نظریے کی طاقت اور ظالموں کے نظریات۔۔نذر حافی

محترم رائے یُوسُف رضا دھنیالہ کا تعلق جہلم کے ایک معروف دینی و سیاسی گھرانے سے ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے وہ ایک واقعے پر نالاں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ 9 محرم الحرام کو اُن کے ایک دوست اور ڈنگہ پریس کلب کے صدر نوید شہزاد مغل صاحب کو اغواء کرنے کے بعد اُن کی تذلیل کی گئی۔ اُن کے مطابق اُن کے دوست کا جُرم بااثر شخصیات خصوصاً پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے کی کرپشن کو بے نقاب کرنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ایم این اے کی طرف سے ڈنگہ، لالہ موسیٰ اور کھاریاں روڈز کے ٹھیکوں اور تعمیرات میں شفافیت پر سوال اٹھانے کی پاداش میں اُن کے صحافی دوست کو اُٹھایا گیا۔ اُنہیں افسوس ہے کہ تھانہ ڈنگہ میں نہ تو ایف آئی آر درج ہو رہی ہے اور نہ ہی کوئی ایک مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار ہے۔ راقم الحروف گذشتہ چند روز سے مسلسل اُن کے زبانی و قلمی احتجاج کا شاہد ہے۔

ایسے واقعات ہمارے ہاں آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ اس دنیا میں اکثر پرانے معرکے ہی تکرار ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم کچھ ایسے لوگ بھی اِس دنیا میں جنم لیتے ہیں، جو دنیا کے بہاو اور دباو کا سینہ شق کرکے اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ انسانی شعور کی زندگی ایسے ہی لوگوں کی محتاج ہوتی ہے۔ اگر ایسے مُنفرد لوگ دنیا میں جنم نہ لیں تو انسانی سوچ کے متعفن جمود کے باعث، انسانی سماج ایک غلیظ مُردار میں تبدیل ہو جائے۔ سماج کے سینے میں ہمیشہ پانچ طرح کے لوگ رہتے ہیں: ایک، ظلم کرنے والے اور ظالموں کی مدد کرنے والے۔ دو، بظاہر غیر جانبدار لیکن دِل سے ظالموں کے افعال پر راضی اور خوش ہونے والے۔ تین، ظالموں سے ٹکرانے اور اِس راستے میں جانیں قربان کرنے نیز قید و بند برداشت کرنے والے (مظلومین)۔ چار، مظلوموں کیلئے ببانگِ دہل واویلا کرنے والے، آواز اٹھانے والے، اُن کیلئے احتجاج کرنے والے، مظلوموں کی یاد کو زندہ رکھنے والے، ان کیلئے سینہ کوبی و ماتم کرنے والے۔۔۔ پانچ، ظالموں کو پہچاننے کے باوجود خاموش اور غیر جانبدار رہنے والے۔

زمانہ، مُلک، علاقہ اور شہر کوئی سا بھی ہو۔۔۔ جہاں جہاں انسان بستے ہیں، وہاں وہاں یہ پانچوں طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ محترم رائے یُوسُف رضا دھنیالہ نے اپنی آخری تحریر میں ظُلم دیکھ کر خاموش اور غیر جانبدار رہنے والے اس سماج کو تازیانہ لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ “میں ذاتی طور پر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا، اس کا انجام چاہے کچھ بھی ہو۔” یہ وہ جملہ ہے، جو دنیا کے سارے باشعور انسانوں کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ حقیقت میں یہ جملہ نظریاتی جنگ کا سب سے کارگر اور کارساز جُملہ ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص یہ فیصلہ کر لے کہ “میں ذاتی طور پر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا، اس کا انجام چاہے کچھ بھی ہو۔” تو یقین جانیں کہ حضرتِ انسان کی تقدیر سنور جائے گی۔

اِنسان پر اتنا ظلم ظالموں، وڈیروں، فرعونوں اور جابروں کی وجہ سے نہیں ہوا، جتنا ظالموں کے مقابلے میں نیوٹرل اور خاموش رہنے والوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب حق اور باطل، درست اور غلط، نیز ظالم اور مظلوم کا فیصلہ کرنا ہو تو نیوٹرل اور غیر جانبدار یا تماشائی بن جانا دراصل باطل، غلط اور ظالم لوگوں کی حمایت کرنا ہے۔ ظُلم دیکھ کر خاموش رہنے والی بے ضمیر اکثریت کو بیدار کرنے کیلئے کچھ لوگوں کو ہر دور میں چیخ و پکار، واویلا اور سینہ کوبی کرنی ہی پڑتی ہے۔ رائے یُوسُف رضا دھنیالہ کا یہ واویلا ایک فرد کا احتجاج نہیں بلکہ یہ انسانی تاریخ کا سفر ہے۔ بقولِ اقبال:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مُصطفویؐ سے شرارِ بُولہبی
نظریئے کی طاقت اور ظالموں کے نظریات کا ہمیشہ سے ٹکراو رہا ہے۔ نظریئے کی طاقت یہ ہے کہ حسین ابنِ علی ؑ بظاہر سر کٹوا کر اور سب کچھ لُٹا کر اقوامِ عالم عالم کیلئے نمونہ عمل ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا تھا:
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؑ
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؑ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو!
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسینؑ
یہ نظریئے کی طاقت ہے کہ ہر مظلوم اپنے آپ کو حسینی اور ظالموں کو فرعون، نمرود اور یزید کہتا ہے۔ ایسا ہی کچھ رائے یُوسُف رضا دھنیالہ نے بھی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ “میں ایسے کپتان پر لعنت بھیجتا ہوں، جس کے کھلاڑی، ٹکٹ ہولڈر، ایم این اے اور مقامی نمائندے اپنے اپنے علاقے کے فرعون اور یزید ہوں اور۔۔۔”

انہوں نے اُس کپتان پر لعنت بھیجی ہے، جس کے کھلاڑی۔۔۔۔ فرعون اور یزید ہوں۔ یعنی اُن کا کپتان سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے، بلکہ فرعون اور یزید نما کھلاڑیوں کی وجہ سے یہ اختلاف نظریاتی اختلاف ہے۔ یہ اُن کے نظریئے کی طاقت ہے کہ وہ تنِ تنہاء ایسے کپتان اور اُس کی ٹیم سے اختلاف کر رہے ہیں۔ یہ نظریئے کی ہی طاقت ہے کہ ایک نظریاتی آدمی غلط لوگوں کے کسی اجماع، اجتماع، جغرافیے، پارٹی، زبان اور گروہ کے بجائے صرف حق اور سچ کو مانتا ہے۔ نظریئے کی طاقت یہ ہے کہ نظریاتی آدمی کیلئے صرف حق ہی حق ہے، فقط درست ہی درست ہے، لیکن ظالموں کا نظریہ یہ ہے کہ حق اور درست نام کی کوئی چیز نہیں، وہ جس چیز پر بھی اتفاق اور اجماع کر لیں، وہ جو اور جیسی ٹیم بھی بنا لیں، جس باطل اور جس غلط پر بھی اکٹھے ہو جائیں، وہی باطل حق اور وہی غلط درست ہو جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نظریئے کی طاقت یہ ہے کہ ایک نظریاتی شخص اپنے انجام کی پرواہ کئے بغیر ظُلم کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے اور ظالموں کا نظریہ یہ ہے کہ وہ جو بھی کریں، اُنہیں ظالم، باطل اور غلط نہ کہا جائے۔ یاد رہے کہ رائے یُوسُف رضا دھنیالہ اگر پی ٹی آئی کے کپتان کی ٹیم کے فرعونوں و یزیدوں سے نالاں ہیں تو اُسی کپتان کی ٹیم کے ہی شہباز گل پر ہونے والے تشدد پر بھی افسردہ اور سیخ پا ہیں۔ یہی انسان کا فطری راستہ ہے۔ انسان کو بغیر کسی تعصب کے ظُلم کو ظُلم، غلط کو غلط اور باطل کو باطل کہنا چاہیئے۔ ظالم اور مظلوم، درست اور غلط نیز حق اور باطل کو برابر اور ایک جیسا کہہ دینا اور یا پھر غیر جانبدار ہو جانا یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یہ عہد کرے کہ “میں ذاتی طور پر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا، اس کا انجام چاہے کچھ بھی ہو۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply