اپنا ایک اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے ہر حال میں اپنے کشمیری بھائیوں کی سفارتی اور اخلاقی حمایت ہمیشہ سے کر رہا ہے اور ان شاء اللہ کرتا رہے گا مگر حالیہ تحریک چیزے دیگر است۔۔۔ اور یہی ہندوستانی حکومت کا اصلی درد سر ہے . اس سے قبل وادی میں جاری مزاحمت کو سرحد پار سے سپانسرڈ آتنک واد کا نام دے کر سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کامیاب کوشش کی جاتی تھی مگر اب یہ تحریک ایک ایسا مسئلہ بن گئی ہے جس پر مودی سرکار عمودی بلکہ موُدھی (پنجابی میں اوندھی ) ہوگئی ہے . بھارتی سیاست اور سیاستدانوں کو سمجھنے کے لئےمیکاولی کی پرنس اور چانکیہ کوٹلیہ کی ارتھ شاستر سیاسی بائبل کا درجہ رکھتی ہیں۔، خصوصاً اس ذہنیت کو مکمل طور پر پرکھنےکے لئے کہ کس طرح انکی چلائی گئی چالوں کو واپس ان پر موڑنا ہے۔

ہمارے تاریخی اور سماجی تعلقات صدیوں سے قائم ہیں اور امید ہے کہ یہ ایسے ہی رہیں گے۔ اس لئے سابقہ تاریخ کی روشنی سے سبق سیکھے جائیں اور ان کی شاطرانہ چالوں کو سمجھتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں . یادش بخیر 2000 میں ایک چٹی سنگھ پورہ سانحہ ہوا تھا جس میں کشمیر میں بسنے والے سکھوں کا رات کی تاریکی میں قتل عام کیا گیا تھا، صدر کلنٹن کے دورہ انڈیا و پاکستان سے عین قبل، جس کا ذکر میڈلین آلبرائٹ نے بعد میں اپنی کتاب میں کیا تھا کہ کشمیر کے ایشو پر پاکستان کو دباؤ میں لاکر انکا پاکستان کا دورہ ملتوی کروانا اور دہشت گردی کا الزام لگانا تھا مگر یہ منصوبہ بھی ناکام رہا تھا .

اب اڑی حملہ کی آڑ میں کشمیر میں جاری تحریک کو سرحد پار سے آنے والوں کے ساتھ جوڑ کر اس مسلہ کو متنازعہ بنا کر اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس سے کچھ روز قبل وقوع پذیر کروا کر وہی ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ورنہ انڈین وفد کے پاس کسی مدعے پر تقریر کرنے کے لئے کچھ خاص نہیں تھا مگر جس مضبوطی اور جرات مندی سے وزیر اعظم پاکستان نے کشمیر کا مقدمہ پیش کیا اس کے بعد بھارتی وفد آئیں بائیں کے سوا کچھ خاص نہ کرسکا اور ڈگی کھوتے توں اور غصہ کمہار تے کے مصداق سارک کانفرنس ملتوی کروا کر اپنا غم و غصہ نکالنے کی کوشش کی۔ یہ ایسے ہی ہے جب کوئی بیوی کو شاپنگ کے بہانے لے جائے اور سارے سپر اسٹورز پر گھمانے کے بعد آخر میں آتے آتے سڑک کنارے سے دس روپے کا گجرا لے کر ٹرخا دے یا انسان مال روڈ پر دکان خریدنے نکلے اور آخر میں فٹ پاتھ پر ٹھیلا لگا کر خوش ہوجائے .

جو لوگ بات چیت کو ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ان سے دست بستہ عرض ہے کہ آپ کی بات سے کلی اتفاق ہے مگر پچھلے ستر سال سے بات چیت کا حربہ صرف ڈنگ ٹپاؤ کے لئے ہی استعمال ہوا ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا . پریشر ککر میں جب تک پریشر نہ بنایا جائے تب تک اس کی سیٹی نہیں بجتی۔ وقت آگیا ہے کہ اب ڈائلاگ کے ساتھ ساتھ مزاحمت کا پریشر بنایا جائے اور اسے برقرار رکھا جائے اور اسکی بھرپور حمایت ہر فورم پر کی جائے کہ اقوام عالم اب پیچھے ہٹنے یا کسی دوسری آپشن کے بارے سوچنے کی بجائے کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرنے پر مجبور ہو جائے ورنہ اس خطے میں پائیدار امن شاید کبھی بھی نہ آسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سی پیک کے منصوبوں میں رخنہ اندازی کی سعی ناکام یا پانی بند کرکے اپنی طرف سے دھمکی دینا مقصود ہے تو یہ بات متعدد بار دہرائی جا چکی ہے کہ آنے والی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ اگر آپ اسے سچ ثابت کرنے پر تلے ہیں تو ست بسم اللہ یوں ہی سہی۔ شائد اسی بہانے کشمیریوں کی آزادی کی راہ بھی ہموار ہوسکے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply