ہیٹ (HATE)۔۔جاوید چوہدری

“تم وہابی ہو اور میں تم سے نفرت کرتا ہوں ” نوجوان کا منہ سرخ تھا، آواز غصے سے تھرتھرا رہی تھی اور ہاتھ کانپ رہے تھے، وہ میرے سامنے کھڑا تھا اور مجھے محسوس ہورہا تھا میں نے منہ کھولا تو وہ مجھ پر حملہ کر دے گا، میرے پاس دو آپشن تھے، میں خاموشی سے دائیں بائیں ہو جاؤں یا پھر اس کے ساتھ گفتگو شروع کر دوں، میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ میں فطرتاً بزدل انسان ہوں۔

میں ہمیشہ بلاوجہ لڑنے سے پرہیز کرتا ہوں، میرے ساتھ کوئی شخص اختلاف کرے یا چھوٹی موٹی زیادتی کر جائے تو میں اس کے ساتھ بحث نہیں کرتا، میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت میں بھی نہیں پڑتا، میں اس سے فوراً معذرت کر لیتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں، میرے دوستوں اور میرے عزیزوں کو یہ رویہ پسند نہیں، یہ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں “تم جواب کیوں نہیں دیتے، تم وضاحت کیوں نہیں کرتے؟” میں ان سے عرض کرتا ہوں “ہمارے معاشرے میں شک بھی ہے اور شدت بھی، ہم میں سے اکثر لوگ محض شک کی بنیاد پر رائے بنا لیتے ہیں اور بعدازاں اس رائے پر ڈٹ جاتے ہیں۔

ہم میں سے کوئی شخص پہاڑ کی دوسری طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا، ہمارے ملک میں 22 کروڑ لوگ ہیں، ان تمام لوگوں نے اپنا اپنا اسلام گھڑرکھا ہے اور یہ نہ صرف اس اسلام کو درست سمجھتے ہیں بلکہ یہ اسے دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، میں بھی اگر اس بھیڑ چال میں شامل ہو جاؤں تومعاشرے کی ہیٹ میں اضافہ ہو جائے گا، ہمیں کم از کم معاشرے میں برداشت کی روایات قائم کرنی چاہییں، ہمیں دوسروں کے نقطہ نظر کا احترام کرنا چاہیے، اگر انہیں میرے خیالات سے تکلیف ہو رہی ہے تومعافی مانگنے میں کیا حرج ہے؟” لیکن اس دن میں نے اپنی فطرت اور بزدلی کے برعکس نوجوان سے بحث کا فیصلہ کر لیا، میں نے اس سے پوچھا “تم مجھے وہابی کیسے سمجھ رہے ہو، میں آج تک وہابیوں کی کسی مجلس میں بیٹھا ہوں۔

میں نے آج تک ان کا کوئی لٹریچر پڑھا ہے اور نہ ہی میں نے ان کے کسی خیال کا پرچار کیا “اس کی آنکھوں کی لو اونچی ہو گئی، وہ چلا کر بولا “تم جھوٹ بول رہے ہو، تمہارے والد وہابیوں کے عالم تھے، انہوں نے وہابیوں کا کورس بنایا تھا، یہ وہابیوں کے مدرسے کے استاد بھی رہے اور تم ان کے انتقال کے بعد وہابیوں سے پنشن لے رہے ہو”۔

میں نے بڑی مشکل سے ہنسی ضبط کی اور نوجوان سے عرض کیا “بیٹا میرے والد ان پڑھ تھے، یہ ان پڑھ ہو کر کسی مکتبہ فکر کے لیے کورس کیسے بنا سکتے تھے، یہ کتابیں کیسے تحریر کر سکتے تھے؟” وہ ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا۔

اس نے دائیں بائیں دیکھا اور اونچی آواز میں ایک نام لے کر بولا “کیا یہ تمہارے والد نہیں تھے؟” میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا “ہر گز، ہرگز نہیں، میرے والد کا نام تو یہ تھا” اس نے چلا کر ایک عالم دین کا نام لیا اور پوچھا “کیا یہ تمہارا بھائی نہیں؟” میں نے عرض کیا “بالکل نہیں”۔

اس نے ایک لمبی سانس لی اور بولا “اس کا مطلب ہے مجھے غلط بتایا گیا تھا” میں نے ہاں میں سر ہلایا اور اس سے پوچھا “تمہیں یہ کس نے بتایا تھا؟” وہ نارمل ہو رہا تھا، اس نے لمبے لمبے سانس لیے اور بولا “میرے ایک دوست نے بتایاتھا، اس کا کہنا تھا، تم وہابی ہو اور تم ان کے عقائد کا پرچار کرتے ہو”۔

میں نے استغفار پڑھی اور اس سے کہا “میرے بھائی تم مجھ سے تصدیق کر لیتے” اس نے اس کا بڑا دلچسپ جواب دیا، اس نے کہا “میں وہابیوں سے بات کرنا گناہ سمجھتا ہوں ” میں نے اس سے پوچھا “بیٹا آپ کرتے کیا ہو؟” اس نے جواب دیا “میں ایم اے کر رہا ہوں “۔ میں نے قہقہہ لگایا، اس کے ساتھ ہاتھ ملایا اور آگے چل پڑا۔

یہ صرف ایک نوجوان کا المیہ نہیں، ملک میں ہر دوسرا بلکہ ہر پہلا شخص اسی قسم کی ذہنی صورت حال کا شکار ہے، ہمارے ملک میں پچھلے تیس برسوں میں تین بڑی نفسیاتی تبدیلیاں آئیں، پہلی تبدیلی، ترقی کے بارے میں لوگوں کا رویہ بدل چکا ہے۔

آج سے پچیس تیس سال پہلے لوگ ترقی کرنے والوں کو ہیرو سمجھتے تھے، کوئی شخص بزنس میں کامیاب ہو جاتا تھا تو لوگ اسے سراہتے تھے، کوئی بورڈ میں ٹاپ کر لیتا تھا تو والدین اپنے بچوں کو اس کی مثال دیتے تھے اور کوئی کونسلر لیول سے ہوتا ہوا ضلع کونسل کا چیئرمین بن جاتا تھا تو لوگ اس کو بھی آئیڈیل سمجھتے تھے لیکن پچھلے پچیس تیس برسوں میں اس ملک میں کامیابی گالی بن گئی ہے۔

ملک کے زیادہ تر لوگ اب کامیاب لوگوں کو بری نظر سے دیکھتے ہیں، ملک میں خوش حال لوگوں سے نفرت کی جاتی ہے، کوئی نئی گاڑی لے لے، کوئی فائیو سٹور ہوٹل میں کھانا کھا رہا ہو، کوئی اچھے کپڑے پہن رہا ہو، کوئی نیا گھر بنا لے یا کوئی ملک سے باہر چلا جائے لوگ اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔

یہ رجحان غلط ہے لیکن میں اس میں عام لوگوں کو برا نہیں سمجھتا، یہ پاکستان کی مجموعی سیاسی صورت حال کا نتیجہ ہے، ہمارے ملک میں پچھلے تیس برسوں میں ہر فیلڈ میں دو نمبر لوگ اوپر آئے چناں چہ انہیں دیکھ کر لوگوں نے کامیابی سے نفرت کرنا شروع کر دی مگر اس حقیقت کے باوجود یہ رویہ غلط ہے کیوں کہ جب کسی معاشرے میں کام یابی یا ترقی گالی بن جاتی ہے تو اس معاشرے کی گروتھ رک جاتی ہے۔

اس معاشرے کو نئے لیڈرز نہیں ملتے، دوسری تبدیلی شک ہے، ہمارا پورا ملک شک کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو چکا ہے، ہم سب لوگ دوسروں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں، ہمیں دوسروں کے سجدے، دوسروں کی نمازیں، دوسروں کے روزے۔

دوسروں کے حج اور دوسروں کے حلف بھی جھوٹے محسوس ہوتے ہیں، ہم دوسروں کی داڑھیوں، جبوں اور عماموں تک کو شک سے دیکھتے ہیں، ہمیں دوسروں کا ایمان بھی غلط محسوس ہوتا ہے اور ہم ہر دوسرے شخص کی نیت پر بھی شک کرتے ہیں، شک کی اس بیماری نے ہمارے یقین۔

ہمارے اعتماد کے ستونوں کوکھوکھلا کر دیا ہے اور ہم اب کسی شخص اور کسی ادارے پر یقین نہیں کرتے اور تیسری تبدیلی شدت ہے، ہمارے معاشرے میں شدت آ چکی ہے، ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں کی بات سننے کے روا دار نہیں ہیں، ہم دوسروں کے ایمان اور عقیدے تک کا فیصلہ خود کر رہے ہیں۔

آپ ملک میں کسی پر الزام لگا کر اسے مرزائی مشہور کر دیں، کسی کو شیعہ، سنی یا وہابی کہہ دیں، کسی کو امریکی، یہودی یا بھارتی ایجنٹ قرار دے دیں، کسی کو راشی، بدکردار یا منافق کہہ دیں یا کسی کو کسی کے پے رول پر ڈکلیئر کر دیں لوگ نہ صرف اس پر یقین کر لیں گے بلکہ اس “اطلاع” کو آگے پھیلانا اپنا فرض سمجھ لیں گے اور یوں وہ شخص رات تک پورے ملک میں “مشہور” ہو چکا ہوگا۔

اور یہ اطلاع جس جس شخص تک پہنچے گی وہ اسے اپنے یقین کا حصہ بنا لے گا اور آپ اگر اس کی تصحیح کی غلطی کر بیٹھیں گے تو وہ آپ پر حملہ کر دے گا، یہ رجحان کسی بھی طرح صحت مندانہ نہیں، انسانی تاریخ بتاتی ہے کسی قوم میں جب اس نوعیت کی شدت پیدا ہوئی تو وہاں مکالمہ رک گیا اور جہاں مکالمہ رکا وہاں تخلیق کا عمل جام ہو گیا اور جہاں تخلیقی عمل جام ہوا وہاں ترقی رک گئی اور آخر میں وہ پورا معاشرہ انارکی یا فسادات کی نذر ہو گیا۔ آپ یقین کیجیے ہم بھی اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ہیٹ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص معمولی اختلاف پر دوسرے کو قتل کرنے پر تیار بیٹھا ہے، آپ گلی، سڑک، بازار یا کسی شاپنگ سینٹر میں کسی سے بات کر کے دیکھ لیجیے وہ شخص آپ کے گلے پڑ جائے گا۔

آپ سڑک پر کسی کی غلطی کی نشان دہی کر دیجیے وہ آپ کا سر پھاڑنے پر آمادہ ہو جائے گا، یہ شدت، یہ ہیٹ اس معاشرے کا اصل المیہ ہے، یہ وہ چنگاری ہے جو کبھی مذہبی اختلاف کی شکل میں بھڑک رہی ہے، کبھی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے رد عمل میں سڑکوں اور گلیوں میں دکھائی دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کبھی مہنگائی کے ردعمل میں دکھائی دیتی ہے اور کبھی سیاسی محاذوں کو گرما دیتی ہے، کاش ہماری حکومت، ہمارا معاشرہ اس شدت پر توجہ دے کیوں کہ یہ بارود کا وہ ڈھیر ہے جس پر گلاب کی پوری فصل اگا دی جائے تو بھی موت کا دھڑکا باقی رہتا ہے، موت کا خوف گلاب کی پتیوں میں پنپتا رہتا ہے۔بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply